بنوں چھاؤنی دھماکوں میں 11 اموات، 30 زخمی: ریسکیو حکام

بنوں ریسکیو 1122 نے بدھ کی صبح ایک بیان میں بتایا ہے کہ ریسکیو آپریشن کو مکمل کر لیا گیا ہے۔

پاکستانی سکیورٹی حکام کے مطابق بنوں کینٹ پر منگل کی شام شدت پسندوں کا ایک حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ حکام کے مطابق حملے میں 11 شہری جان سے گئے جبکہ 16 زخمی ہوئے ہیں۔

گذشتہ روز افطار کے وقت جب بنوں بازار میں رش تھا، حملہ آوروں نے بارود سے بھری دو گاڑیاں بنوں کینٹ کی دیوار سے ٹکرا دیں۔ حکام کے مطابق اسی دوران قریبی مسجد کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

بنوں میں ریسکیو حکام کے مطابق  دھماکوں کے بعد ملبے تلے دبے افراد کو ریسکیو کرنے کے بعد ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

بنوں ریسکیو 1122 نے بدھ کی صبح ایک بیان میں بتایا ہے کہ ریسکیو آپریشن کو مکمل کر لیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق ملبے تلے دب جانے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

ریسکیو 1122 کے مطابق کل 41 افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے جن میں سے 30 زخمی تھے جبکہ 11 کی موت ہو چکی تھی۔

اس سے قبل ضلع بنوں میں پولیس نے منگل کو بتایا تھا کہ کینٹ کی حدود میں دو زور دار دھماکوں کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کرتے ہوئے تین حملہ آوروں کو مار دیا ہے۔

بنوں کے ضلعی ہسپتال کے ترجمان نے بتایا تھا کہ دھماکوں کی شدت کے باعث قریبی مکانوں کی چھتیں اور دیواریں گرنے سے نو لوگ جان سے گئے اور 20 زخمی ہوئے ہیں۔

بنوں پولیس کنٹرول روم کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ افطاری کے بعد دو دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جس کے بعد شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اہلکار کے مطابق سکیورٹی فوسرز نے کارروائی کرتے ہوئے تین حملہ آوروں کو مار دیا اور حالات پر قابو پا لیا گیا ہے۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے بارود سے بھری دو گاڑیاں بنوں کینٹ کی دیوار سے ٹکرائیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں ایک بارود سے بھری گاڑی بازار سے ملحقہ علاقے میں دھماکے سے اڑا دی جس کے نتیجے میں شہری جان سے گئے اور زخمی ہوئے جبکہ قریبی مسجد بھی منہدم ہو گئی۔

بنوں کے مرکزی سرکاری ہسپتال کے ترجمان نعمان نے بتایا کہ دھماکے سے قریبی گھروں کی چھتیں اور دیواریں گرنے کے نتیجے میں نولاشیں اور 20 زخمیوں کو لایا گیا۔

نعمان کے مطابق مرنے والوں میں ڈیڑھ سے نو سال تک عمر کے پانچ بچے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چونکہ دھماکوں کی جگہ رہائشی علاقوں کے قریب ہے، لہٰذا متعدد مکانات کی چھتیں گرنے، شیشوں اور دیواریں گرنے کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں۔

نعمان نے بتایا، ‘دھماکے کی جگہ سے اب تک کوئی بھی زخمی یا لاش ہسپتال نہیں لائی گئی بلکہ تمام افراد دھماکے کی شدت کی وجہ سے گھروں کی چھتیں گرنے سے زخمی ہوئے اور یا جان سے چلے گئے۔’

بنوں ہسپتال میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے اور ہسپتال انتظامیہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ہسپتال میں رش لگانے سے گریز کریں۔

ریسکیو1122 بنوں نے ایک بیان میں بتایا کہ ایمبونسز بمعہ ریسکیو ٹیمیں اس وقت آپریشن میں مصروف ہیں۔

بیان کے مطابق دھماکے کی وجہ سے کینٹ سے ملحقہ کئی گھروں و مساجد کی چھتیں گر گئی ہیں اور ریسکیو ٹیمیں ملبے تلے لوگوں کو نکال کر ہسپتال منتقل کر رہی ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دو خود کش بمبار ایک فوجی کمپاؤنڈ میں دو بارودی مواد سے بھری گاڑیاں لے کر گھس گئے، جس کے نتیجے میں زوردار دھماکے ہوئے۔

ایک سینیئر ضلعی پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ’خود کش بمباروں نے بارودی مواد سے بھری دو گاڑیاں بنوں کینٹ کے داخلی دروازے سے ٹکرا دیں، جس کے نتیجے میں شدید دھماکے ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد متعدد مسلح عسکریت پسندوں نے کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔‘

دفتر پریس سیکریٹری برائے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے پولیس کے اعلیٰ حکام سے رپورٹ طلب کر لی۔

بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو زخمیوں کو بروقت طبی امداد کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

حملے کی ذمہ داری غیر معروف عسکریت پسند گروپ ’جیش الفرسان محمد (جے ایف ایم)‘ نے قبول کی۔

بنوں کینٹ میں جولائی 2024 میں بھی ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس میں پولیس کے مطابق آٹھ فوجی اہلکار جان سے گئے تھے اور 10 حملہ آوروں کو مار دیا گیا تھا۔

اسی طرح 2022 میں بنوں کینٹ کے اندر سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں زیر حراست مبینہ شدت پسندوں نے سکیورٹی اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر یرغمال بنا لیا تھا، جس کے بعد ایک سکیورٹی آپریشن کرتے ہوئے کمپاؤنڈ کے اندر25 شدت پسندوں کو مارا گیا تھا۔

بنوں کینٹ بنوں شہر کے اندر واقع ہے جس کے آس پاس رہائشی مکانات بھی موجود ہے جبکہ پولیس کے مرکزی دفاتر بھی اس کی حدود میں واقع ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان