بنوں میں جیش الفرسان کا دوسرا حملہ، تنظیم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

جیش الفرسان محمد کے ترجمان کے نام کے علاوہ اس تنظیم کے اتنظامی ڈھانچے یا کمانڈروں کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

2007 میں جنوبی وزیرستان کے مقام سراروغہ میں حکومت کے ساتھ امن معاہدے کے موقعے  پر پاکستانی طالبان جنگجو (انڈپینڈنٹ اردو/ہارون رشید)

شدت پسندی سے متاثرہ خیبر پختونخوا صوبے کے ضلع بنوں میں دو سال میں دوسری مرتبہ ایک غیر معروف عسکریت پسند گروپ ’جیش الفرسان محمد (جے ایف ایم)‘ نے چھاؤنی کے علاقے میں حملے کا دعویٰ کیا ہے۔

اس تنظیم نے منگل کی شام بنوں میں جولائی 2024 کی طرز کا حملہ کیا جسے سکیورٹی اہلکاروں نے ناکام بنا دیا۔ گذشتہ برس بنوں کینٹ میں اس تنظیم نے ایک خودکش حملہ کیا تھا جس میں پولیس کے مطابق آٹھ فوجی اہلکار جان سے گئے تھے جبکہ جوابی حملے میں 10 حملہ آوروں کو مار دیا گیا تھا۔

حافظ گل بہادر عسکریت پسند گروپ سے وابستہ سمجھی جانے والی جیش الفرسان محمد کے نصرت وزیرستان نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ اس کے شدت پسندوں نے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی گیٹ سے ٹکرائی اور خودکش بمباروں نے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو لے کر جاری کشیدگی کے دوران حالیہ برسوں میں جیش الفرسان جیسی متعدد نئی عسکریت پسند تنظیموں نے پاکستان میں اپنی آمد کا اعلان کیا ہے۔ لیکن سکیورٹی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ نئے کرداروں کے تانے بانے دراصل موجودہ تنظیموں کے ساتھ ملتے ہیں، جن میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی شامل ہے۔

قدرے نئی تنظیم جیش الفرسان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ حافظ گل بہادر نامی گروپ کی ہی ایک ذیلی شاخ ہے۔ حافظ گل بہادر ٹی ٹی پی کے ایک سابق کمانڈر ہیں جو علیحدہ ہو گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حافظ گل بہادر کی طرح خیال ہے کہ ٹی ٹی پی نے بھی ایک گروپ تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کے نام سے بنایا تھا جس نے گذشتہ سال نومبر میں مشرقی صوبہ پنجاب میں ایک اہم ایئر بیس پر ایک حملے کے ساتھ اپنی آمد کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان کا الزام ہے کہ ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر جیسی تنظیمیں افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ افغانستان کے حکمراں طالبان اس سے انکار کرتے ہیں۔

مبصرین کے خیال میں یہ دونوں نئے گروپس، ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر کو، اسلام آباد اور کابل کی جانب سے کسی بڑھتے ہوئے دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔

یہ دونوں بڑی تنظیموں کی جانب سے ابہام پیدا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

اگرچہ افغان طالبان شدت پسند گروپوں کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں لیکن عالمی ادارے جیسے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹیں اس سے برعکس سامنے آتی ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں موجود متعدد مسلح گروپوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

ان گروپوں میں داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور القاعدہ برصغیر شامل ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی کئی گروپ ہیں جیسے کہ بلوچ لبریشن آرمی، ازبکستان کی اسلامی تحریک، مشرقی ترکستان کی آزادی کی تحریک کے چینی اویغور، جماعت انصار اللہ، اسلامی جہاد گروپ، خطیبہ امام البخاری گروپ، جیش الفرسان اور جماعت الاحرار بھی ہیں۔

یہ تمام گروپس کا اقوام متحدہ کی تجزیاتی حمایت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا۔ یہ رپورٹ باقاعدگی سے جاری کی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ رپورٹ ان معلومات کا مجموعہ ہوتی ہے جو اقوام متحدہ کے رکن ممالک اکٹھی کر کے فراہم کرتے ہیں۔ رپورٹ میں فراہم کردہ معلومات کی تصدیق کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔

جیش الفرسان محمد کے ترجمان کے نام کے علاوہ اس تنظیم کے اتنظامی ڈھانچے یا کمانڈروں کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

بہت سے دیگر عسکریت پسند گروہ جنہیں کم توجہ ملی ہے بھی حال ہی میں ابھرے ہیں۔

ان میں لشکر خراسان بھی شامل ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کا فرنٹ ہے۔ دوسرا شاہین گروپ ہے، جسے حافظ گل بہادر کا فرنٹ سمجھا جاتا ہے۔ دونوں گروہوں نے خیبر پختونخوا میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

پاکستان میں حالیہ سالوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور ان میں بیشتر کا ہدف سکیورٹی فورسز کے اہلکار رہے ہیں۔

فراسان لفظ کا مطلب

فراسان عربی لفظ فرس سے آیا ہے جس کا مطلب گھوڑا ہے۔ اسی سے فاعل بنا فراس، یعنی گھڑ سوار۔ فراس عربی میں سورما (knight) کو بھی کہا جاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے جیش الفراسان کا مطلب ہوا، سورماؤں کا لشکر۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل