انگریزی زبان کے معروف ادیب جارج اورویل نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’کسی قوم کو برباد کرنے کا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ اس سے اس کی تاریخ کا شعور چھین لو، مستقبل کو وہی کنٹرول کرتا ہے جو ماضی کو کنٹرول کرتا ہے۔‘
پاکستان میں رائے عامہ اس معاملے میں تقسیم ہے کہ ہماری تاریخ کے اصل ہیرو دراصل کون ہیں؟
بائیں بازو کے لسانی نیشنلسٹ گروہ راجہ داھر، رنجیت سنگھ اور بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں تو دائیں بازو کے اسلام پسند طبقات چودہ صدیوں کی مسلم تاریخ کو اپنی تاریخ اور محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور محمود غزنوی کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔
روایتی طور پر ریاست کا بیانیہ بھی یہی ہے۔
رائے عامہ چاہے تقسیم ہو لیکن پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کرونا وبا کے لاک ڈاؤن کے دوران نوجوانوں کو امریکی مصنف فراس الخطیب کی کتاب لوسٹ اسلامک ہسٹری (یعنی گمشدہ اسلامی تاریخ) پڑھنے کا مشورہ دے کر اس معاملے میں اپنا وزن اسلامی تاریخ کے حق میں ڈال دیا ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم عثمانوی سلطنت کے عروج کے بارے میں ترکی میں تیار کردہ عسکری سیریل ارطغرل کی تعریف میں بھی نہ صرف رطب اللسان رہے ہیں بلکہ اس کی اردو ڈبنگ اور اسے سرکاری ٹی وی چینل پر نشر کرنے میں بھی خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعظم اپنے طویل سیاسی کیرئیر کے دوران مدینہ کی ریاست کا ماڈل کے طور پر بھی تذکرہ کرتے رہے ہیں۔
عمران خان کی تجویز کردہ کتاب کی خاص بات
مغرب میں مورخین اور محققین نے اسلامی تاریخ کے ہر باب پر درجنوں کتابیں لکھی ہیں اور ان کتابوں اورمقالوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پھر آخر آکسفورڈ کے تحصیل یافتہ عمران خان نے پاکستانی نوجوانوں کو اس کتاب کے پڑھنے کا مشورہ کیوں دیا؟ یہ جاننے کے لیے کتاب پڑھنا ضروری ہے۔
کتاب میں چودہ صدیوں کی مسلم تاریخ کو 12 ابواب اور ایک سو 67 صفحات میں اختصار کے ساتھ عام فہم زبان میں سمو دیا گیا ہے۔
اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کی عسکری فتوحات کے علاوہ علمی اور فکری ارتقا پر بھی بحث کی گئی ہے۔
مصنف نے مشرق وسطیٰ اور مسلم اقتدار والے خطوں کے علاوہ ان خطوں میں مسلم موجودگی کا احاطہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے جہاں مسلمانوں نے فوج کشی نہیں کی۔
اس کے علاوہ افریقہ سے برآمد کردہ مسلمان غلام جنھیں 16ویں صدی سے 19ویں صدی تک لاطینی اور شمالی امریکہ میں لا کر فروخت کیا گیا، ان کی تاریخ کا احاطہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔
بندشوں (لاک ڈاؤن) کےموسم میں ہمارے نوجوانوں کےمطالعےکیلئےایک لاجواب انتخاب۔ یہ کتاب ان تاریخی عوامل کا نہایت خوبصورت مگر مختصر مجموعہ ہے جنہوں نے تمدنِ اسلامی کو اپنے دور کی عظیم ترین تہذیب کی شکل دی اوران عوامل سےپردہ اٹھاتی ہے جو اسکے زوال کی وجہ بنے۔
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) May 1, 2020
pic.twitter.com/XdTSLFmIjj
تاہم جو لوگ اس کتاب میں تفصیل کی توقع کررہے ہیں، انہیں مایوسی ہوگی لیکن جو لوگ مغرب میں مقیم مغربی تعلیم سے تحصیل یافتہ مصنف کی تحریر کردہ تاریخ ایک نئے زاویہ سے پڑھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ ایک اچھی تحریر ہے۔
کتاب میں عالمی معیار کے مطابق تاریخی واقعات کے حوالے موجود نہیں لیکن ان کتب کی فہرست موجود ہیں، جن سے استفادہ کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخر میں مسلم تاریخ کے مختلف ابواب سے متعلق 31 تصاویرموجود ہیں جو قاری کی اسلامی تاریخ سے دلچسپی میں اضافہ کرتی ہیں۔
