جب نیٹو ممالک کے رہنما رواں ہفتے لتھوانیا کے شہر ولنیئس میں سربراہی اجلاس کے لیے اکٹھے ہوئے تو ایسا لگا کہ ان کے ایجنڈے میں صرف اس مسٔلے کو سلجھانا رہ گیا وہ یہ کہ کیسے اور کب یوکرین کا ساتھ دیا جائے یا ایسا کرنا بھی چاہیے یا نہیں؟
کسی بھی رہنما کے لتھوانیا پہنچنے سے پہلے پیشگی مذاکرات نے صرف اس بات کو یقینی بنایا کہ امریکہ ترکی کو ایف 16 جنگی طیارے فراہم کرنے پر راضی ہو گیا اور ترکی نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت پر اپنا اعتراض ختم کر دیا اور تمام ممالک نے موجودہ سیکریٹری جنرل کی معیاد کو مزید ایک سال تک بڑھانے پر اتفاق کر لیا۔
یوکرین سب کے سامنے اور مرکز نگاہ تھا جیسا کہ صدر وولودی میر زیلنسکی ذاتی طور پر اپنی اہلیہ کے ساتھ محض عزت افزائی سمیٹنے کے لیے اجلاس میں موجود تھے۔
سوائے اس کے کہ یوکرین درحقیقت نیٹو کے ایجنڈے میں واحد یا شاید اہم آئٹم نہیں تھا۔ ایک بڑا لیکن غیر بیان شدہ سوال یہ تھا کہ نیٹو اور روس کے درمیان جنگ سے گریز کرتے ہوئے یوکرین کے ساتھ کیسے کھڑا ہونا ہے۔
اس بات کا اعتراف امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی کیا جنہوں نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ اگر یوکرین کو اب اتحاد میں شامل کیا گیا تو اس سے نیٹو کی باہمی دفاع کی شق ارکان کو روس کے ساتھ براہ راست جنگ میں شامل ہونے پر مجبور کرے گی۔
شایہ یہ معمولی مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے۔ آرٹیکل فائیو، جس میں کہا گیا ہے کہ ایک رکن پر حملے کو تمام رکن ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا، اتحادیوں پر یہ زور بھی دیتا ہے کہ وہ ایک فوراً ہی مکمل جنگ شروع کرنے کے بجائے ضروری سمجھے جانے والی کارروائی کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ولنیئس میں یوکرین کے لیے فاسٹ ٹریک رکنیت کے حق میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہوا اور روس کا ممکنہ ردعمل اس کی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔ لتھوانیا اجلاس سے زیلنسکی مایوس لوٹے ہیں۔
نیٹو کے مسودہ سازوں نے یقین دہانی کے لیے کوئی نہ کویہ فارمولا تلاش کرنے کی اپنی پوری کوشش کی لیکن صدر زیلنسکی کو اس یقین دہانی کے ساتھ مطمئن ہونا پڑا کہ روایتی ممبرشپ ایکشن پلان کو نظر انداز کرتے ہوئے یوکرین یقیناً مستقبل میں کسی غیر متعینہ وقت پر اتحاد میں شامل ہو جائے گا۔
تقریباً ہر حوالے سے یہ وعدے اس سے کہیں کم تھے جن کی یوکرین نے امید کی تھی۔ تمام تقاضوں کی فہرست مرتب کرنے کے بعد ولنیئس اعلامیے میں صرف اتنا کہا گیا کہ ’ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ جب تمام اتحادی متفق ہوں اور درکار شرائط پوری ہو جائیں تو ہم یوکرین کو اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دے سکیں گے۔‘
اس میں کوئی یقینی ٹائم فریم نہیں دیا گیا جو یقینی طور پر کوئی فاسٹ ٹریک راستہ نہیں تھا اور سب سے بڑھ کر کوئی یہ کوئی دعوت نہیں تھی۔
’نیٹو یوکرین کونسل‘ کے نام سے ایک نیا فورم قائم کیا گیا، جو 2002 کی غیر فعال ’نیٹو روس کونسل‘ سے مماثلت رکھتا تھا، جس کے بارے میں ماسکو کا ہمیشہ سے شکوہ رہا کہ یہ ایک غیر مساوی ادارہ ہے۔
