یوکرین کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے بیٹھے تھے، جنہوں نے یورپی رہنماؤں کے ساتھ خوشگوار سفارتی ہفتہ گزارا۔ یوکرینی صدر سمجھ رہے تھے کہ اس دوران معدنیات کے کسی معاہدے پر بات چیت ہوگی، مگر یہ ایک جال تھا۔ وولودی میر زیلنسکی گھات لگا کر کیے جانے والے حملے کی زد میں آگئے۔
جب یوکرینی صدر وائٹ ہاؤس پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ دروازے پر ٹرمپ نے انہیں خوش آمدید کہا اور مذاقاً کہا کہ انہوں نے ملاقات کے لیے خود کو سنوارا اور ہر چیز سیاہ رنگ کی زیب تن کی۔
مگر زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ زیلنسکی کو دھچکا لگا۔ پہلی ضرب جو بعد میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے تابڑ توڑ حملوں میں بدلنے والی تھی، ایک صحافی کی جانب سے آئی۔
صحافی نے ان سے سوال کیا کہ ’آپ سوٹ کیوں نہیں پہنتے؟‘
یہ سوال نہیں تھا بلکہ ایک توہین تھی۔ ایسی توہین جو دائیں بازو کی، یوکرین مخالف، روسی حمایت یافتہ سوشل میڈیا پوسٹس میں بار بار دہرائی جاتی رہی ہے، جن میں زیلنسکی کے جنگی لباس کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔ وہی لباس جو وہ اپنی قوم پر حملے کے بعد سے ہر عالمی سطح کی ملاقاتوں میں پہنتے آئے ہیں۔
زیلنسکی نے جواب دیا کہ ’جنگ ختم ہو جائے تو میں بھی آپ کی طرح کا لباس پہن لوں گا۔‘ پھر وہ اپنے سنہری کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے آنکھیں گھمانے لگے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زیلنسکی نے مزید کہا: ’میرے پاس اس قسم کے سوالوں کے جواب دینے سے زیادہ سنجیدہ کام ہیں۔‘ انہوں نے واضح کیا کہ ولادی میر پوتن نے پہلے بھی ’جنگ بندی کے 25 معاہدوں‘ کی خلاف ورزی کی، حالاں کہ لڑائی روکنے پر اتفاق ہو چکا تھا۔
زیلنسکی کی ٹیم کو پہلے ہی خدشہ تھا کہ انہیں امریکہ بلا کر معدنی وسائل کے معاہدے پر بات چیت کے بہانے پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسا معاہدہ جو درحقیقت ان کے ملک کے لیے کسی قسم کی سکیورٹی ضمانت فراہم نہیں کرتا جب کہ دوسری طرف ٹرمپ ایک ’امن معاہدہ‘ آگے بڑھا رہے تھے، جو ولادی میر پوتن کے ساتھ طے پایا، مگر یوکرین کو اس میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔
زیلنسکی کے امریکہ روانہ ہونے سے پہلے کیئف کے ایک بڑے سیاست دان نے کہا تھا: ’ہمیں خدشہ ہے کہ وہ (زیلنسکی) وہاں جائیں گے، پھر اس معاہدے کو مسترد کر دیں گے اور یوں یہ بات غیر معقول لگے گی اور یہی اصل منصوبہ ہو۔‘
لیکن یوکرینی صدر کی جماعت یہ اندازہ نہیں لگا سکتی تھی کہ زیلنسکی خود کو اس حد تک امریکی رہنماؤں کے نشانے پر پائیں گے۔
زیلنسکی کی طبیعت تیز سمجھی جاتی ہے۔ وہ واقعی اپنی قوم کو ایک آمر کی لوٹ مار کے خلاف جمہوریت کا دفاع کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان کے جرنیل کھل کر کہتے ہیں کہ اتحادیوں، بشمول امریکہ نے انہیں اتنے ہی ہتھیار دے دیے ہیں کہ ان کا ’خون بہہ سکتا ہے، مگر وہ جیت نہیں سکتے۔‘