لیکن اس کتاب کو لے کر کچھ متنازعہ باتیں بھی کی جا رہی ہیں- مثلاً یہ کہ اس میں مسلمانوں کے ایک فرقے کے بیانیہ کو ترجیح دی گئی ہے۔
مصنف کو اس موضوع پر کتاب لکھنے کا خیال کیوں آیا؟ یہ کتاب کس عمر کے قاری کو نظر میں رکھ کر لکھی گئی ہے؟ کیا واقعی یہ کتاب مسلمانوں کے ایک فرقے کے بیانیہ کو ترجیح دیتی ہے؟
ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے شکاگو میں مقیم مصنف فراس الخطیب سے رابطہ کیا-
فراس الخطیب کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے اس مشورے پر انہیں خوشگوار حیرت ہوئی ہے۔
’یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہے کہ انہوں نے میری کتاب پڑھی اور اسے تجویز کیا۔‘
فراس کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیان کے بعد ایمیزون پر کتاب کی فروخت میں اتنی تیزی آئی کہ تمام پرنٹ کاپیاں فوری فروخت ہو گئیں۔
تاہم انٹرنیٹ پر موجود کتاب کی پی ڈی ایف بغیر اس کی قیمت ادا کیے پڑھنے والوں کے لیے ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ’انھوں نے حالیہ دنوں میں تفریح پر کتنا خرچ کیا ہے؟ کیا ان کے نزدیک یہ (تفریح) اس کتاب کے مواد سے زیادہ قیمتی ہے؟ یہ میری سالوں کی محنت ہے جسے اس سرقے / piracy کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے۔‘
کتاب کا نواں باب اس حوالے سے اہم ہے کہ اس میں ان جغرافیائی خطوں کی اسلامی تاریخ کا بیان ہے، جنھیں مسلم مورخین عموماً اس لیے نظر انداز کرتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کی حکومتیں قائم نہیں رہیں یا وہ مرکزی دھارے کا حصہ نہیں رہے۔
مثلاً مغربی افریقہ اور مشرقی افریقہ کے ممالک، جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک، چینی مسلمان۔ اس کے علاوہ اس باب میں افریقہ سے لاکر لاطینی امریکہ اور شمالی افریقہ میں فروخت کیے جانے والے مسلم غلاموں کا تذکرہ بھی شامل ہے۔
کتاب میں جگہ جگہ مسلم تاریخ سے متعلق منفرد تاریخی حقائق حاشیوں کی صورت میں درج ہیں۔
مصنف فراس سمجھتے ہیں کہ مغربی افریقہ، وسط ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تاریخ پر مزید کام کی ضرورت ہے کیونکہ اسے عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔
مصنف کے بارے میں
مصنف فراس الخطیب امریکی ریاست کیلیفورنیا میں فلسطینی والدین کے گھر پیدا ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بی اے کی تعلیم کے دوران اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا۔ آج کل وہ عثمانوی سلطنت کی فکری (انٹلیکچوئل ) تاریخ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دارالقاسم نامی ایک ادارے میں اسلامی تاریخ پڑھا رہے ہیں۔
مصنف کو کتاب لکھنے کا خیال کیوں آیا؟
ان کا کہنا ہے کہ بی اے کے بعد وہ پانچ سال تک ایک ہائی سکول میں اسلامی تاریخ پڑھاتے رہے۔
یاد رہے کہ امریکی ہائی سکول میں اسلامی تاریخ ایک اختیاری مضمون ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے طلبہ میں بڑی تعداد میں مسلم ممالک سے آئے والدین کے بچے ہوتے تھے جن میں فرسٹ جنریشن (امیگرنٹس کے وہ بچے جوامریکا میں پیدا ہوں فرسٹ جنریشن کہلاتے ہیں) امریکی ہوتے تھے۔ ان کے طلبہ کے والدین کا تعلق متنوع جغرافیائی خطوں سے تھا جن میں پاکستان، نائیجریا، فلسطین، شام، امریکہ اور دیگر ممالک شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق یہ بچے اسلامی تاریخ جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن امریکی نصاب ان کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا تھا۔
