صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان سے پاکستان کے دیگر اضلاع کی جانب لوگوں کی نقل مکانی کئی دہائیوں سے جاری ہے جس کے بعد انہیں نئی رہائش تو میسر آتی ہے لیکن ان کی سیاسی شناخت برقرار نہیں رہتی۔
سید شریف اور ان کا خاندان بھی ہزاروں ایسے کوہستانیوں میں سے ہے جنہوں نے ناپید ہوتے ذرائع آمدن اور اپنی زمینیں داسو ڈیم کے سرکاری منصوبے کے اندر آ جانے کی وجہ سے کوہستان سے نقل مکانی کی۔
سید شریف کا خاندان کوہستان سے نقل مکانی کے بعد اب تین حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک بھائی سید جوہر کوہستان کی تحصیل پٹن میں موجود ہیں تاکہ شاملاتی زمین کی مد میں ملنے والی رقم وصول کرتے رہیں۔
دوسرے بھائی محمد زیور صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ میں اینٹوں کے بھٹے کے کام سے منسلک ہیں اور سید شریف خود صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی یونین کونسل اوگرہ میں اپنے خاندان کے 70 افراد کے ساتھ 14 کنال اراضی پر بنے کچے مکانوں میں رہتے ہیں۔
سید شریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارا خاندان 2016 میں اوگرہ منتقل ہوا تھا۔ پٹن میں ہمارے پاس شاملات کی کچھ زمین اور جنگلات تھے جہاں سے لکڑی بیچ کر اور موسمی سبزی اگا کر اپنی زندگی بسر کرتے تھے لیکن پھر لکڑی کاٹنے پر مکمل پابندی لگ گئی تو ہمارے لیے روزگار تنگ ہو گیا۔‘
سید شریف نے بتایا کہ ’وہاں پر شاملات کی زمین، جنگلات اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کی نگرانی کے لیے ایک عوامی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ جس میں شاملات کی الاٹمنٹ والے تمام خاندانوں کا ایک نمائندہ ہوتا ہے۔
’ہر نمائندے کو روزانہ کے تقریباً تین ہزار روپے ملتے تھے۔ یہ ماہانہ تقریباً 90 ہزار روپے بنتے تھے۔ اب 70 چھوٹے بڑے افراد پر مشتمل خاندان کی کفالت صرف 90 ہزار روپے سے تو نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ہم نے پٹن سے اوگرہ آکر رہنے کا فیصلہ کیا۔‘
سید شریف نے بتایا کہ ’جیسے ہی ہم نے نقل مکانی کا عمل شروع کیا تو پٹن کی عوامی کمیٹی نے زبانی احکامات دیے کہ اگر آپ کے خاندان کے تمام افراد علاقہ چھوڑ دیں گے تو آپ شاملات کی زمین سے محروم ہو جائیں گے۔
’پھر یہ زمین کسی اور خاندان کو الاٹ کر دی جائے گی۔ اس لیے ہم نے اپنے ایک بھائی کو پٹن میں ٹھہرانے کا فیصلہ کیا تاکہ جدی پشتی چلے آنے والے حق سے محروم نہ ہوں۔‘
سید شریف نے بتایا کہ ’اوگرہ منتقل ہونے کے بعد ہمیں محسوس ہوا کہ جب تک ہم یہاں کے ووٹر نہیں بنتے ہمیں سہولیات دینے کے لیے کوئی اہمیت نہیں دے گا۔‘
اس کی مثال دیتے ہوئے سید شریف نے بتایا کہ ’ہمارے گھروں میں بجلی نہیں تھی۔ ہم متعدد مرتبہ علاقے کے کونسلر اور ناظم کے پاس گئے۔ مگر انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ بالآخر ہمیں اپنے پیسوں سے بجلی کی تاریں بچھا کر بجلی کا کنکشن لگوانا پڑا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر کہ 2016 سے اب تک انہوں نے خود کو اوگرہ میں بطور ووٹر رجسٹر کیوں نہیں کروایا تو سید شریف نے کہا ’ہم چاہتے تھے بطور ووٹر اوگرہ میں رجسٹر ہو جائیں۔ موجودہ پتہ تبدیل کروانے نادرا پہنچے تو انہوں نے اوگرہ میں رہائش کا ثبوت مانگا۔
’اس وقت زمین ہمارے والد عمر دراز کے نام پر منتقل نہیں ہوئی تھی کیوں کہ زمین حاصل کرتے وقت صرف لیز یعنی محدود وقتی معاہدہ ہوا تھا۔ بجلی کا میٹر بھی نہیں لگا تھا تو ہم نادرا کو رہائش کا کوئی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر تھے۔‘
