ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور لوگوں کی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ چند بچے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ علاقے کے تمام چھوٹے بڑے یہاں موجود ہیں۔ ناظم، ارکان پارلیمان، کونسلرز، گرجا گھر کے رہنما، پولیس سربراہان اور ان کے علاوہ ہر عمر کے بچے اور خواتین یہاں ہیں۔ ہاں یہ ایک سنجیدہ موقع ہے۔
باہو ٹرسٹ مسجد نے مقامی برادریوں سے تعلق رکھنے والے 150 افراد کو اکٹھا کیا ہے جو کہ برمنگھم کے اندرون شہر میں ہونے والے تشدد کے خلاف اس کی مہم کا حصہ ہے۔ اس مہم میں خنجر سے وار کرنے اور گھریلو تشدد کے مسائل پر توجہ دی جا رہی ہے۔
اس معاملے کی اہمیت کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ یہ ایک ایسا بھیانک جرم ہے جو برطانوی شہروں میں رہنے والے ہزاروں افراد کی زندگی کو برباد کر رہا ہے۔
برمنگھم میں گذشتہ چار مہینوں کے دوران چاقو مارنے کے 269 واقعات ہو چکے ہیں اور 800 نوجوان چاقو کے ساتھ پکڑے جا چکے ہیں۔ گھریلو تشدد زیادہ تر چھپا ہوا ہے اور اب اس نے کئی شکلیں اختیار کر لیں ہیں ۔ جسمانی تشدد، بیٹری، زبردستی کرنا لیکن پولیس نے گذشتہ دو سال کے دوران اس میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا ہے اور 2019 میں یہ تعداد 1400 تک جا پہنچی تھی۔
آپ کو اس بارے میں بات کرنی ہو گی ورنہ اس بات کو دبانا ہمارے بچوں کو ملتے جلتے پیغامات دیتا ہے اور پھر یہ خطرناک دائرہ جاری رہتا ہے۔
ویسٹ مڈلینڈز کے تمام علاقوں میں 2014 سے گھریلو جرائم کی تعداد دگنی ہو چکی ہے اور گھریلو تشدد اب تمام جرائم کا 14 فیصد ہے۔ ایشیائی خواتین کو اس حوالے سے اضافی طور پر غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ وہ نہیں جانتیں کہ اگر وہ ان واقعات کو رپورٹ کریں گی تو کیا ان کی برادری ان کا ساتھ دے گی۔
تین سال قبل مقامی پولیس انسپکٹر نیل کرک پیٹرک نے باہو ٹرسٹ کو تشدد کے خلاف ٹاسک فورس میں شمولیت کی دعوت دی۔ پہلے اجلاس کے دوران انہوں نے اعتراف کیا کہ 'ہم اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکے۔' جس کے بعد مسجد نے بڑے مقامی مسائل سے متعلق اپنی سوچ کو مرکوز کیا۔ اس مہم کے لیے مسجد کی ٹیم نے مقامی پولیس، برادری کے افراد، دوسرے مذاہب کے اداروں سے مشاورت کی جس کے بعد سوچ بچار کی گئی اور دو مختصر لیکن موثر ویڈیوز کا سکرپٹ لکھا گیا جن میں گھریلو تشدد اور خنجر سے وار کے جرائم کو ڈرامائی انداز میں دکھایا گیا۔
ان ویڈیوز کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر لانچ کیا گیا اور تقریب کی انتظامی ٹیم خواتین پر مبنی تھی۔ ان میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جو گھریلو تشدد اور خنجر کے حملوں کا سامنا کر چکی تھیں۔
اس مہم کو پذیرائی اس وقت ملی جب فروری میں ’نائف کرائم ۔ ایک ماں کی کہانی‘ کو محفوظ شہروں کی کیٹگری میں بہترین فلم کا ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ایوارڈ اقوام متحدہ کے فلم فیسٹول میں ابوظہبی میں دیا گیا۔ یہ فیسٹول ورلڈ اربن فورم کی دسیوں کانفرنسوں کا حصہ تھا جو شہری مسائل پر دنیا کی سب سے اہم اور سب سے بڑی کانفرنس ہے۔ مقابلے میں 37 ممالک کی ہزاروں فلمیں شامل تھیں۔