’میں نے محسوس کیا کہ امریکی بچوں کو جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں قبل مسیح کی قدیم یونانی اور رومی تہذیب پر بہت زیادہ زور ہے۔ جس کے بعد 14ویں صدی کی نشاط ثانیہ اور 17ویں صدی کی روشن خیالی کی تحریکوں کو پڑھایا جاتا ہے۔
امریکی نصاب میں شامل تاریخ سرسری طور پر سلطنت عثمانیہ اور پیغمبر اسلام کی زندگی کے مختصر تذکرے پر مبنی ہوتی تھی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ طلبہ میں مزید جاننے کی خواہش پیدا ہوتی۔ زیر نظر کتاب اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لکھی گئی۔
کتاب کس قاری کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے؟
لیکن فراس نے دیباچے میں واضح کیا ہے کہ ہائی سکول کے طلبہ کے لیے لکھی جانے والی یہ کتاب ایک طرح کا ’جمپنگ پیڈ‘ (یعنی وہ مقام جہاں سے کسی کام کا آغاز کیا جاتا ہے) ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسلامی تاریخ تفصیل سے پڑھنے کے خواہش مند ببلیوگرافی یعنی فہرست کتب کی مدد سے مزید تفتیش کا آغاز کر سکتے ہیں۔
کتاب کا مشورہ عمران خان کے سیاسی نظریے کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟
کتاب پڑھنے کا مشورہ عمران خان کی شخصیت اور سیاسی نظریے کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مصنف کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ مسلم تہذیب کے ارتقا کا شعور وزیراعظم کے لیے ایک ماڈرن لیڈر کے طور پر اہم ہے-‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کوئی تہذیب برقرار نہیں رہ سکتی اگر اس کے ماضی پر فخر کرنے والے باقی نہ رہیں- اگر آپ مسلم تاریخ پر نظر ڈالیں تو سب سے زیادہ کامیاب لیڈر وہ ہیں جنہوں نے علمی سرگرمیوں کو اہمیت دی۔‘
تنازعہ
جہاں تک بی بی سی اردو کے تبصرہ نگار کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ کتاب میں شیعہ مسلمانوں کی ریاستوں کا تذکرہ منگولوں اور صلیبیوں کے ساتھ کیا گیا ہے جس سے منفی تاثر ابھر رہا ہے تو یہ اس لیے بے بنیاد ہے کہ ساتویں باب Rebirth میں جہاں منگولوں کے ساتھ اسماعیلی اور فاطمید سلطنت کا تذکرہ موجود ہے وہاں صلاح الدین ایوبی اور مسلمانوں کے ہاتھوں یروشلم کی فتح کا بھی تذکرہ ہے۔
پھر 10ویں باب میں ایران کی شیعہ صفوی سلطنت کا تذکرہ عثمانوی اور مغل سلطنت کے ساتھ خاصی تفصیل سے کیا گیا ہے اور صفویوں کا شمار اس دور کی تین اہم ترین سلطنتوں میں کیا گیا ہے جہاں مسلم طاقت نے دوبارہ جنم لیا۔ اگر مذکورہ تبصرہ نگار کے مطابق مصنف اہل تشیع سے تعصب برتتے تو ایسا نہ ہوتا۔
اس سوال پر کہ کیا یہ صحیح ہے کہ اس کتاب میں مسلمانوں کے دو میں سے ایک فرقے کے بیانیہ کو فوقیت دی گئی ہے، فراس الخطیب خود کہتے کہتے ہیں کہ ’اس کتاب کو لکھنے کے دوران میں نے پوری کوشش کی کہ جو کچھ میں لکھوں اس میں حقائق پوری طرح درست ہوں۔ یہ ایک مؤرخ کا کام ہے کہ وہ تاریخی شواہد اکٹھا کرے، ان کی تشریح کرے اور انہیں اپنے الفاظ میں بیان کرے۔ جو بیانیہ میں نے لوسٹ اسلامک ہسٹری میں بیان کیا وہ غیر معذرت خواہانہ طور پر مسلمانوں کے مرکزی دھارے (میںسٹریم ) کی نمائندگی کرتا ہے۔‘
’شیعہ اور مسلمانوں کے دیگر فرقوں مثلاً معتزلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بلا شبہ میں نے تاریخی دیانت کے اصولوں کو سامنے رکھا ہے۔ اگر کسی کو میرے بیانیہ پر اعتراض ہے تو یہ محض انداز تحریر سے اختلاف کا مسئلہ ہے جو ناگزیر ہے۔ تاریخ ہو یا کوئی دوسرا مضمون آپ اسے اس طرح نہیں لکھ سکتے کہ ہر فرد اس سے خوش ہو جائے۔‘
فراس کا یہ بھی کہنا ہےکہ ’انہیں امید ہے کہ جن لوگوں کو یہ کتاب نہ بھی پسند آئی وہ بھی اس بات کی تعریف ضرور کریں گے کہ یہ صحیح تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔‘