صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف اور مکمل اختیارات دیے جانے کا مطالبہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کا دھرنا جمعرات کو چوتھے روز میں داخل ہوگیا جبکہ آج سے بنوں اور باجوڑ کی پولیس نے بھی پولیس پر حملوں کے خلاف دھرنا شروع کر دیا۔
پولیس کے مطابق بدھ کو باجوڑ میں پولیو ٹیم پر حملے میں ایک پولیس اہلکار اور پولیو ورکر کی موت کے بعد باجوڑ پولیس نے احتجاج کی کال دی تھی۔
اسی طرح بنوں میں ایک پولیس اہلکار کے قتل کے بعد پولیس مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجی دھرنے کا اعلان کر دیا۔
لکی مروت میں چار روز سے جبکہ بنوں اور باجوڑ میں آج سے شروع ہونے والے پولیس اہلکاروں کے احتجاج پر صوبائی حکومت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے گذشتہ تین دنوں میں اس معاملے پر صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا موقف لینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
پولیس اہلکاروں کا امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ لکی مروت سے اس وقت شروع ہوا جب نامعلوم افراد نے دو ہفتوں میں پانچ پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا۔
لکی مروت پولیس کے اہلکار اور دھرنا کمیٹی کے رکن انیس خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ تب تک یہاں بیٹھے رہیں گے جب تک اختیارات سکیورٹی فورسز سے واپس پولیس کو منتقل نہیں کیے جاتے۔
’ہمارے دیگر چھوٹے موٹے مطالبات بھی ہیں لیکن بنیادی مطالبہ پولیس کو بااختیار بنانا ہے اور اس بات کی ہم یقین دہانی کراتے ہیں کہ تین مہینوں میں امن قائم کریں گے۔‘
گذشتہ چار دنوں سے پولیس کے اعلیٰ افسران، ضلعی انتظامیہ اور سیاسی قائدین مظاہرین سے مذاکرات کر رہے ہیں جو اب تک ناکام رہے۔
لکی مروت میں پولیس مظاہرین کے غم و غصے میں اس وقت شدت آئی جب پولیس مظاہرین کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور ایس ایچ او غلام محمد کے ہجرے کو گذشتہ روز نامعلوم افراد نے بم سے اڑا دیا۔
انیس خان نے بتایا کہ ’آج سے تمام پولیس مظاہرین کو باوردی اور مسلح احتجاج میں شرکت کا کہا گیا ہے جبکہ غلام محمد کے ہجرے پر دھماکے کا مقدمہ سکیورٹی فورسز کے خلاف درج کیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس اہلکار غلام محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میرے ہجرے کو تباہ کیا گیا ہے لیکن اگر پورا خاندان اور بچے بھی قربان ہوجائیں تو بھی اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
’ہجرے میں دھماکے سے ہمارے حوصلے مزید مضبوط ہوئے ہیں اور ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں اور مطالبات منوانے تک بیٹھے رہیں گے۔‘
پولیس مظاہرین کے دھرنے کی وجہ سے کے اہم صوبائی شاہراہ انڈس ہائی مکمل طور پر بند ہے اور کئی کلومیٹر تک ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہیں جبکہ لکی مروت کا پورے پاکستان کے ساتھ رابطہ منقطع ہے۔
سڑک کی بندش سے مال بردار اور مسافر گاڑیاں گذشتہ چار دنوں سے پھنس ہوئی ہیں جبکہ بعض گاڑیوں میں سامان خراب ہو چکا ہے۔
ادھر بنوں پولیس مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے تاجران کی تنظیم نے بنوں میں مکمل ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
بنوں پولیس مظاہرین سے ضلعی پولیس سربراہ ( ڈی پی او) ضیاالدین نے دھرنے کے مقام پر ملاقات میں احتجاج ختم کرنے کی درخواست کی لیکن پولیس مظاہرین نے انکار کر دیا۔