گھریلو تشدد کا شکار رہنے والی حنا (باہو ٹرسٹ)
گھریلو تشدد کا شکار رہنے والی حنا کہتی ہیں 'سب سے اہم لمحہ وہ ہوتا ہے جب آپ کو محسوس ہوتا کہ کوئی آپ کو پاؤں سے کچل رہا ہے۔ یہاں خطرے کی گھنٹی بج جانی چاہیے۔ آپ کو اس بارے میں بات کرنی ہو گی ورنہ اس بات کو دبانا ہمارے بچوں کو ملتے جلتے پیغامات دیتا ہے اور پھر یہ خطرناک دائرہ جاری رہتا ہے۔' حنا کو امید ہے کہ یہ ویڈیوز سکولوں اور سوشل میڈیا پر شیئر کی جائیں گی اس کے ساتھ ساتھ یہ ایشیائی ٹی وی سٹیشن جیسے کہ تاخیر ٹی وی پر بھی دکھائی جائیں گی۔
برمنگھم سٹی کونسل کی گھریلو تشدد کے حوالے سے کوارڈینیٹر شاہدہ بی بی کا کہنا ہے کہ 2011 سے برمنگھم میں گھروں میں قتل کے 30 واقعات ہو چکے ہیں۔ اکثر تشدد کرنے والوں اور گھر والوں کی جانب سے دباؤ ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال میں خاموش رہا جائے۔ بعض اوقات تشدد کرنے والے قرآن سے آیات لے کر اپنے جارحانہ رویے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ وہ باہو ٹرسٹ کی جانب سے ان اقدامات کو خوش آمدید کہتی ہیں جو مذہب کی بنیاد پر خواتین پر زبردستی کرنے یا تشدد کرنے کو جھٹلاتے ہیں۔ اسی وجہ سے دونوں ویڈیوز قرآنی آیات پر ختم ہوتی ہیں۔ شایدہ بی بی کہتی ہیں کہ باہو ٹرسٹ ان چند اداروں میں سے ہے جو گھریلو تشدد کے خلاف کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
پولیس سپراٹنڈنٹ سارہ برٹن نے جو کہ ایک سال سے باہو ٹرسٹ کے ساتھ کام کر رہی ہیں حاضرین کو بتایا کہ یہ مسجد 'نئی چیزوں پر بات کرنے کے حوالے سے کافی بہادر اور حوصلہ مند' واقع ہوئی ہے جیسے کے چاقو سے وار کے جرائم کے بارے میں جعے کے خطبے میں بات کرنا۔
ہم مختلف افراد کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ ان پرتشدد جرائم کے خلاف کھڑا ہوا جا سکے۔
ایک مقامی رکن یاسمین نے مجھے ان کے ارینجڈ میریج کے ختم ہونے کے بعد کے مسائل کے بارے میں بتایا خصوصا کیسے اس نے ان کے بچوں کو متاثر کیا۔ ان کی بیٹی نے باپ کا ساتھ دیا جبکہ ان کا بیٹا منشیات کی وجہ سے جیل میں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی برداری کسی دوسری کی طرح ہی ہے۔ ’مجھے بتایا جاتا ہے کہ کیسے کیتھولک چرچ نے گذشتہ چار دھائیوں میں مشکلات کا سامنا کیا۔‘
تین ماہ کے بعد شبانہ جو اس تقریب کے منتظمین میں سے تھیں اور جنہیں نے اس اجلاس کی صدارت بھی کی خوش ہیں کہ یہ مہم آگے بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ہم مختلف افراد کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ ان پرتشدد جرائم کے خلاف کھڑا ہوا جا سکے۔ ہم اس ویڈیو کو بڑے پیمانے پر پھیلا رہے ہیں۔ خواتین کے لیے مخصوص سیشنز کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ ورکشاپس کی جا رہی ہیں اور باقی مساجد کو بھی ان میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ہم مساجد کے اماموں کی بھی تربیت کر رہے ہیں کہ وہ گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو نشاندہی کر سکیں۔'
سال 1983 میں سپارک بروک میں دو بھائیوں نے باہو ٹرسٹ مسجد کی بنیاد رکھی تھی تاکہ اسے بڑھتی ہوئی مسلمان آبادی کی خدمت کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ صوفی روایات کی بنیاد پر قائم ہونے والی یہ مسجد شدت پسندی سے دور ہے۔ ان بھائیوں نے ولیم سیمز کی پیانو فیکٹری خریدی جو کہ اس علاقے میں 19ویں صدی سے کام کر رہی تھی۔
