زیلنسکی نے ’گاڈ فادر صدر‘ ٹرمپ کے بارے میں بدصورت سچ دنیا کو دکھا دیا

زیلنسکی نے جس بہادری سے اس چیلنج کا سامنا کیا اور اپنی ثابت قدم قوم کی قیادت کرتے ہوئے ظالم پوتن کے خلاف مزاحمت کی، وہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گی۔ دنیا کے ہر باوقار رہنما نے زیلنسکی کی غیر معمولی جرات کی تعریف کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لی۔

یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی 28 فروری 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس سے روانہ ہو رہے ہیں (سول لوب/ اے ایف پی)

وہ لمحہ تاریخ میں شاید سب سے حیرت انگیز، سفاک اور ہولناک سیاسی واقعے کے طور پر جانا جائے جو براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔

مگر یہ محض ٹی وی کی تاریخ کا ایک واقعہ بن کر نہیں رہ سکتا۔ یہ وہ لمحہ بھی ہو سکتا ہے جب ایک پوری قوم دنیا کے نقشے سے مٹا دی گئی۔ یا اس سے بھی بدتر، یہ ایسے واقعات کو جنم دے سکتا ہے جو یوکرین کی سرحدوں سے کہیں آگے نکل کر خطرہ بن سکتے ہیں۔ یورپ کے باقی ممالک کے لیے خطرہ، اور ہاں، برطانیہ کے لیے بھی۔

اس حقیقت سے انکار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن صدر زیلنسکی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کے ساتھی جے ڈی وینس کے درمیان غیرمعمولی طور پر نشر ہونے والی یہ تکرار صرف عالمی سیاسی صورت حال کے لیے ہی اہم نہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا نے ان تین لوگوں کی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔

ایک طرف زیلنسکی تھے، چھوٹی قامت کے مالک، مگر اخلاقی قد و قامت میں دیو قامت شخصیت۔ وہ مزاحیہ فن کار جو غیر متوقع طور ہیرو بن گئے اور اپنی قوم کی قیادت کے لیے منتخب ہوئے لیکن انہیں تباہ کن آمر ولادی میر پوتن کے ہاتھوں اپنی سرزمین پر حملہ ہوتے دیکھنا پڑا۔

زیلنسکی نے جس بہادری سے اس چیلنج کا سامنا کیا اور اپنی ثابت قدم قوم کی قیادت کرتے ہوئے ظالم پوتن کے خلاف مزاحمت کی، وہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گی۔ دنیا کے ہر باوقار رہنما نے زیلنسکی کی غیر معمولی جرات کی تعریف کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لی۔

ان رہنماؤں میں سابق برطانوی وزیر اعظم برطانیہ بورس جانسن بھی شامل ہیں۔ وہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود فخر سے کہہ سکتے کہ انہوں نے اور ہم سب نے زیلنسکی اور یوکرین کی بھرپور حمایت کی۔ بہت سے برطانوی شہریوں نے یوکرینی تارکین وطن کو اپنے گھروں میں جگہ دی جو اس یکجہتی کی ایک روشن مثال ہے۔

اوول آفس میں زیلنسکی کی بے پناہ جرات سب کے سامنے عیاں تھی، جب وہ اپنی قوم اور اپنی بقا کے لیے لڑ رہے تھے۔ اور اب آئیے کمرے میں موجود دوسرے دو آدمیوں پر نظر ڈالیں۔

وہ ناشائستہ، دھمکیاں دینے والے، لاعلم، غرّانے والا، دھونس جمانے والے متکبر شخص جو اس وقت آزاد دنیا کے رہنما ہیں۔ خدا ہماری حفاظت کرے۔

وہ شخص جنہوں نے اتنی جرات کہ کہ معزز زیلنسکی کو آمر کہہ دیا جب کہ وہ خود پوتن جیسے آمر کے ساتھ بے حد قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ وہی پوتن جنہوں نے سالسبری کی سڑکوں پر لوگوں کے قتل کا حکم دیا اور یوکرین میں دسیوں ہزار بے گناہ خواتین اور بچوں کے قتل کی پروا تک نہ کی۔