سید شریف سے جب زمین کی لیز اور اس سے منسلک دیگر مسائل سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اوگرہ میں زمین کو مستقل ملکیتی بنیادوں پر کوئی نہیں بیچ رہا تھا۔ اس علاقے کی آب و ہوا ہمارے پٹن سے ملتی جلتی تھی اس لیے ہم نے چار و ناچار محدود وقتی معاہدے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے یہ زمین حاصل کرلی۔‘
سید شریف نے بتایا کہ ’رہائش کا ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی سرکاری سکول میں تعلیم سے لے کر ووٹ رجسٹریشن تک ہر قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔
’کل کو اگر اس علاقے میں کوئی آسمانی یا زمینی آفت آ جاتی ہے تو ہم قانونی طور پر حکومت کی جانب سے کسی امداد کے بھی مستحق نہیں سمجھے جائیں گے۔
’اسی طرح مجھے یقین ہے کہ اگر ہم یہاں کے رجسٹرڈ ووٹر ہوتے تو ہمارے گھروں میں بجلی 2016 میں ہی لگ جاتی نہ کہ پانچ سال بعد 2021 میں اور وہ بھی اپنے خرچے پر۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے سید شریف کے بھائی سید جوہر سے پٹن میں گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ ’آج کمیٹی کی جانب سے مجھے صرف 1800 روپے دیے گئے ہیں کیوں کہ آج درختوں کی کٹائی کم ہوئی ہے۔‘
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سید جوہر نے بتایا کہ ’درختوں کی کٹائی کا فیصلہ محکمہ جنگلات کے ملازمین کرتے ہیں۔ وہ صحت مند درختوں پر نشان لگا دیتے ہیں۔ جن درختوں پر نشان نہیں ہوتا صرف انہیں کاٹا جاتا ہے۔
’بعض اوقات نشان سمجھ میں نہیں آتا یا مٹ جاتا ہے تو صحت مند درخت کاٹنے پر جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں بہت کم پیسے ملتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پیسے ملتے ہی نہیں ہیں۔‘
سید جوہر نے بتایا کہ ’جب سے ہمارا خاندان اوگرہ منتقل ہوا ہے تو صرف ایک مرتبہ ہی ان کے والد عمر دراز یہاں آئے ہیں۔ اس کے علاوہ کبھی بھی کسی فرد نے یہاں کا رخ نہیں کیا۔ بس میں ہی جب وقت ملے اور پیسے مناسب ہوں تو اوگرہ چلا جاتا ہوں۔‘
سید جوہر نے بتایا کہ ’پٹن میں ہم نے 18 سال نواز شریف کو ووٹ دیا۔ پھر ہم نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ آصف علی زرداری کو ووٹ دینا ہے۔
’لیکن 2016 کے بعد سے تو مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ہمارے خاندان کے کسی فرد نے بھی ووٹ ڈالا ہو۔ پٹن میں اور نہ اوگرہ میں۔‘
سید جوہر کے بھائی محمد زیور سے ٹھٹہ سے فون پر بتیا کہ ’میں یہاں اینٹوں کے ایک بھٹے پر منشی کا کام کرتا ہوں۔‘
ووٹ ڈالنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محمد زیور نے کہا کہ ’میرا ووٹ پٹن میں رجسٹر ہے۔ ہماری گھر کے تمام افراد کا ووٹ وہیں رجسٹر ہے۔ لیکن مالی طور پر ممکن نہیں کہ اتنا لمبا سفر اختیار کر کے پٹن جایا جائے۔ اب جب کہ ہمارے پاس پٹن میں رہائش کا بھی کوئی بندوبست نہیں۔‘
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پٹن میں موجود سید جوہر نے کہا کہ ’پٹن میں مقامی سیاست دان دیگر علاقوں میں نقل مکانی کرنے والوں کو یہاں لا کر ووٹ ڈلواتے ہیں لیکن صرف ایسے افراد کو جو ان کے پکے ووٹر ہیں۔‘
سید جوہر نے بتایا کہ ’میری عمر 37 سال ہے اور میں نے آج تک سکول اندر سے نہیں دیکھا۔ میں نے صرف قرآن پڑھنا سیکھا ہے اور پیسوں کا حساب کرنا جانتا ہوں۔ اب ہماری اولاد بھی اوگرہ میں مدرسے میں جاتی ہے اور سکول سے محروم ہے۔'
اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے سید جوہر نے بتایا کہ ’اوگرہ کے سرکاری سکول کی انتظامیہ نے ہم سے یہ کہہ کر بچوں کو داخلہ دینے سے معذرت کر لی کہ محدود سیٹوں کی وجہ سے ہم صرف اس علاقے کے پرانے رہائشیوں کے بچوں کو ہی داخلہ دے سکتے ہیں۔‘