انہوں نے اس کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ سماجی تقریبات کے لیے بھی تیار کیا۔ آج یہ جگہ سماجی سرگرمیوں کا ایک مرکز بن چکی ہے اور اس میں سامنے موجود متروک چرچ بھی شامل ہو چکا ہے۔ تقریبا 1500 افراد یہاں جمعے کی نماز پڑھنے آتے ہیں۔ جب کہ یہاں 700 بچے بھی رجسٹرڈ ہیں جو سکول کے بعد یہاں دو سے تین گھنٹوں کے لیے آتے ہیں۔ اس کا ایک حصہ اسلامک ہیلپ جو خیراتی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطی میں 2000 ہزار یتیم بچوں کی کفالت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مختلف سماجی سرگرمیاں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔
گھریلو تشدد اور چاقو مارنے جیسے جرائم کے خلاف چلائی جانے والی مہم اس علاقے میں پیدا ہونے والی سرگرم افراد کی دوسری نسل کی جانب سے شروع کی گئیں ہیں۔ شبانہ ایسٹن کے قدیم علاقے میں پیدا ہوئیں اور پھر اسلامک ہیلپ کے لیے کام کرنے سے پہلے برمنگھم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔ عماد جو کہ تقریبا 30 سال کے ہیں وہ بالسال ہیتھ کے علاقے میں پلے بڑھے ہیں اور اب ایک پولیس اہلکار ہیں۔ وہ اپنا اضافی وقت مسجد کی جانب سے فلاحی کاموں میں صرف کرتے ہیں۔
شوکت تعلیم کے شعبے کو دیکھتے ہیں وہ اس مسجد میں تب سے آ رہے ہیں جب سے وہ ایک بچے تھے۔ انہوں نے لندن سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے لیکن یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد وہ اس علاقے میں واپس آچکے ہیں۔ دو سال سے وہ بطور امیگریشن آفیسر اور کمیونٹی کی مدد کے لیے کیے جانے والے کاموں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔
کامران ایک اور مقامی شخص ہیں۔ وہ جی سی ایس ایز میں فیل ہوئے اور پھر مسجد کے ساتھ غیرسرکاری غیرتربیت یافتہ حیثیت میں کام کرنے لگے۔ اپنی بھاری ہنسی کے ساتھ انہوں نے مختلف سرگرمیاں جیسے کہ کھیلوں کے مقابلے منعقد کرواتے ہیں۔ اس کے بعد سے وہ ایک سپیشل کانسٹیبل بنے، ڈگری حاصل کی اور اس خیراتی ادارے کی بین القوامی ترقی کے لیے کام کیا اور ماحولیاتی کارکن بن گئے۔
اس علاقے میں یہ سوچ جڑ پکڑ چکی کہ مسجد اور ہم خیال افراد کو آج کے برطانیہ کو لاحق مسائل سے نمٹنا ہو گا۔ کامران کہتے ہیں 'ٹرسٹ اس بات سے خوش ہے کہ ہم ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے راہیں تلاش کر رہے ہیں اور ایک ایسی جگہ چاہتے ہیں جو مذہبی ہو لیکن کھلی ہو۔'
ہم اصل مسائل میں بہت پھنسے ہوئے ہیں جو کہ نائف کرائم، گھریلو تشدد، نوجوانوں کی بے روزگاری اور منشیات ہیں۔ ہم چاہتے ہیں بچے ایک دوسرے کو چاقو نہ ماریں۔
چھوٹی لیکن اہم تبدیلیاں تمام علاقوں میں دھیرے دھیرے جاری ہیں۔ شوکت کے لیے سکول کا سٹاف جو انگریزی بولتا ہو اور ان مسائل سے آگاہ ہو ایک ترجیح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے جدید سوچ رکھنے والے اساتذہ بھرتی کیے ہیں۔'