ڈی پی او نے مظاہرین کو بتایا کہ انہیں ایک دو گھنٹے دیے جائیں تاکہ مسئلے کو دیکھ کر اس کا حل نکل سکے لیکن پولیس مظاہرین نے احتجاج جاری رکھنے اور بنوں روڈ کو مکمل طور پر بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بنوں پولیس مظاہرین میں سے ایک پولیس اہلکار جمشید خان نے کہا کہ پولیس لائن کے دروازوں پر نظر رکھیں کیونکہ ہم کسی صورت اپنے ’شہید‘ پولیس اہلکار اور بھائی کے جنازے کو پولیس لائن میں ادا کرنے نہیں دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اب بہت ہو گیا اور مزید ہم اس قسم کی پالیسیوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ باجوڑ میں بھی پولیس اہلکاروں کا احتجاج شروع ہو گیا ہے۔
احتجاجی دھرنے میں شریک پولیس اہلکار ضیاالرحمان نے بتایا کہ کچھ عرصے میں ہمارے 100 کے قریب پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا گیا لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے بھائی کو پولیو ڈیوٹی کے دوران قتل کیا گیا اور ان کے بچے یتیم ہوگئے لیکن قاتل کا کچھ پتہ نہیں چلا۔
ضیاالرحمان کے مطابق، ’ہمارا بنیادی مطالبہ ہمارے شہید پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کو پکڑنا اور ہمیں سٹامپ پیپر پر یقین دہانی کرانی ہے کہ مزید ہمارا خون نہیں بہے گا۔‘
باجوڑ پولیس مظاہرین سے ضلعی پولیس سربراہ وقاص رفیق نے اپنے خطاب میں کہا کہ پولیو کے حوالے سے حکام سے میری لمبی نشست ہوئی تھی جبکہ دوسرے مرحلے کو اس سے مشروط کیا گیا تھا کہ ہمارے اہلکاروں کے لیے باقاعدہ سکیورٹی پلان تشکیل ہو گا۔
وقاص رفیق نے کہا، ’آپ کے مطالبات بالکل جائز ہے اور میں آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ لوگ سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے دن رات ڈیوٹیاں کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کی کوئی سفارش نہیں اور اسی وجہ سے یہاں ڈیوٹیاں سر انجام دہے رہے ہیں۔‘
’شرپسند عناصر معاملات کو پیچدہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں‘
خیبر پختونخوا پولیس کے پشاور دفتر سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق ’لکی مروت میں حالیہ شکایات کے پیش نظر مقامی افسران کے علاوہ سینٹرل پولیس آفس کے افسران جائز تحفظات سے آگاہ ہیں اور ان شکایات کے ازالے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ بعض شرپسند عناصر پولیس اور فورسز کے درمیان اختلافات پیدا کر کے جوانوں کا مورال گرانے کے لیے معاملات کو پیچیدہ کرنے کی کوششوں میں ہیں۔‘
بیان کے مطابق: ’عوام، پولیس اور عسکری ادارے دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے کے لیے دو دہائیوں سے برسر پیکار ہیں۔
’خیبر پختونخوا پولیس کے 2000 سے زائد افسران وجوانان نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جس میں کانسٹیبل سے لے کر ایڈیشنل آئی جی پی تک شامل ہیں۔‘
اعلامیے میں مزید لکھا گیا: ’جنوبی اضلاع میں پولیس کی استعداد بڑھانے اور ان کی حفاظت کے پیش نظر انہیں حتیٰ الوسع وسائل دستیاب کیے گئے ہیں جس میں سب سے پیشتر ان کی عددی قوت میں اضافہ شامل ہے۔
’حال ہی میں ان اضلاع کے لیے صوبائی حکومت نے 1757 نئی آسامیوں کی منظوری دی ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پولیس ایک منظم ادارہ ہے جس میں اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہو کر ہی اپنی شکایات افسران تک پہنچائی جاتی ہیں اور ایسی کسی بھی SOP کی خلاف ورزی پر باقاعدہ تادیبی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔‘