(سوویت یونین کی فوجوں نے 27 دسمبر 1979 کو افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس موقعے پر ایک خصوصی سیریز کا آغاز کیا ہے، جس میں آپ آنے والے دنوں میں اس تاریخ ساز واقعے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحریریں اور تجزیے پڑھیں گے۔)
27 دسمبر 1979: افغان فوجی وردیوں میں ملبوس روسی خفیہ ادارے کے جی بی اور جی آر یو کے کمانڈوز اپنے ٹھکانوں سے نکلے اور انہوں نے صدارتی محل سمیت کابل کی اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرکے افغان صدر حفیظ اللہ امین کو قتل کر دیا۔ چند منٹوں کے اندر اندر افغان حکومت بغیر کسی بڑی مزاحمت کے دھڑام سے گر گئی۔
کچھ ہی دیر بعد ریڈیو کابل سے ایک اعلان نشر ہوا جس میں کہا گیا کہ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ببرک کارمل نئی افغان حکومت کے سربراہ ہوں گے اور روس نے انہی کی ایما پر یہ فوجی آپریشن کیا ہے۔
آج سے ٹھیک 40 سال پہلے پیش آنے والے اس واقعے نے زلزلے کی وہ لہریں پیدا کیں جن کے اثرات سے یہ پورا خطہ آج تک لرز رہا ہے۔ اس دوران لاکھوں لوگ مارے گئے، کھربوں ڈالر ضائع ہوئے اور کروڑوں لوگوں کی زندگیوں پر وہ خراشیں پڑیں جن کا کوئی مرہم نہیں۔
افغان حکومت کا تختہ الٹنے کے اگلے دن جب دو مزید ڈویژن سرحد عبور کرکے افغانستان میں داخل ہوئے تو ملک میں روسی فوجیوں کی کل تعداد 30 ہزار تک پہنچ گئی۔ اس سے پہلے کئی دن سے روسی فوجی فضائی اور زمینی راستوں سے افغانستان پہنچ رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روس کا خیال تھا کہ اس کی فوجیں چند ماہ کے اندر اندر روس لوٹ جائیں گی، لیکن بالآخر جب 15 فروری 1989 کو آخری روسی دستے نے افغانستان سوویت یونین سرحد پر آمو دریا کے اوپر قائم حیرتان پل عبور کرکے سوویت یونین میں قدم رکھا تو اس دوران نو سال اور دو ماہ گزر چکے تھے اور دنیا کی دوسری سپر پاور آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔
روس نے افغانستان پر حملہ کیوں کیا؟
اس زمانے میں بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ افغانستان پر روسی چڑھائی کا مقصد دراصل گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا ہے اور اس مہم کا اگلا مرحلہ پاکستان ہو گا۔ خود پاکستان میں ضیاء الحق کی حکومت نے یہی نعرہ بلند کرکے روس کے خلاف جہاد کی راہ ہموار کی۔
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔
1973 تک افغانستان میں شہنشاہیت تھی اور محمد ظاہر شاہ پچھلے 40 برس سے ملک کے بادشاہ چلے آ رہے تھے۔
یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب ظاہر شاہ علاج کی خاطر ملک سے باہر گئے تو ان کے چچا زاد بھائی اور برادرِ نسبتی داؤد خان نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ داؤد خان سابق وزیرِ اعظم اور حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل تھے اس لیے انہیں ظاہر شاہ کو معزول کرنے میں کچھ زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور خون کا ایک قطرہ بہے بغیر اقتدار پر قابض ہو گئے۔ اور ویسے بھی بظاہر سابق شاہ اتنے غیر مقبول بادشاہ تھے کہ ان کی حمایت میں کوئی سامنے نہیں آیا۔
البتہ داؤد خان نے خود بادشاہ بننے کی بجائے ملک کو جمہوری خطوط پر استوار کرنے کی کوشش میں اپنے لیے صدر کا عہدہ منتخب کیا۔
داؤد خان پاکستان کے سخت خلاف تھے اور انہوں نے پاکستان کے پشتون اور بلوچ علیحدگی پسند عناصر سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیں، جنہوں نے پاکستان میں متعدد دہشت گردانہ حملے بھی کیے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے ہی ایک حملے میں پشاور میں فروری 1975 میں صوبۂ سرحد کے گورنر پیپلز پارٹی کے رہنما حیات محمد خان شیرپاؤ مارے گئے۔