مسجد این ایس پی سی سی کے ساتھ مل کر بچوں اور سٹاف کو آئن لائن تحفظ سے متعلق بھی آگاہی دے رہی ہے۔ اس کے سلیبس میں شہریت، برطانوی تاریخ، موسمیاتی بحران اور ہولو کاسٹ جیسے موضوعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ شوکت اور ان کے ساتھیوں نے ای لرننگ یعنی الیکٹرانک تعلیم کے نئے طریقے ڈھونڈ نکالے ہیں اور بچے مسجد میں موجود 60 کمپیوٹرز پر اس تعلیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
یہ مسجد لوگوں کے روز مرہ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی خود کو جدید بنیادوں پر استوار کر رہی ہے۔ شوکت فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ 'ہم مذہبی اور سیکولر افراد کے فاصلوں کو کم کر رہے ہیں۔ ہمیں سخت اور روایتی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقعے پر یہ مسجد عالمی اور ملکی مسائل پر توجہ دے رہی تھی بجائے اس کے کہ ہماری توجہ مقامی مسائل پر ہوتی لیکن ہم اس صورت حال کو بدلنے میں مدد دے رہے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ ایسی ہی تبدیلیاں شہر کی کچھ اور مساجد میں بھی دیکھی جا رہی ہیں۔ ہم ثقافتی جنگوں میں نہیں الجھنا چاہتے۔ ہم اصل مسائل میں بہت مصروف ہیں جیسے کہ چاقو کے جرائم، گھریلو تشدد، بے روزگاری اور منشیات۔‘
یہ متحرک دوسری نسل اس کمیونٹی کو دنیا کے لیے کھول رہی ہے۔ انسپکٹر کرک پیٹرک سے ملاقات کے بعد مسجد نے ہفتہ وار بنیادوں پر مقامی برادری کو قرضوں، ذہنی صحت سمیت باقی مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک تربیتی نشست کا اہتمام کیا اور ان کے نصف سے زائد شرکا غیر مسلم تھے۔ اس کے بعد کی نشست فوڈ بینک پر تھی اور پھر نوجوانوں کو بزرگوں کا خیال رکھنے کے لیے بڈی سکیم بھی متعارف کروائی گئی۔
یہاں کا پھیلتا ہوا تعلیمی پروگرام پہلے ہی بچوں سے زیادتی اور گھریلو تشدد کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ پھر مسجد کی ٹیم کو اندازہ ہوا کہ سب سے مشکل کام اکیلے پن کے شکار وہ نوجوان ہیں جو منشیات کے استعمال اور ملک بھر میں سمگلنگ میں ملوث ہو رہے ہیں اور یہ مسئلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے بالکل چاقو مارنے کے جرائم کی طرح۔
اس برادری کے کارکن ڈگلس مرے جیسے رائے زنوں کے ان مفروضوں کو غلط ثابت کر رہے ہیں جو تمام مسلمانوں کو ایک ایسی برادری کے طور پر دیکھتے ہیں جو برطانوی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ شوکت بار بار تنوع اور برداشت کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں انسانی ہمدردی ہمارا واحد اصول ہے۔ ہم اپنے طلبہ کو سکھاتے ہیں کہ وہ سب کا احترام کریں چاہے کسی کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ ہم فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتے۔'
مسلمانوں کے ایک گروپ کی جانب سے ایل جی بی ٹی پلس کے بارے میں ایک میل کے فاصلے پر سکول میں پڑھانے کے خلاف احتجاج کے باوجود مسجد کی جانب سے لیے جانے اقدامات درست سمت میں ایک قدم ہیں۔ گو کہ احتجاج کے بعد میڈیا اس جانب متوجہ رہا ٹرسٹ 'مذہب تشدد کے خلاف' نامی مہم کے ذریعے اپنی ترجیحات کے فروغ میں مصروف تھا۔ جیسا کہ ایک رکن کا کہنا ہے کہ 'ہم ثقافتی جنگوں میں نہیں الجھنا چاہتے۔ ہم اصل مسائل میں بہت پھنسے ہوئے ہیں جو کہ نائف کرائم، گھریلو تشدد، نوجوانوں کی بے روزگاری اور منشیات ہیں۔ ہم چاہتے ہیں بچے ایک دوسرے کو چاقو نہ ماریں۔'
