سلیم خاور ویسے تو بزنس مین ہیں لیکن انہیں شوق ہے تصویریں بنانے کا، خصوصاً نیزہ بازی کی تصاویر کھینچنے کا تو انہیں جنون ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سلیم نے بتایا: ’جہاں گھوڑے ہوں گے، وہاں میں ہوں گا۔ گھوڑوں کا ایکشن اور گھڑ سوار کے تاثرات، مجھے یہ سب دکھانا ہے۔ پیگ اٹھاتے ہوئے گھڑ سوار کے چہرے پر جو خوشی آتی ہے یا اگر اس سے رہ گیا تو اس کے چہرے پر جو مایوسی آتی ہے۔
’گھوڑا بھی اسی طرح رد عمل دیتا ہے کہ ہم جیتے یا نہیں۔ وہ سب سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اس سب کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔‘
سلیم نے 2001 سے 2007 تک بز کشی کی فوٹو گرافی بھی کی۔
اس حوالے سے انہوں نے بتایا: ’اس میں دو ٹیمیں ہوتی ہیں جس میں بجائے گیند کے وہ درمیان میں ایک ذبح کیا ہوا بچھڑا رکھتے ہیں۔ اسے اٹھا کر گھڑ سوار بھاگتے ہیں اور اس سے گول کیا جاتا ہے۔ یہ کھیل بہت مشکل ہے کیوں کہ اس میں معلوم نہیں ہوتا کہ گھوڑا کس طرف سے آجائے اور فوٹو گرافر کہاں کھڑا ہو۔ وہ مشکل کام تھا۔‘
سلیم نے مزید بتایا کہ ’ٹینٹ پیگنگ میں گھوڑے ایک لائن میں آرہے ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ وہ قریب آ رہے ہیں تو تصویر کھینچنے والا وہاں سے ہٹ جاتا ہے۔ مجھے اب نیزہ بازی کی تصویریں کھینچنا مشکل نہیں لگتا۔ مجھے اب اندازہ ہو چکا ہے کہ کس لائن پر گھوڑا آئے گا اور مجھے کیسے اس کے سامنے سے ہٹنا ہے۔ اس میں حادثات بھی ہو جاتے ہیں۔ میرے اپنے بہت قریب سے نیزے گزرتے رہے لیکن اللہ بچاتا رہا ہے۔‘
سلیم خاور نے بتایا کہ نیزہ بازی کے لیے کیمرہ تو عام ہی استعمال ہوتا ہے لیکن لینز اچھا ہونا ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تفصیلات آسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مختلف کمپنیاں لینز بناتی ہیں اس لیے ان کے جو بہترین لینز ہیں انہیں استعمال کرنا چاہیے۔
سلیم خاور کا کہنا تھا کہ ’آج کل موبائل فون سے فوٹو گرافی ہو رہی ہے اور مستقبل میں مجھے یہی دکھائی دے رہا ہے کہ لوگ تصاویر بنانے کے لیے فون کو ہی استعمال کریں گے اور یہ بڑے بڑے کیمرے پیچھے رہ جائیں گے۔‘
ان کے مطابق: ’ٹینٹ پیگنگ یا پولو جیسے کھیلوں کی فوٹو گرافی فون سے نہیں کی جاسکتی۔ یہ بہت رسکی ہو جائے گا کیوں کہ فون کے اندر وائڈ اینگل لینز لگا ہوتا ہے اورآپ کو قریب جانا ہوتا ہے، اس میں حادثہ ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے کیونکہ گھوڑا 60، 70 کلومیٹرفی گھنٹے کی رفتار سے آرہا ہے اور گھڑ سوار کے ہاتھ میں یا نیزہ ہے یا تلوار، آپ کو دونوں سے بچنا ہے اور تصویر بھی لینی ہے، اس لیے فون سے ایسی تصویر کھینچنا خطرناک ہو گا۔‘
سلیم خاور نے بتایا کہ ٹینٹ پیگنگ کے اس کھیل میں خواتین بھی ہیں اور وہ ان کی تصاویر کو خاص طور پر کھینچتے ہیں تاکہ انہیں پروموٹ کیا جاسکے۔
انہیں فوٹو گرافی کا شوق پورا کرتے کم از کم چار دہائیاں ہو چکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’تصویریں کھینچنے کا شوق تو انسان کے اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ میں نے یہ کام تب شروع کیا جب رنگین تصویروں کا دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ 70 کی دہائی میں، میں اور دو چار دوست بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی کرتے تھے یہاں تک کہ ان کو ڈویلپ کر کے پرنٹ کرنے تک سب ہم خود ہی کیا کرتے تھے۔
