پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخیوں اور نفرت کی شدت کا اندازہ اس وقت خوب ہوا جب ورلڈ کپ 2019 کے موقع پر انگلینڈ میں دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سٹیڈیم کے اندر اور باہر افغانوں اور پاکستانیوں کے درمیان بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔
یہ مناظر دنیا کے لیے اس لیے حیران کن تھے۔ آج تک کرکٹ کے میدان میں پاکستان کا سب سے بڑا حریف انڈیا ہی رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کبھی ایک دوسرے کا سر پھاڑنے اور کرسیاں پھینکنے والے واقعات کبھی رونما نہیں ہوئے۔
میچ کے دوران ان واقعات کی بنیادی وجہ کرکٹ نہیں تھی بلکہ یہ اس سلسلہ وار نفرت کا حصہ تھا جو پچھلے کچھ وقتوں سے بتدریج بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کی اکثریت افغانستان پر تنقید کرنا جائز سمجھتی ہے کیونکہ ان کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان پچھلی کئی دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کو ’پالتا‘ آیا ہے۔ یہاں تک کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی ابتدائی تربیت بھی پاکستان میں ہی ہوئی۔
ایک عام آدمی کی سوچ بنتی کیسے ہے؟
ایک عام آدمی ہمیشہ تصویر کا وہ رخ ہی دیکھتا ہے جس کی بنیاد ریاستی بیانیہ رکھتی ہے۔ ریاست کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کہ وہ اپنا بیانیہ سرکاری میڈیا اور دوسرے ذرائع سے لوگوں تک پہنچائے۔ لیکن آج کل کے دور میں رائے بنانے میں سوشل میڈیا ہر کسی سے آگے ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا کو زیادہ تر پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں غلط اور صحیح کی پہچان خالص صارف پر منحصر ہوتی ہے، لہٰذا ایسے میں عام آدمی اکثر پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی جانب سے چند گھسے پٹے جملے اکثر دوہرائے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بیانات کے پیچھے وجہ یا منطق پر نہ کوئی بات کرتا ہے اور نہ انہیں اس کا علم ہوتا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت ڈیورنڈ لائن سے تلخیوں کا آغاز ہوا۔ لیکن اب افغانستان میں بسنے والوں میں یہ سوچ کافی سرایت کر چکی ہے کہ وہاں جو بھی غلط ہوتا ہے اس کا ذمہ دار پاکستان اور اس کے ریاستی ادارے ہیں۔ افغانستان کے ایک صحافی سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کے خلاف پائی جانے والی نفرت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے بتایا کہ افغانستان میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نجیب کو دراصل طالبان کے بھیس میں پاکستانی اداروں نے پھانسی دی تھی۔ کیونکہ آج تک کسی طالب نے دعویٰ نہیں کیا کہ کابل میں ڈاکٹر نجیب کو پھانسی دینے والے کون تھے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے دیگر اعلیٰ درجے کی قیادت کو نشانہ بنانے کا الزام بھی پاکستان کے سر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان میں یہ تاثر بھی ہے کہ پاکستان نے پناہ گزینوں کے لیے عرب اور مغربی ممالک سے آنے والی امداد میں خردبرد کی۔ وہ البتہ یہ نہیں سوچتے کہ کروڑوں پناہ گزینوں کو جگہ دے کر پاکستان کو کتنا معاشی، معاشرتی اور جانی نقصان ہوا۔
دونوں ممالک کے درمیان جہاں غلط فہمیاں اور بدگمانیاں ہیں وہاں دونوں ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں کسی طور کم نہیں ہیں۔ جہاں پاکستان پر یہ الزام ہے کہ وہ خود کو بڑا بھائی سمجھتے ہوئے افغانستان کو مارنے پیٹنے میں جارحیت پسند ہے وہاں افغانستان پر بھی یہ الزام ہے کہ وہ بظاہر خود کو مظلوم اور بے زبان ظاہر کرتے ہوئے درپردہ وار کرنے سے باز نہیں آتا۔
پاکستان کو سوچنا چاہیے کہ افغان نفرت کیوں کرتے ہیں؟
افغانستان سے تعلق رکھنے والے صحافی انیس الرحمن سے انڈپینڈنٹ اردو نے پوچھا کہ آخر کیوں پاکستان میں اتنا عرصہ گزارنے کے باوجود افغانستان کے لوگ اکثر نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان پر ہندوستان کو فوقیت دیتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان سے اتنے لوگ انڈیا نقل مکانی کر کے نہیں گئے جتنے پاکستان گئے ہیں۔ ’لیکن پھر بھی وہ پاکستان سے مایوس اور ناراض ہیں۔ پاکستان کو خود سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے۔ پاکستان میں ہمارے لوگوں کی پاکستان میں رشتے داریاں بن گئی ہیں، کاروبار ہیں۔ علاج معالجے چل رہے ہیں۔ طلبہ کی پڑھائی چل رہی ہے۔ ایسے میں جب ان پر اچانک بارڈر بند کر دیا جاتا ہے تو لوگوں کی دل آزاری تو ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی کو ایسے حالات میں آپ یہ منطق نہیں سمجھا سکتے کہ اتنا عرصہ پاکستان میں رہنے کے بعد اب پاکستان اپنے مفاد کے پیش نظر ان پر دروازے کیوں بند کروانا چاہتا ہے۔‘