دیکھیں اس برے کردار کو جو اس خطرناک تکون کا تیسرا حصہ تھے۔ داڑھی والے جے ڈی وینس۔ ٹرمپ کے بھاری بھرکم کارندے کی طرح برتاؤ کرتے ہوئے زیلنسکی پر چیخ رہا تھے کہ وہ گاڈ فادر صدر کے لیے ’احترام‘ کا اظہار کریں۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے بے بس زیلنسکی کو زمین پر گرا دیا ہو۔ ان پر طنز کر رہے ہوں۔ سر پر لات مارنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہوں۔ ان پر دباؤ ڈال کر انہیں جھکانے اور ان کی مزاحمت توڑنے کے درپے ہوں۔

مگر زیلنسکی کسی سخت جان دھات کے بنے ہوئے ہیں۔ وہ ان دو غیرمہذب لوگوں کی طرح نہیں۔

کیا میں واحد شخص تھا جس نے خوشی سے بلند آواز میں داد دی جب زیلنسکی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا؟

خدا ہی جانتا ہے کہ کل کے ہولناک مناظر کے کیا نتائج ہوں گے۔

یقیناً کچھ لوگ زیلنسکی کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ انہوں نے ٹرمپ کے آگے سر نہیں جھکایا، اور کہیں گے کہ انہوں نے خود ہی صدر کے غضب کو دعوت دی۔

مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ زیلنسکی نے صرف سچ بولا۔ اگر پوری دنیا، اور ہاں، امریکہ بھی، یوکرین کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا اور روس کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا، تو اس کے نتائج یوکرین کے لیے تباہ کن ہوں گے، اور غالباً ہم سب، مغرب میں بھی، اس کی بھاری قیمت چکائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زیلنسکی کو بخوبی علم ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ٹرمپ یوکرین کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تاکہ وہاں کے وسائل لوٹ سکیں، بغیر اس کے کہ روس کو روکنے کے لیے کوئی فوجی مدد فراہم کریں۔ یعنی وہ نام نہاد ’بیک سٹاپ‘ سکیورٹی ضمانت بھی نہیں دینا چاہتے۔ اس کی بجائے وہ پوتن کے ساتھ سود مند معاہدے طے کر رہے ہیں۔ یورپ کے مستقبل یا کسی اور کی پروا کیے بغیر۔

کل اوول آفس میں جو ہوا اسے ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ دنیا زیلنسکی کی ممنون ہونی چاہیے کہ انہوں نے ٹرمپ اور وینس کا اصل چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ دو بدمعاش جو سچائی اور جمہوریت کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں اور جو بھی ان کے راستے میں آئے گا اسے دھمکانے اور کچلنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
یہ حقیقت ہمیں جلد یا بدیر تسلیم کرنی ہی تھی۔

بس وہ دن سوچ سے کہیں پہلے آ گیا۔ ٹرمپ سے اوول آفس کے اس قلعے میں ملاقاتوں کا ایک اور طریقہ بھی ہے یعنی دفاعی بجٹ پر مزید اربوں ڈالر خرچ کرنے کا وعدہ تاکہ ان کے پیسے بچ جائیں۔ چمک دمک بھری تحائف اور سرخ قالین بچھا کر ان کی خودپسندی کی تسکین کرنا۔ ان کی ہر بات پر سر ہلانا، جب وہ آپ کی بیوی کو حقارت سے دیکھے تو مسکرا کر برداشت کیا جائے۔ ان کے بے ہودہ مذاق پر ہنسا جائے۔

اور جب وہ حقیر سی چیز کے بدلے آپ کو احسان مند بنانے کی کوشش کریں، مثال کے طور پر چاگوس جزائر کے کسی معاہدے کی صورت میں، تو انہیں فرشی سلام کیا جائے۔ یہی کیئر سٹارمر کا طریقہ ہے اور اس کے بدلے ٹرمپ تہذیب اور شائستگی کا پیکر بن گئے۔ مگر جیسا کہ اب سب کے سامنے ہے، یہ سب محض سراب تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