’اس کے بعد 90 کی دہائی میں ہمیں علم ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر فوٹو گرافی کے مقابلے ہوتے ہیں۔ اس میں حصہ لینا شروع کیا اور وہاں سے ایوارڈز آنا شروع ہوگئے اور یہ سلسلہ 9/11 کے واقعے سے پہلے تک چلتا رہا لیکن پھر اس کے بعد وہ سلسلہ بند ہوگیا۔ بس 2000 کے بعد میں نے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ نہیں لیا۔‘
عالمی شہرت یافتہ پاکستانی فوٹو گرافر نے بتایا کہ ’پاکستان میں 1999 میں فوٹو گرافی کا ورلڈ کپ ہوا تھا میں اس کا جیوری ممبر تھا اور یہ بھی میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔ اس مقابلے میں پاکستان کے کئی ایسے بڑے فوٹو گرافر شامل تھے جو اب حیات نہیں۔‘
سلیم خاور نے بتایا: ’میں تقریباً 100 سے اوپر ایوارڈز حاصل کر چکا ہوں، جن میں سونے، چاندی کے تمغے اور ٹرافیاں وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم ترین ایوارڈ میں نے سنگا پور میں ہونے والی پہلی ڈیجیٹل نمائش میں حاصل کیا۔ اس میں، میں نے چار ڈیجیٹل تصاویر بھیجیں اور چاروں بہترین قرار دی گئیں۔ مجھے اس نمائش میں سونے کا تمغہ ملا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اسی طرح جنوبی افریقہ میں بھی میری چاروں تصاویر نے بہتریں تصاویر کا ایوارڈ حاصل کیا۔ مجھے انڈیا سے بھی دو درجن سے زیادہ ایوارڈز ملے لیکن ان میں سے بیشتر مجھ تک نہیں پہنچے، وہ ڈاک میں ہی کہیں گم ہو گئے۔
’باہر سے آنے والے 50 فیصد ایوارڈز ہی ہم تک پہنچتے ہیں جبکہ باقی ڈاک میں ہی رہ جاتے ہیں یا تو انہیں کسٹمز والے رکھ لیتے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے کچھ علم نہیں کہ کیا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کی کھینچی ہوئی تصاویر مشہور فوٹوگرافک میگزینوں میں شائع ہوئی ہیں، جس میں پی ایس اے جرنل، ڈیجیٹل فوٹوگرافر یوکرین اور آئی آئی پی سی جرنل انڈیا شامل ہیں۔ ان کی تصاویر یونیسیف کی اشاعتوں میں بھی استعمال ہوئیں۔
سلیم نے بتایا کہ آج کل فوٹو شاپ کا دور ہے اور وہ بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ’جیسے میں نیزہ بازی کی تصاویر کھینچتا ہوں توایک دن میں 400 یا 500 تصاویر کھینچ لیں، ان میں سے کام کی تصاویر پانچ سے چھ ہی ہوتی ہیں۔جسے بنانے کے لیے ایک پورا دن چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اب وہ بھی فوٹو شاپ کا استعمال کرتے ہیں اور 90 کی دہائی میں پاکستان میں فوٹو شاپ کا استعمال کرنے والے پہلے چند لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
سلیم خاورفیس بک اور انسٹا گرام پر اپنی کھینچی ہوئی تصاویر کو شیئر کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’ابھی میں سوشل میڈیا تک محدود ہوں۔ جتنی بین الاقوامی نمائشیں کرنی تھیں کر لیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ وہ مقامی طور پر نمائش نہیں کرتے لیکن موقع ملا تو شاید کوئی سولو نمائش کرلیں۔