جب زیلنسکی نے یہ نشاندہی کی کہ یوکرین کے حوالے سے روس کی توسیع پسندانہ خواہشات رکنے والی نہیں اور اس کے اثرات امریکہ تک بھی پہنچ سکتے ہیں، تو اچانک ٹرمپ کے بائیں جانب بیٹھے شخص کی لفظی مشین گن چل پڑی۔ انہوں نے زیلنسکی پر تابڑ توڑ زبانی حملے شروع کر دیے اور مطالبہ کیا کہ وہ امریکی حمایت پر غیر مشروط طور پر اچھی طرح شکریہ ادا کریں۔
(نائب امریکی صدر) ڈی جے وینس نے چیخ کر کہا: ’آپ نے شکریہ ادا نہیں کیا۔‘
زیلنسکی نے انہیں جواب دیا: ’میں نے کئی بار امریکی عوام کا شکریہ ادا کیا۔‘
لیکن تب بہت گڑبڑ ہو چکی تھی۔
انتہائی بداخلاقی کی تاریخی مثال بن جانے والے ان مناظر میں، صورت حال کسی شراب خانے میں ہونے والی لڑائی جیسی ہو گئی۔ ٹرمپ اور وینس زیلنسکی کی بات کاٹتے رہے جب کہ زیلنسکی ایک ہی وقت میں امریکہ کی دی گئی مدد کا شکریہ ادا کرنے، اپنی قوم کی نازک حالت سمجھانے، یہ واضح کرنے کہ پوتن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور ساتھ ہی جھوٹ کے تابڑ توڑ حملوں سے خود کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔
یوکرین کو امریکہ سے 350 ارب ڈالر نہیں ملے۔ زیلنسکی نے ’شکریہ‘ کہا تھا۔ ان کے تمام شہر کھنڈر نہیں بنے اور اسی طرح کے کئی دیگر دعوے غلط ہیں۔
زیلنسکی نے ابتدا میں ہی واضح کر دیا کہ وہ ٹرمپ کے روس کے ساتھ معاہدے کو ’قاتل (پوتن) کے ساتھ سمجھوتے‘ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے۔
ٹرمپ نے دو ٹوک انداز میں کہا: ’آپ کو معاہدہ کرنا ہوگا ورنہ ہم نکل جائیں گے اور اگر ہم نکل گئے تو پھر آپ اپنی جنگ خود لڑیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی اچھا منظر ہوگا۔‘
ٹرمپ نے طنزیہ لہجے میں مزید دباؤ ڈالا کہ ’آپ کے پاس کوئی موقع نہیں۔ ایک بار جب ہم یہ معاہدہ کر لیں گے تو آپ کہیں بہتر پوزیشن میں آ جائیں گے، مگر آپ بالکل شکر گزار نہیں لگ رہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ سچ کہوں تو یہ اچھی بات نہیں۔‘
جب زیلنسکی نے احتجاج کرنے کی کوشش کی، تو ٹرمپ ان کی بات کاٹتے ہوئے زور سے دھاڑے: ’آپ تیسری عالمی جنگ پر جوا کھیل رہے ہیں۔‘
جب سرعام شورشرابہ ختم ہوا تو زیلنسکی کو وہاں سے رخصت کر دیا گیا۔ معدنی وسائل کا معاہدہ ختم کر دیا گیا اور اب زیلنسکی ٹرمپ اور اس کے حامیوں کی نظر میں مکمل طور پر ’برے آدمی‘ بن چکے ہیں۔
ٹرمپ نے بعد میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر لکھا: ’میں نے یہ طے کر لیا ہے کہ صدر زیلنسکی امن کے لیے تیار نہیں، اگر اس میں امریکہ شامل ہو، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ ہماری شمولیت انہیں مذاکرات میں بڑا فائدہ دیتی ہے۔ میں فائدہ نہیں چاہتا۔ میں امن چاہتا ہوں۔ انہوں نے امریکہ کی سب سے محترم اوول آفس میں بے ادبی کی۔ جب وہ امن کے لیے تیار ہوں، تب وہ واپس آ سکتے ہیں۔‘
زیلنسکی اپنے ملک کی طرح ایک اور گھات سے بچ نکلے۔ اب انہیں کوئی شک نہیں رہا کہ ان کے حقیقی دوست کہاں ہیں اور وہ وائٹ ہاؤس میں نہیں ہیں۔
© The Independent