نوجوانوں کے لیے خدمات 2010 سے سرکاری اخراجات میں کٹوتی کی وجہ سے بری طرح سے متاثر ہوئی ہیںگ برنارڈو کی تازہ رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں نوجوانوں کے لیے خدمات میں 2010-11 سے 2017-18 کے درمیان 72 فیصد کمی آئی ہے۔ برمنگہم جیسے بڑے شہر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ برمنگہم سٹی کونسل کی جانب سے 2011 سے چلائے جانے والے 43 منصوبے اور یوتھ سینٹرز بند کر دیئے گئے ہیں۔ محض 16 کونسل اب بھی چلا رہی ہے لیکن ان کے مستقبل کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔
شہر بھر میں اس کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ عبدل 20 سال کی عمر سے کچھ زیادہ ایک دبلے ایتھلیٹک نوجوان ہیں جو ساری زندگی سپارک بروک کے علاقے میں رہے ہیں۔ وہ مالی طور پر مستحکم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن سکول میں درپیش آنے والے مسائل کی وجہ سے سڑکوں پر ہونے والے چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث رہ چکے ہیں۔ عبدل کو باکسنگ بہت پسند ہے تو جب ان کے ایک دوست نے انہیں باکسنگ کلب کا بتایا تو انہوں نے پھر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے والدین ایسا نہیں چاہتے تھے لیکن انہوں نے تربیت شروع کر دی۔ وہ اچھی باکسنگ کرتے تھے اور اسے سنجیدگی سے لینے لگے۔
یہ ایک مہنگا شوق تھا لیکن ان کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے کلب نے فیس معاف کر دی۔ مزید بچت کے لیے وہ بس کے کرائے کے پانچ پاونڈز بچاتے ہوئے چھ میل کا فاصلہ بھاگ کر طے کرتے تھے اور واپسی بھی اتنا ہی فاصلہ طے کرتے۔ وہ فلائی ویٹ کے ماہر تھے اور نیشنل باکسنگ کا مقابلہ جیت گئے۔ لیکن اس کے بعد وہ ایک شدید چوٹ میں ہاتھ زخمی کروا بیٹھے جس کی وجہ سے انہیں یہ کھیل چھوڑنا پڑا۔ اب وہ واپس اپنی پہلے والی زندگی میں جا چکے تھے اور اب انہیں کوئی خوف نہیں تھا۔
سات سو سے زائد بچے سکول کے بعد یہاں کلاسیں لیتے ہیں جو دو سے چار گھنٹے طویل ہوتی ہیں (باہو ٹرسٹ)
ان کے دوستوں نے ان کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر جیگوار لینڈ روور میں فورک لفٹ ڈرائیور کی نوکری چھوڑنی پڑی۔ اب وہ ایک سکیورٹی گاڑد کی نوکری کرتے ہیں جس میں کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ وہ اسے مناسب نہیں سمجھتے۔ لوگ انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ باکسنگ دوبارہ شروع کر دیں لیکن ان کے والد کے عارضہ قلب کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں زندگی میں کچھ کرنا ہو گا تاکہ زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا اور اس بارے میں اپنے خاندان سے بات کی۔ جلد ہی ایک جاننے والی لڑکی سے ان کی شادی کر دی گئی۔ اب وہ ایک بچے کے والد ہیں۔ وہ ایک مذہبی شخص بن چکے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ نئی نسل کی کس طرح سے مدد کی جا سکتی ہے۔ وہ ان افراد کی مدد کر رہے ہیں جو باکسنگ سیکھنا چاہتے ہیں لیکن مقامی سطح پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ مشق کر سکیں۔ عبدل کہتے ہیں کہ وہ میرے کمرے کے سامنے یا باغ میں مشق کیا کرتے تھے۔ یہ 11 افراد ہیں جن کی عمریں نو سے 29 سال کے درمیان ہیں ہمیں جہاں جگہ ملتی ہے ہم مشق کر لیتے ہیں۔