انیس الرحمن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ 2015 میں پاکستان سے تقریباً 15 صحافی ایکسچینج پروگرام کے تحت افغانستان گئے تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر ایک غیررسمی سروے کیا تھا جس کے مطابق 85 فیصد لوگوں نے نفرت کی وجہ پاکستان کی ان کے ملک میں مبینہ مداخلت اور دہشت گردی قرار دیا گیا۔ انھوں نے اس حوالے سے مزید کہا جب روس افغانستان میں موجود تھا تو امریکہ اور اس کے اتحادی باراستہ پاکستان افغانستان میں داخل ہوئے، پھر طالبان داخل ہوئے۔ پھر ان طالبان کو ختم کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر امریکہ پاکستان ہی کے راستے افغانستان داخل ہوا۔ تو یہ بار بار پاکستان کا راستہ اختیار کرنا افغانستان کے لوگوں میں اس بات کی علامت بن گیا کہ دراصل پاکستان ہی افغانستان کا دشمن ہے۔‘
’حقیقت میں دونوں ممالک کے عوام میں پیار ہے‘
افغانستان کا نوجوان طبقہ جن کی بڑی تعداد پاکستان میں ہی پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی، ان کا پاکستان کے ساتھ انسیت اور پیار ایک فطری امر ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ایسے نوجوان بھی نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں نوجوان ایکٹویسٹ خالد امیری نے بتایا کہ وہ خود بھی ایک پناہ گزین رہے ہیں۔ ’ہمیں اس ملک اور شہر پشاور سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کسی اور کو ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے جانا کبھی بھی ہمارے لیے اتنا آسان نہیں رہا ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے اور منہ پر پیار بھرے گیت ہوتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس کے برعکس ہیں وہ دراصل ریاستی ایجنڈے کا شکار ہیں جو وہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں پھیلا رہی ہے۔
مثال کے طور پر جس دن پاکستان نے پناہ گزینوں کے قیام میں توسیع کا اعلان کیا تھا، اسی روز پاکستان میں ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ تھا کہ ’مہاجرین کو نکالو‘۔ عام شہری کبھی اس طرح کے ٹرینڈ نہیں چلا سکتے۔ اسی طرز کا ایک اور ٹرینڈ پشتونوں میں چلا کہ ’کلہ بہ زے‘ (کب جاؤ گے؟)۔
افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرت رکھنے اور پھیلانے والے کون ہیں؟
افغانستان کے امور کے ماہر وقار حیدر بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے بیچ نفرت کے اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے افغانستان کو سمجھا جائے کہ اس میں کس قسم کے لوگ رہتے ہیں اور ماضی میں روس کا وہاں کیا کردار رہا ہے۔
’افغانستان کے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک جو دیہات میں رہتے ہیں اور ایک وہ جو کابل اور شہر ی علاقوں میں۔ انھیں میں کابل ایلیٹ کہتا ہوں۔ یہ لبرل طبقہ رہا ہے۔ ان کا لباس مغربی اور لہجے پر انڈیا کا اثر تھا۔ انھوں نے پہلے روس کو خوش آمدید کہا اور ان سے خوب مالی فائدے اٹھائے۔ اس زمانے میں روس اور انڈیا کے تعلقات بھی بہت اچھے تھے۔ بعد میں جب روس کو شکست ہونے لگی تو یہ لوگ بھاگ کر پشاور آئے۔ یہ وہی کابل ایلیٹ ہیں جو پاکستان سے انسیت نہیں رکھتے کیونکہ ان کے بڑوں کی تربیت روسیوں نے کی ہے۔‘
‘’پاکستان اور افغانستان دشمنی کا انجام کیا ہوگا؟
دفاعی معاملات کے ماہر بریگیڈئر محمد ایاز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دنیا میں جنگوں کا اختتام اسی سوچ پر ہوا کہ معاملات کا حل مذاکرات میں ہے۔ ’ کئی قوموں کے مابین صدیوں پرانی دشمنیاں ہموار کی جا رہی ہیں۔ وہ تجارت اور باہمی ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ تازہ ترین میں اسرائیل کی مثال سامنے ہے، وہ بھی عربوں کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ جس سے پورے مڈل ایسٹ کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ تو کیا بحیثیت مسلمان اور پڑوسی ممالک ہمیں یہ جچتا ہے کہ ایک دوسرے سے دشمنی رکھ کر خود کو اندھیروں میں دھکیلیں؟‘
بریگیڈئر ایاز خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان کی خودمختاری کی قدر کرنی چاہیے۔ اور اس کو اپنی پالیسی پر اس طرح کام کرنے دے جس طرح وہ خودمختار ریاست کے طور پر اس کو کرنا چاہیے۔
’افغانستان کے اندر موجودہ نفرت میں بہت حد تک دوسرے ممالک کا ہاتھ ہے۔ انڈیا اس میں سب سے آگے ہے۔ افغانستان پاکستان کے درمیان خراب حالات کے نتیجے میں پہلا بینفشری بھی وہی ہوگا۔ پاکستان کی اپنی کچھ غلطیاں بھی ہیں لیکن آج بھی پاکستان میں ان لوگوں کے لیے پیار و محبت ہے۔‘