پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی مدت ملازمت آج یعنی 26 جنوری کو ختم ہو گئی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے مطابق نئے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی تعیناتی 45 روز میں ہونی ہے، لہذا 26ویں آئینی ترمیم کے تحت نئے الیکشن کمشنر کی تعیناتی تک سکندر سلطان راجہ اپنا کام جاری رکھ سکیں گے۔
سکندر سلطان راجہ کا چار سالہ دور گذشتہ چیف الیکشن کمشنرز کے مقابلے میں زیادہ تر تنازعات کے گرد گھومتا رہا۔ ایک جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اس وقت کی حکومت نے ان کی تعیناتی کی حمایت کی اور پھر وہی ان کی سب سے بڑی مخالف بن گئی۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ان کے نام پر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہی اتفاق کیا تھا۔
سکندر سلطان راجہ نے ایک موقعے پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تعیناتی مسلم لیگ ن کے سابق وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کا کوئی حکم نہ ماننے کے نتیجے میں عمران خان نے کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول سکندر سلطان راجہ: انہوں نے شاہد خاقان عباسی کے حکم کے خلاف سٹینڈ لیا اور وہ کام نہیں کیا، شاید عمران خان کو ان کا یہ عمل پسند آیا ہوگا۔
انہوں نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ ’مجھے عمران خان بطور کھلاڑی بہت زیادہ پسند ہیں، وہ ہمارے ہیرو ہیں۔ میں نے عمران خان کی تصویر بھی گھر میں لٹکا رکھی ہے۔‘
صوبہ پنجاب کے شہر بھیرہ سے تعلق رکھنے والے سکندر سلطان راجہ 18ویں چیف الیکشن کمشنر تھے۔
انہوں نے 27 جنوری 2020 کو یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کی زندگی کا بیشتر عرصہ سول سروسز میں گزرا اور وہ ایک سابق بیوروکریٹ ہیں۔
کیڈٹ کالج حسن ابدال سے تعلیم حاصل کرنے والے سکندر سلطان نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے طبی تعلیم اور بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
سکندر سلطان راجہ نے نجی تعلیمی ادارے پنجاب کالج کے ساتھ مل کر اپنے گاؤں میں سکول بھی قائم کیا ہے۔
سکندر سلطان بطور چیف الیکشن کمشنر اس وقت متنازع ہوئے جب انہوں نے تقرری کے کچھ عرصے بعد ڈسکہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 75 میں ضمنی انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا۔
پی ٹی آئی نے ان کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور ان کے امیدوار اسجد ملہی نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کا فیصلہ کالعدم قرار دیے جانے کی درخواست دی تھی۔
بعد ازاں تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس دوسرا ایسا واقعہ تھا، جس کی سکندر سلطان راجہ نے مسلسل سماعتیں سننا شروع کیں۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے چند روز بعد انہوں نے کہا تھا کہ ’میرٹ پر فیصلہ ہوگا، کسی جماعت کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی، ہم نے نہیں دیکھنا کہ باہر پانچ بندے آئے ہیں یا پانچ لاکھ۔ کمیشن کسی قسم کا دباؤ لینے کو تیار نہیں ہے۔‘
یہ وہ وقت تھا جب پی ٹی آئی کے حامی مختلف شہروں بشمول اسلام آباد میں واقع الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر حکومت کے خاتمے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ فارن فنڈنگ کیس کی سماعتیں اور پی ٹی آئی کا احتجاج ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
پی ٹی آئی سے ٹکراؤ کا تیسرا ایسا وقت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مخالفت کا تھا۔
سکندر سلطان راجہ اس وقت بھی خبروں میں رہے جب ان کے ادارے اور صدر عارف علوی کے مابین عام انتخابات کی تاریخ پر ٹھن گئی۔ ان کا موقف تھا کہ انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن دیتا ہے ناکہ صدر مملکت۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ جلد نہ دینے پر بھی وہ شدید تنقید کا نشانہ بنے تھے۔
آٹھ فروری 2023 کے انتخابات سے قبل ایک پراعتماد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انٹرنیٹ سروس کی بندش سے نتائج میں تاخیر نہیں ہوگی، تاہم اس رات معاملہ اس کے برعکس نکلا۔
الیکشن کمیشن نے نتائج کا اعلان نئے الیکشن مینجمنٹ سسٹم (ای ایم ایس) کے ذریعے کرنا تھا لیکن الیکشن حکام کے مطابق موبائل نیٹ ورک کی بندش کی وجہ سے یہ نظام فعال ہی نہیں ہو سکا۔
2018 کے عام انتخابات کی رات آر ٹی ایس کی یاد دلاتے ہوئے اس مرتبہ ای ایم ایس نظام بھی بیٹھ گیا۔ نتائج میں غیرمعمولی تاخیر ہوئی اور اس رات ان کا الیکشن کمیشن سے اچانک چند گھنٹوں کے لیے غائب ہو جانا بھی آج تک واضح نہیں۔
سکندر سلطان راجہ کے چار سالہ دور کی سب سے اہم ذمہ داری عام انتخابات اور ان کے نتائج کا بر وقت اعلان، دونوں میں پی ٹی آئی انہیں ناکام قرار دیتی ہے اور یہ یاد وہ اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