اسی دوران اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان میں پراکسی جنگ کا سلسلہ شروع کیا جو آنے والے دنوں میں بڑھتا چلا گیا اور اس کا سایہ آج تک پاکستان افغانستان تعلقات پر اندھیرا پھیلائے ہوئے ہے۔
داؤد خان کی صدارت چار سال چلی۔ آخر اپریل 1978 میں کمیونزم کی جانب جھکاؤ رکھنے والی جماعت پی ڈی پی اے نے روس کی آشیرباد سے ان کا تختہ الٹ دیا اور داؤد سمیت ان کے تمام خاندان کو ہلاک کر ڈالا۔ اس بغاوت کو ’ثور انقلاب‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ثور افغان کیلنڈر کے ایک مہینے کا نام ہے۔
ثور انقلاب کے نتیجے میں پہلے نور محمد ترکی افغان صدر بنے، جن کے بعد وزیرِ خارجہ حفیظ اللہ امین نے انہیں راستے سے ہٹا کر خود یہ کانٹوں بھرا تاج سر پر پہن لیا۔
لیکن افغانستان کی روایتی اور قبائلی سنگلاخ زمین میں راتوں رات سوشلسٹ پودا اگانا ممکن نہیں تھا۔ کابل میں ضرور اکا دکا عورتیں سکرٹ میں نظر آ جاتی تھیں اور بڑے شہروں سے یورپی ہپیوں کے ٹولے گزرتے تھے، لیکن اب بھی ملک کا بیشتر علاقہ قرونِ وسطیٰ میں جی رہا تھا۔
پی ڈی پی اے نے آتے ہی جو اصلاحات کیں ان میں عورتوں کو برابری کے حقوق دلوانا، کسانوں کے قرضوں کی معافی، دلہن خریدنے کی رسم کا خاتمہ وغیرہ جیسے اقدامات شامل تھے۔ یہ اسی قسم کا پشتون معاشرہ تھا جس نے ڈیڑھ صدی قبل سید احمد شہید کے کٹر انقلابی اسلامی اصلاحات کے پروگرام تک کو مسترد کر دیا تھا، تو بھلا وہ مارکسسٹ نظام کو کیسے برداشت کرتا۔
اس لیے ثور انقلاب کے فوراً بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے جنہوں نے مسلح بغاوت میں ڈھلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ جلد ہی ثور انقلاب کے رد میں نیشنل سالویشن فرنٹ نامی ایک تحریک وجود میں آ گئی جس کا مقصد روس نواز حکومت کا خاتمہ تھا۔ ادھر پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے اس تحریک میں شامل مذہبی عناصر کی کھلم کھلا فوجی اور مالی مدد شروع کر دی۔ خاص طور ان کی نظرِ کرم گلبدین حکمت یار پر پڑی جو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے ہی سے پاکستانی انٹیلی جنس کی نگاہِ انتخاب میں تھے۔ ضیاء الحق نے حکمت یار کی حزبِ اسلامی کو اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا جس کے نظریاتی ڈانڈے پاکستانی جماعت اسلامی سے ملتے تھے۔
بہت سی جگہوں پر اس جدوجہد کو اسلام اور کمیونزم کے درمیان جنگ سے تعبیر کیا گیا۔ مذہبی رہنماؤں نے اپنا کردار ادا کیا اور افغانستان کے کونے کونے میں مسجد کے منبروں سے کمیونزم کی وہ گھناؤنی شکل لوگوں کے سامنے پیش کی کہ کابل اور دو چار بڑے شہروں کے علاوہ تقریباً ہر جگہ حکومت کی رٹ ختم ہو کر رہ گئی۔
روسی اس صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ روسی خفیہ ادارے کے جی بی کی افغانستان میں گہری جڑیں تھیں اور جوں جوں 1979 آگے بڑھتا گیا، یہ رپورٹیں تاریک تر ہوتی چلی گئیں۔ آخر 12 دسمبر 1979 کو سوویت یونین کے پانچویں سربراہ لیونڈ برژنیف اور ان کے ساتھیوں نے ہاتھ سے لکھے ایک نوٹ پر دستخط کیا اور خطے کی تقدیر پر مہر ثبت ہو گئی۔
اس فیصلے کی موٹی موٹی وجوہات یہ تھیں:
1 سرخ انقلاب کو تقویت
روسی نہیں چاہتے تھے کہ افغان حکومت کے خلاف چلنے والی بغاوت اس آندھی کی شکل اختیار کر لے جو حکومت ہی کو اڑا کر رکھ دے۔ روسی مائنڈ سیٹ کی منظر کشی امریکی سی آئی اے کی اس رپورٹ میں ملتی ہے جو اس نے افغانستان پر روسی چڑھائی کے 20 دن بعد امریکی حکومت کے لیے تیار کی تھی:
