پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے سات ارکان پر مشتمل وفد نے جمعے کو چیف جسٹس آف پاکستان یحٰیی آفریدی سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ ان کی جماعت کو ’فسطائیت‘ کا سامنا ہے اور ان کے مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو رہے۔
جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ یہ ملاقات چیف جسٹس کے کہنے پر ہوئی۔
بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ ’چیف جسٹس نے قومی عدالتی پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے ساتھ ایک ایجنڈا شیئر کیا تھا اور 10 نکات پر تجاویز مانگی تھیں۔ وفد نے انہیں یہ باور کروایا کہ انہیں اپنی طرف سے تجاویز دیں گے لیکن اس وقت موجود ڈھانچے میں رہتے ہوئے چیف جسٹس کے سامنے وہ تجاویز بھی رکھنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے سامنے یہ معاملہ لے کر آئے کہ پی ٹی آئی کے کارکن اور حامی خاص طور پر عمران خان اور بشریٰ بی بی عدالتی طور پر غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک سے متاثر ہو رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ چیف جسٹس کے سامنے یہ بات رکھی گئی کہ ’پی ٹی آئی کے مقدمات سماعت کے لیے نہیں لگ رہے۔ پاکستان تحریک انصاف گذشتہ دو ڈھائی سال سے فسطائیت کا سامنا کر رہی ہے۔‘
بیرسٹر گوہر خان کے مطابق چیف جسٹس کو ’عمران خان کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کبھی انہیں تنہائی میں رکھا جاتا ہے، ڈاکٹر کی سہولت نہیں دی جاتی، کتابیں نہیں دی جاتیں، ایکسرسائز کے لیے مشین دستیاب نہیں اور یہاں تک کہ ان کی بچوں کے ساتھ بات نہیں کروائی جاتی۔ اہلیہ کی ملاقات نہیں کروائی جاتی۔ یہ فسطائیت زیادہ تر پنجاب میں بڑے عرصے سے جاری ہے۔‘
قبل ازیں اپوزیشن لیڈر عمرایوب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’پی ٹی آئی وفد نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ان کے مقدمات کی سماعت کی تاریخیں تبدیل کر دی جاتی ہیں،‘ جبکہ چیف جسٹس کو قیدی رہنماؤں کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو بتایا ہے کہ بانی اور ان کی اہلیہ کی سماعت کی تاریخیں نہیں بتائی جاتی۔ قوانین اورجیل مینوئل کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ ہونے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا: ’ہمارے متعدد رہنماؤں کوجھوٹے کیسزمیں پھنسایا گیا۔ چیف جسٹس سے ملاقات میں اپنا مؤقف رکھا۔ بے روزگاری اورمہنگائی بڑھ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنان پرمقدمات اور پروڈکشن آرڈر کا معاملہ بھی رکھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس کو بتایا کہ ہم 26 ویں آئینی ترمیم کوتسلیم نہیں کرتے۔ سلمان اکرم راجہ نےلاپتہ افراد کا معاملہ بھی رکھا، پنجاب میں ریاستی دہشت گردی سےمتعلق بھی بتایا۔‘
عمرایوب نے کہا کہ ’ہم بانی پی ٹی آئی کی اجازت کے بعد ملاقات کے لیے آئے، ملاقات سے پہلے تین بار بانی پی ٹی آئی سے اجازت لی، چیف جسٹس کو معیشت کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔ بانی نے کہا تھا کہ ملٹری کورٹس کے حوالے سے بھی بات کرنا۔‘
اس موقعے پر تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’ملک میں آئین اورقانون پرعملدرآمد نہیں ہو رہا۔۔ نظام عدل کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کو فوری مداخلت کرنی ہو گی، ’ہم نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کا متن اور طریقہ کار غلط تھا، اگر نوٹس نہ لیا تو عوام احتجاج پر مجبور ہوں گے۔‘
پی ٹی آئی وفد سے ملاقات پر سپریم کورٹ اعلامیہ
سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے جمعے کو جاری کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا کہ ’اصلاحاتی ایجنڈے پر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر‘ چیف جسٹس نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی قیادت کو مدعو کیا، جس نے چیف جسٹس سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔
اعلامیے کے مطابق تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی (این جے پی ایم سی) کے طے شدہ اجلاس سے آگاہ کیا اور بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں ان سے اصلاحاتی ایجنڈے پر حکومتی رائے کی درخواست کی۔
بیان میں کہا گیا کہ ’وزیراعظم بہت مثبت ہیں اور انہوں نے پالیسی کی تشکیل اور عملدرآمد کے عمل میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔‘
یہ بھی کہا گیا کہ ’معزز چیف جسٹس نے تجویز دی کہ عدالتی اصلاحات کو کم از کم مشترکہ قومی ایجنڈا بننا چاہیے اور اسے دو طرفہ حمایت حاصل ہونی چاہیے۔‘
سپریم کورٹ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے نظر بند پی ٹی آئی رہنما عمران خان، پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کو درپیش مختلف مسائل پر روشنی ڈالی اور شکایت کی کہ جان بوجھ کر مختلف جگہوں پر اپوزیشن قیادت کے مقدمات طے کیے جاتے ہیں تاکہ عدالتوں میں پیشی ناممکن ہو جائے۔‘
اعلامیے کے مطابق عمر ایوب نے کہا کہ ان کی ’پارٹی قیادت کے مقدمات کا دفاع کرنے والے وکلا اور کارکنوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جیل حکام عدالتوں کے احکامات کی تعمیل نہیں کر رہے، پی ٹی آئی کے وکلا کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج ہیں اور ان کے اسمبلی اور اظہار رائے کے حق کو دبایا جا رہا ہے۔‘
’وفد کے دیگر شرکا نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی حالت پر اپنے خدشات کا اظہار کیا، تاہم انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور عوام کو ریلیف دینا ممکن ہے اگر ضلعی عدلیہ فعال طور پر اس کے زیر التوا معاملات کو حل کرے۔‘
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب پی ٹی آئی کے حکومت سے مذاکرات کا معاملہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے بھی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان کے ہمراہ 19 فروری کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے چیف جسٹس کے جنوبی پنجاب، اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں کا دورہ کرنے اور ملک میں انصاف کی مؤثر و بروقت فراہمی کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے اقدام کو سراہا۔
ملاقات میں وزیراعظم نے ملکی معاشی صورت حال اور معاشی و سکیورٹی چیلنجوں پر بھی گفتگو کی اور ملک کی مختلف عدالتوں میں طویل مدت سے زیر التوا ٹیکس تنازعات کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے استدعا کی کہ ان کیسوں میں میرٹ پر جلد فیصلے کیے جائیں۔
بیان کے مطابق چیف جسٹس نے وزیراعظم سے نظام انصاف میں بہتری لانے کے لیے تجاویز بھی مانگیں۔
’وزیراعظم نے چیف جسٹس کو لاپتہ افراد کے حوالے سے مؤثر اقدامات میں تیزی لانے کی بھی یقین دہانی کروائی۔‘