یوکرین کے ساتھ مزید فوجی رسد، مزید تربیت اور دیگر قسم کی مدد کے وعدے کیے گئے، یہ سب یقیناً مددگار تھے لیکن وہ نہیں جس پر کیئف کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔
درحقیقت زیلنسکی نے اعلامیے پر انتہائی غیر متوقع غصے کا اظہار کرتے ہوئے ٹائم فریم کی کمی کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا اور اس ’غیر یقینی صورت حال‘ کے لیے اتحاد پر تنقید کی۔ انہوں نے اسے ’کمزوری‘ قرار دیا۔
سربراہی اجلاس کے اختتام تک ایسا لگا کہ ان کا غصہ کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا اور ایسا امریکی صدر کے ساتھ ان کی ون آن ون ملاقات کی بدولت ہوا جو شیڈول سے کہیں زیادہ دیر تک جاری رہی۔
لیکن یوکرین کی جانب سے اظہار تشکر کے فقدان کے بارے میں امریکی حکام اور برطانیہ کے وزیر دفاع کے تبصروں میں اختلاف دیکھا گیا۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے اپنے وزیر دفاع کے بیانات کو زائل کر کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے اثرات دیر تک رہے۔ صدر زیلنسکی کے لیے بورس جانسن کے دور کا تصور نہ کرنا مشکل تھا۔
اور نہ ہی اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ کیئف نے کیوں اسے غیر اطمینان بخش نتیجہ کے طور پر دیکھا ہو گا۔ ولنیئس میں یوکرین پر تمام تصویری اور زبانی توجہ کے باوجود اعلامیہ ایک مختلف کہانی سناتا ہے۔
یوکرین کے ہر تذکرے کے لیے اس میں روس کے بھی بہت سے تذکرے موجود ہیں۔ پیراگراف 19 کے آغاز میں لکھا ہے: ’ہم یورو اٹلانٹک کے خطے اور نیٹو اور روس کے درمیان استحکام اور تعین چاہتے ہیں۔ نیٹو تصادم کا خواہاں نہیں ہے اور روس کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم ماسکو کے ساتھ رابطے کے کھلے راستے رکھنے کے لیے تیار ہیں تاکہ خطرات کو کم کرنے اور ان میں تخفیف سے کشیدگی کو روکا جا سکے اور شفافیت کو بڑھایا جا سکے۔‘
نیٹو اور روس کے درمیان جنگ سے بچنے کا راستہ ولنیئس کی کارروائی سے گزرتا ہے جہاں یوکرین کے لیے اتحاد کی حمایت ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور زیلنسکی یہ جان کر خوش نہیں ہوں گے۔
جنگ کے اس موڑ تک کچھ دھندلی لکیروں کے ساتھ یہ غور و فکر پس منظر میں چھپ گیا ہے۔
ماسکو کا طویل عرصے سے موقف رہا ہے کہ یوکرین کی جنگ بنیادی طور پر روس اور نیٹو کے درمیان پراکسی جنگ ہے۔ اور یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا۔
نیٹو کے ارکان یوکرین کو بہت سے معاملات میں اتحاد کے معیار کے مطابق فوجی مدد، انٹیلی جنس اور تربیت فراہم کر رہے ہیں لیکن پراکسی جنگ اور براہ راست جنگ میں بڑا فرق ہے اور جب کہ نیٹو کے کچھ ممالک اتحاد اور روس کے درمیان جنگ کے امکان کا خیرمقدم کرتے نظر آتے ہیں، خاص طور پر امریکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے کہ کوئی دوسرا اس کا شکار نہ بنے۔
2022 کے روسی حملے کے بعد سے یوکرین کے لیے مغربی فوجی اور دیگر مدد مکمل طور پر دو طرفہ اور ہر ملک کی یوکرین سے تعلق کی بنیاد پر فراہم کی جاتی رہی ہے۔
امریکہ کی جانب سے یوکرین کی نو فلائی زون کی ابتدائی درخواستوں کو مسترد کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس سے اتحاد کی جنگ میں شمولیت کا مطلب لیا جا سکتا تھا۔