شاملات کی زمین کی نگرانی کرنے والی عوامی کمیٹی کے ایک ممبر نادر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کوہستان سے نقل مکانی کر کے دیگر اضلاع میں جانے کی مختلف وجوہات ہیں۔ کوئی روزگار کے لیے گیا۔ کوئی کسی لڑائی جھگڑے سے بچنے کے لیے گیا۔
’ایک وقت میں یہاں ٹارگٹ کلنگ بھی ہو رہی تھی۔ بہت سے افراد نے اس سے بچنے کے لیے بھی نقل مکانی کی۔‘
نادر علی نے بتایا کہ ’پٹن کی عوامی کمیٹی میں اکثریت ایسے نمائندوں کی ہے جو اب اس علاقے میں اپنے خاندان کے واحد رہائشی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں ایسے افراد کو شاملات سے محروم کر دیا جائے لیکن اس کا فیصلہ جرگے سے اور انتظامیہ سے مل کر ہی ہوگا۔‘
مانسہرہ واپس پہنچنے پر محمد رفیق سے ملاقات ہوئی جو اوگرہ سے متصل علاقے قیوم آباد کے رہائشی ہیں اور کوہستان سے 2014 میں اپنے خادنان سمیت نقل مکانی کر کے یہاں منتقل ہوئے۔
محمد رفیق نے بتایا کہ ’میری عمر 19 سال ہے اور میرے والد ٹرک ڈرائیور ہیں۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ صرف سب سے چھوٹا بھائی محمد منور چھٹی سکول جاتا ہے جو چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے۔‘
محمد رفیق نے بتایا کہ ’ہم نے یہ زمین 2005 میں ہی خرید لی تھی اور میرے والد کے نام پر منتقل ہے۔ ہمارے شناختی کارڈ پر موجودہ پتہ بھی قیوم آباد کا ہے لیکن ووٹ یہاں پر رجسٹر نہیں ہیں۔‘
ووٹ ڈالنے کے حوالے سے محمد رفیق کا کہنا تھا کہ ’2014 کے بعد سے ہم لوگ ووٹ ڈالنے کوہستان نہیں گئے۔ لیکن اس مرتبہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے وہاں جانے کا ارادہ ہے۔‘
محمد رفیق سے بات کے دوران ان کے چھوٹے بھائی مسلسل منور اپنے دوستوں کے ساتھ مقامی زبان ہندکو میں گفتگو کرتے رہے۔ اس پر ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’پہلی سے لے کر چھٹی جماعت تک منور نے مقامی سکول میں تعلیم حاصل کی ہے۔ اس دوران انہوں نے مقامی زبان بھی سیکھ لی ہے۔‘
منور سے پوچھا گیا کہ وہ فارغ اوقات میں ٹی وی پر کیا دیکھنا پسند کرتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ’گھر میں ٹی وی موجود ہی نہیں کیوں کہ ہمارے پاس بجلی ہی نہیں ہے۔‘
محمد رفیق نے بتایا کہ ’ہم نے بجلی کے میٹر کے لیے کئی سالوں سے درخواست دے رکھی ہے لیکن کیوں کہ اس جگہ صرف ہمارا گھر ہے تو تاریں بچھانے میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے انتخابات مارچ کے آخر میں ہوں گے۔ اس کے پیش نظر صوبے بھر کی طرح مانسہرہ میں بھی انتخابی گہما گہمی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے مانسہرہ کی یونین کونسل پوٹھہ سے آزاد حیثیت میں ویلیج کونسل کے ممبر کا انتخاب لڑنے والے سید برادری کے ایک فرد نور فرمان سے بات کی۔
نور فرمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’2012 کے بعد کوہستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی بھرمار ہوئی۔ اس وقت میری یونین کونسل میں پندرہ کے قریب کوہستانی خاندان آباد ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کا بھی ووٹ یہاں رجسٹر نہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے استفسار پر نور فرمان نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے کا ایک مخصوص مزاج ہے۔ یہاں پر اکثریت آبادی ایک ہی خاندان کی ہے۔ جب یہاں پر باہر سے کوہستانیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور انہوں نے زمین خریدنا چاہی تو ہم نے ایک جرگے کے ذریعے فیصلہ کیا کہ انہیں زمین فروخت نہیں کرنی۔‘
اس بات کی تصدیق کے لیے جب کوہستان سے نقل مکانی کرنے والے محمد رفیق اور سید شریف سے سوال کیا تو انہوں نے کوئی جواب دینے سے انکار کر دیا۔