کامران نے فیصلہ کیا کہ مسجد کی جانب سے ان کے ساتھ رابطہ کیا جائے۔ کامران کا کہنا ہے کہ 'میں نے ان کے دروازے پر دستک دی اور ان سے پوچھا۔ وہ مسجد کے کردار کے حوالے سے شکوک کا شکار تھے کیونکہ ہم نے انہیں چھوڑ دیا تھا۔‘
عبدل جانتے تھے کہ شہر میں نائف کرائم یعنی چاقو سے وار کرنے کے واقعات سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔ ان کے مطابق اب یہ بہت عام اور معمولی سے بات ہے۔ کچھ بچے چاقو کو حفاظت کے لیے ساتھ رکھ رہے ہیں۔ واٹس ایپ پر بھی اس کی نمائش کی جاتی ہے۔ اس مسجد نے پولیس اور کرائم کمشنر کے ذریعہ قائم ایک سماجی قیادت کے تربیتی پروگرام، ایکٹیٹو سٹیزنز سے ایک چھوٹی گرانٹ کے لیے درخواست دی تھی، جس میں نوجوانوں کی زندگیوں سے وابستہ مختلف امور سے نمٹنے کے لیے ایک بااختیار مستقبل کے نام سے ایک تین ماہ کا پروگرام چلایا جاتا ہے۔ عبدل کی سربراہی میں 20 بچے تربیتی پروگرام کے لیے ہر جمعہ کی شام دو گھنٹے کے لیے باہو سینٹر میں آتے ہیں۔
چکمتی نئی عمارتوں کا کیا فائدہ جب ریونیو بجٹ کے بغیر آپ ان میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو کام پر نہیں لگا سکتے ہیں۔
درحقیقت ان کی اس پروگرام میں شرکت ہی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بچےمجھ پر یقین کرتے ہیں اور میں انہیں ہر جمعرات کو جمعے کو ہونے والے تربیتی سیشن پر آنے کے لیے موبائل میسج کر دیتا ہوں۔ان تربیتی جماعتوں سے ان کی زندگیوں پر موثر پڑا ہے۔ ایک بچے کےبڑے بھائی نے مجھے کال کرکے اپنے چھوٹے بھائی میں آنے والی تبدیلی کا شکریہ ادا کیا۔ اور میری ایک استاد سے بات بھی ہوئی جنہوں نے اپنے ایک شاگرد کے بارے میں بتایا کہ وہ کیسے ان کے پاس آیا اور انہیں بتایا کہ اب وہ پائلٹ بننا کیوں چاہتے ہیں۔ جب میں یہ باتیں سنتا ہوں تو مجھےبہت فخر محسوس ہوتا ہے۔
ٹرسٹ نے سنگین اور منظم جرائم اور کاؤنٹی لائنوں میں منشیات کی سمگلنگ، ان کے تجربے کے بارے میں ویڈیو تیار کرنے کے لیے اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے پروگرام کے واسطے پولیس سے ایک اور فنڈ حاصل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، شرکا کو علاقے کے دوسرے نوجوانوں کے لیے استاد بننے کی تربیت دینے کا پروگرام بھی ہو گا۔ شوکت، نوجوانوں کی چھریوں کے جرم سے متعلق آگاہی کے لیے ایک ای لرننگ ماڈیول تیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
یہ ٹرسٹ یقینی طور پر ایک مثال قائم کر رہا ہے کہ کس طرح کمیونٹی کے سٹیک ہولڈرز اپنی کمیونٹی کے انتہائی مشکل ترین نوجوانوں کے ساتھ تخیلاتی طور پر مشغول ہوسکتے ہیں۔ لیکن برطانیہ کے شہروں کو اس سے نمٹنے کے لیے اپنی پرانی ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ جس طرح بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کے بارے میں وزیر اعظم جانسن باقاعدگی سے بات کرتے ہیں۔اسی طرح ملکی بجٹ میں اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عوامی عہدیداروں کو محصولات کے بجٹ کی واپسی ہو تاکہ وہ روز مرہ کی زندگی کے لیے اہم خدمات کو فنڈ فراہم کرسکیں۔