اکثر دیے جانے والے تاثر کے برعکس امریکہ نے روس کے ساتھ مواصلاتی چینلز کو بھی کھلا رکھا ہے اور بعض غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ہے۔
نومبر میں واشنگٹن نے اس بات کی تصدیق کر کے ماسکو کا شکریہ ادا کیا کہ پولینڈ میں گرنے والا میزائل روسی ساختہ نہیں تھا بلکہ یوکرین سے فائر کیا گیا طیارہ شکن راکٹ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ماہ جیسا کہ کرائے کے فوجیوں کے سربراہ ایوگینی پریگوزن کی بغاوت کے بارے میں قیاس آرائیاں پھیلیں، امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے فوری طور پر اپنے روسی ہم منصب کو فون کر کے یقین دلایا کہ امریکہ اس میں ملوث نہیں ہے۔
اور حال ہی میں رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ سینیئر امریکی اور روسی حکام، جن میں کریملن سے روابط رکھنے والے روسی حکام اور خود روسی وزیر خارجہ سرگئے لاوروف شامل ہیں، کے درمیان کم از کم ایک یا شاید زیادہ خفیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
یہ پہلا اشارہ تھا کہ ان ممالک کے درمیان نام نہاد ’ٹریک ٹو‘ سفارتی سرگرمیاں موجود ہو سکتی ہیں۔ اس سے یوکرین ناراض ہے جیسا کہ اس کا کہنا ہے کہ اس کی پیٹھ کے پیچھے بات چیت ہو رہی ہے لیکن دوسری جانب یہ امید پیدا ہوئی کہ سفارت کاری ختم نہیں ہوئی۔
نیٹو کے درمیان علیحدگی برقرار رکھنے اور یوکرین کے لیے کسی بھی مدد میں اضافے کی کوششیں بھی وِلنیئس میں شرکت اور ملاقاتوں کی غیر معمولی ساخت میں واضح تھیں۔ نیٹو کے سربراہی اجلاس کو جی سیون کا ’منی سمٹ‘ کہا جا سکتا تھا۔ یہ جی سیون ہی ہے جس نے سیکورٹی گروپ نہ ہونے کے باوجود بھی یوکرین کے لیے سکیورٹی کی ضمانتیں اور دیگر امداد فراہم کی ہیں۔
اس کی صرف دو ممکنہ وجوہات ہیں۔ پہلا یہ اشارہ دینا کہ یوکرین کی حمایت امریکہ اور یورپ اتحاد سے بڑھ کر ہے (حالانکہ یہاں صرف جاپان ہی ایسا ملک ہے جو نیٹو کا حصہ نہیں) اگرچہ خاص طور پرنیٹو ایک فوجی اتحاد کے طور پر یوکرین کے دفاع کو باضابطہ طور تقویت دے سکتا ہے۔
ایک اقتصادی اور سویلین گروپ کے طور پر جی سیون کی حمایت کو روس کی طرف سے جنگ کے خطرے میں اضافہ کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔
تاہم نیٹو کے لیے اس طرح سے جی سیون کو مدعو کرناایک منفی پہلو ہے۔ جی سیون دنیا کے امیر ترین ممالک کا کلب ہے۔ اگر یوکرین کے لیے حمایت اکٹھا کرنے اور روس کو تنہا کرنے میں مغرب کی کوئی ناکامی ہوئی ہے تو اس کی وجہ نام نہاد ’گلوبل ساؤتھ‘ ہے۔
مثال کے طور پر تنازع کو ایک سامراجی طاقت کے خلاف قومی آزادی کی جنگ کے طور پر پیش کرکے وسیع حمایت حاصل کی کوششوں کے باوجود اس بات کے بہت کم ثبوت موجود ہیں کہ اس کا زیادہ اثر ہو رہا ہے۔ جغرافیہ اور معاشیات زیادہ قابل عمل دلائل ہیں۔
اگر ولنیئس سربراہی اجلاس کا کوئی تسلی بخش پہلو ہے بھی تو وہ یہ ہونا چاہیے کہ نیٹو، جس کا سٹیئرنگ شاید دوبارہ انتخاب کے خواہاں ایک امریکی صدر کے ہاتھ میں ہے، کم از کم یوکرین کے تنازع کو ایک وسیع جنگ کی طرف بڑھنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ پہلے سے جنگ زدہ یوکرین کو زیادہ یقین دہانی نہیں کرا سکتا لیکن یہ باقی یورپ اور وسیع تر دنیا کے لیے امید کی کرن پیش کر سکتا ہے کہ جنگ پر اب بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
© The Independent