نور فرمان نے مزید بتایا کہ ’کوہستان سے آنے والے افراد نے اپنے معززین اور اپنے علاقے اور مسلک میں اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کے ذریعے سفارشیں بھجوائیں تو انہیں محدود مدت کے لیے زمین لیز پر دینے کی رضامندی ظاہر کی گئی۔‘
نور فرمان سے پچھا گیا کہ اس طریقے پر ہی رضامندی کا اظہار کیوں ہوا تو ان کا جواب تھا کہ ’یہ اس لیے تاکہ وہ ہمارے علاقے میں سیاسی طور پر اثر نہ بنا سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یاد رہے کہ عمومی طور پر دور افتادہ یونین کونسل یا ولیج کونسل کی سطح پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جیت یا ہار کا مارجن چند ووٹ کا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں کوہستان سے آنے والے مختلف مزاج، خاندان اور مسلک کے افراد کسی بھی امیدوار کی ہار یا جیت میں کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سارے معاملے کے قانونی پہلو کا جائزہ لینے کے لیے مقامی وکیل میاں محمد عثمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’زمین کی لیز یا قلیل مدتی معاہدے کو قانونی طور پر بالکل اسی طرح تحفظ حاصل ہے جو دو افراد کے درمیان ہونے والے کسی بھی دوسرے معاہدے کو ہوتا ہے۔ مقامی زبان میں اسے اجارہ کہتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 23 کے مطابق ’دستور اور مفاد عامہ کے پیش نظر قانون کے ذریعے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو جائیداد حاصل کرنے، قبضے میں رکھنے اور فروخت کرنے کا حق ہو گا۔‘
میاں محمد عثمان کے مطابق آئین کے اس آرٹیکل کا اطلاق زمین بیچنے والے پر بھی اتنا ہی ہے جتنا زمین خریدنے والے پر۔ ان کا کہنا تھا ’زمین کے مالک کو اختیار ہے کہ وہ زمین کو ملکیتی حقوق پر بیچے یا لیز پر دے۔ اسے کوئی ایک مخصوص کام کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔‘
میاں عثمان نے بتایا کہ ’دونوں افراد لیز کے معاہدے میں موجود شرائط کو پڑھ کر اس پر دستخط کرنے کے بعد اس کی پابندی کے پابند ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میاں عثمان کا کہنا تھا کہ ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے لیز پر حاصل کی جانے والی زمین محکمہ مال میں اپنے اصل مالک کے نام پر ہی رہتی ہے۔ نیز ایسی زمین یا لیز کے معاہدے کی بنیاد پر نادرا ریکارڈ کو بھی تبدیل نہیں کروایا جا سکتا۔‘
نادرا ریکارڈ میں شناختی کارڈ پر موجود مستقل یا موجود پتہ تبدیل کروانے کی پالیسی پر انڈپینڈنٹ اردو نے نادرا ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’شناختی کارڈ پر موجودہ پتہ تبدیل کروانے کے لیے کرایہ نامے کا معاہدہ یا حلف نامہ جمع کروایا جا سکتا ہے۔
’اسی طرح یہ سہولت یہ بھی ہے کہ شناختی کارڈ بنواتے ہوئے آپ اسے اپنے موجودہ پتے پر موصول کریں۔ اگر شناختی کارڈ اسی فرد نے موصول کر لیا تو یہ تصور کیا جائے گا کہ وہ موجودہ پتہ یہی ہے۔‘
شناختی کارڈ پر مستقل پتہ تبدیل کرنے کے لیے درکار ثبوتوں پر بات کرتے ہوئے نادرا ترجمان نے کہا کہ ’اس کے لیے جائیداد کی اپنے نام پر منتقلی کا ثبوت درکار ہوتا ہے یا اپنے خونی رشتہ کے نام سے جائداد جیسے زمین یا گھر کی رجسٹری یا یوٹیلٹی بل (بجلی کا بل) کا ثبوت مہیا کر کے آپ مستقل پتہ بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نور فرمان نے بتایا کہ ’اگر میری یونین کونسل میں موجود تمام کوہستانی کسی ایک امیدوار کو ووٹ ڈالنے کے لیے قائل ہو جائیں تو یہ اس امیدوار کے لیے بہترین صورت حال ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ تمام کوہستانیوں کو لے کر علاقہ مجسٹریٹ کے پاس جائے اور سب کے ووٹ رجسٹر کروا دے۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ہمارے درمیان بہت سی تفریقات ہیں۔‘