برمنگھم سٹی کونسل کے نوجوان چیمپئن، کونسلر کیری جینکنز نے اس بات کو کچھ آگے بڑھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کنزرویٹوز پارٹی نے اپنے منشور میں نوجوانوں کے نئے مراکز بنانے اور دیگر ناکارہ عمارتوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے 500 ملین پاونڈز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اب تک تھوڑی بہت تفصیل مہیا کی گئی ہے۔ 500 ملین پاونڈز پر آمادگی تو ہے لیکن یہ ناکافی ہیں۔ نوجوانوں کی خدمات کے لیے برطانیہ بھر میں 2010 سے ایک ارب پاونڈز کی کمی آئی ہے۔ چکمتی نئی عمارتوں کا کیا فائدہ جب ریونیو بجٹ کے بغیر آپ ان میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو کام پر نہیں لگا سکتے ہیں۔ ہماری یوتھ سروس نے یقینا گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ ہمیں بچاؤ والی سروسز میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔‘
ویسٹ مڈلینڈ پولیس نے باضابطہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ ان مسائل سے نمٹنا ’ایک ایسے وقت میں بہت مشکل ہے جب پولیس کے بجٹ میں 25 فیصد کمی کی گئی ہے۔‘
جب میں کرک پٹرک سے ملا، جو ابھی دوسری مسجد سے جمعہ کی نماز کی بعد یہاں آئے ہیں۔ میں نے 10 منٹ تک پرتشدد جرم اور اس کے بارے میں ہماری جماعت کیا کر سکتی ہے کے بارے میں بات کی۔ چونکہ وہ چار سال پہلے محلے کی پولیسنگ میں چلے گئے تھے، اس لیے شراکت داری کا کام اس کا کلیدی موضوع رہا ہے۔ ’ہم خود اکیلے ان مسائل سے نمٹ نہیں سکتے ہیں۔‘
وہ ’تشدد کے خلاف ایمان‘ مہم اور نوجوانوں کے بااختیار بنانے کے پروگرام سے خوش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں برادریوں کے ساتھ کام کرنے کے ان نئے طریقوں کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ عقیدے پر مبنی نقطہ نظر ہمارے لیے نئے زاویوں کو کھولتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرک پیٹرک ایکٹو سٹیزنز فنڈ کے توسط سے نوجوانوں کی متبادل سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں لیکن تسلیم کرتے ہیں کہ ’اس سے صرف سٹارٹ اپ لاگت اور تربیتی اقدامات کو ہی فنڈ مل سکتا ہے۔ اس کو مکمل آمدنی کے تحت چلانا مشکل ہے۔‘
عبدل جانتے ہیں کہ علاقے کو خنجر کے جرائم، منشیات کے غلط استعمال اور تشدد جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا چاہیے۔ ’ایک تو، بچوں کے لیے تربیتی مراکز نہیں۔ جگہیں دستیاب ہونی چاہیے۔ دوسرا یہ کہ، زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے کورسز کروائے جائیں۔ تیسرا، نوجوانوں کے زیادہ مراکز کی ضرورت ہے۔ ہمارے لوگ نوجوانوں کے مراکز سے زیادہ جیلوں کا نام بتا سکتے ہیں۔‘
اس علاقے سے ان کی محبت گہری ہے۔ لیکن، انہوں نے اعتراف کیا: ’میں کبھی کبھی باہر نکلنے کے بارے میں سوچتا ہوں، خاص طور پر اپنے بیٹے کے لیے، شاید برمنگھم چھوڑ کر کسی چھوٹے قصبے جیسےکڈرمنسٹر چلا جاؤں۔‘ جب جواب میں میں نے کہا کہ کڈرمنسٹر بھی شاید رہنے کے لیے کچھ پر رونق جگہ نہیں ہے تو اس پر جواب ملا کہ’ میں اتنی لڑائیاں دیکھ چکا ہوں کہ ایک مردہ جگہ بھی میرے لیے پرسکون ہی ہوگی۔‘
جان بلوم فیلڈ ’اور سٹی: مائگرنٹس اینڈ دی میکنگ آف ماڈرن برمنگہم‘ کے مصنف ہیں۔
© The Independent