’روس کو 1979 بھر یہ دھڑکا لگا رہا ہے کہ کابل کی حکومت اقتدار میں رہ پائے گی یا نہیں۔ روس کو معلوم تھا کہ افغان فوج بڑی حد تک غیر موثر ثابت ہو رہی ہے اور باغی ملک بھر میں اپنی کارروائیوں کا دائرۂ کار بڑھا رہے ہیں۔ سوویت رہنماؤں کا خیال تھا کہ امین فوج کو برگشتہ کر رہے ہیں اور اپنے لیے وسیع سیاسی پشت پناہی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور وہ روسی مشوروں پر بھی عمل نہیں کرتے۔‘
دوسری طرف روسی قیادت کے سامنے یہ مسئلہ بھی تھا اگر افغان انقلابی حکومت کا بوریا بستر گول ہو گیا تو اس سے دنیا بھر میں یہ تاثر جائے گا کہ سرخ انقلاب کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو جنوبی یمن، انگولا اور ایتھوپیا جیسے ملکوں میں قائم کمزور سوشلسٹ حکومتوں کا قائم رہنا مشکل تر ہو جائے گا۔ گویا یہ انا اور تاثر کی جنگ بھی تھی۔
2 اسلامی انقلاب کا دھڑکا
اسی سال ایران میں اسلامی انقلاب آ چکا تھا، مشرقی سرحد پر جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ روس کو ڈر تھا کہ اگر اس ماحول میں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت ڈھے گئی تو اس کی جگہ اسلامی بنیاد پرستوں کی حکومت آ سکتی ہے، جس سے افغانستان سے ملحقہ مسلم اکثریتی روسی ریاستوں کو علیحدگی کے لیے شہ مل سکتی ہے۔
روس کسی صورت میں گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی جنوبی سرحد بھی غیر محفوظ ہو جائے، لیکن مشرق میں اس کے چین کے ساتھ تنازعات چل رہے تھے، جب کہ مغرب کی طرف سے اسے امریکی اتحادیوں نے گھیرا ہوا تھا۔
3 حفیظ اللہ امین کی امریکہ سے پینگیں
ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ روس ہر صورت میں حفیظ اللہ امین کے روڑے کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔ انہیں اب تک یہ بات ہضم نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے روس کے حمایت یافتہ سوشلسٹ رہنما نور محمد ترکی کو قتل کروا دیا تھا۔
دوسری طرف روس کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ امین امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کھچڑی پکا رہے ہیں اور یہ اطلاعات بےبنیاد نہیں تھیں۔
روسی حملے سے صرف ایک ماہ قبل ایک امریکی سفارت کار آرچر بلڈ کی صدر امین سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد انہوں نے واشنگٹن کو ایک کیبل بھیجی تھی جس میں لکھا تھا کہ 40 منٹ پر محیط اس ملاقات میں امریکہ پلٹ صدر امین نے واضح کیا ہے کہ افغانستان اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِ ثانی کرنا چاہتا ہے: ’وہ امریکہ افغانستان تعلقات میں بہتری لانا چاہتے ہیں اور چونکہ وہ امریکہ میں مقیم رہے ہیں، اس لیے انہوں نے اس کے لیے محبت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ افغانستان کی خودمختاری کو بیرونی ہاتھوں، بشمول روس، گروی نہیں رکھیں گے۔‘
روس اس پس پردہ ڈرامے سے بےخبر نہیں تھا۔
1995 میں افشا ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دسمبر 1979 میں کے جی بی کے سربراہ یوری آندروپوف نے سوویت یونین کے سربراہ لیونڈ برژنیف کو ہاتھ سے لکھا ایک نوٹ بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ حفیظ اللہ امین ’امریکی ناظم الامور سے گٹھ جوڑ ہم سے چھپا رہے ہیں۔‘
حفیظ اللہ امین اور امریکی سفارت کار کے درمیان یہ ملاقات گویا اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہوئی اور آخر کار 12 دسمبر 1979 کو پولٹ بیورو نے کوئی بحث کیے بغیر افغانستان میں فوجی مداخلت کا فیصلہ کر لیا۔
اس تمام فسانے میں اگر کوئی ذکر نہیں آیا تو وہ گرم پانیوں تک پہنچنے کا روسی منصوبہ تھا۔ یہ چورن بعد میں افغان جہاد کو تقویت دینے والوں نے بیچا اور اس کے خریدار آج بھی پاکستانی ٹی وی چینلوں پر نظر آ جاتے ہیں۔