اپنی موت سے قبل القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن پاکستان میں اونچی دیواروں والے کمپاؤنڈ میں ہزاروں میل دور اپنے بیٹے کے لیے پریشان رہتے تھے۔
وہ حمزہ بن لادن کو ایک کے بعد ایک خط تحریر کر رہے تھے جن میں اسامہ اُس وقت اپنے 23 سالہ بیٹے کو بتاتے تھے کہ مطالعہ کے لیے ان کو کون سے نصاب کا انتخاب کرنا چاہیے، ان میں کون کون سی خوبیاں ہونی چاہییں اور ان کو اپنی حفاظت کے پیشِ نظر کون سے اقدامات اٹھانے چاہییں۔
ایک خط میں اسامہ نے حمزہ کو، جہنوں نے 13 برس کی عمر میں آخری بار اپنے والد کو دیکھا تھا، گھر نہ چھوڑنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔
ایک اور خط میں القاعدہ کے سربراہ نے حمزہ کو پاکستان میں اپنے ٹھکانے کے بارے میں بتاتے ہوئے انہیں وہاں ابرآلود موسم میں پہنچنے کی ہدایت کی تھی تاکہ ڈرون ان کی موجودگی کا پتہ نہ لگا سکیں۔
اسامہ انہیں سکیورٹی کے حوالے سے گاہے بگاہے پیچیدہ پرٹوکول اپنانے کی ہدایت دیتے رہتے تھے، جس میں سفر کے دوران کسی ٹنل میں گاڑی کی تبدیلی جیسے اقدامات بھی شامل تھے تاکہ فضا سے کی جانے والی نگرانی کو جھانسہ دیا جا سکے۔
یہ ایک باپ کی اپنے بیٹے کے لیے روایتی محبت یا پرواہ نہیں تھی بلکہ یہ دنیا کے سب سے خطرناک دہشت گرد کی جانشینی کا معاملہ تھا۔
ماہرین کا خیال ہے القاعدہ 2010 سے ہی تنظیم کی قیادت کے لیے حمزہ کی خفیہ تربیت کر رہی تھی، تاہم یہ کوشش کبھی کامیاب نہ ہو سکی۔
امریکہ کے تین عہدے داروں کے مطابق حمزہ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دو سالوں کے دوران ہلاک ہو گئے تھے، تاہم اس حوالے سے کئی سوالات جواب طلب ہیں کہ وہ کب، کہاں اور کیسے ہلاک ہوئے اور سب سے اہم یہ کہ ان کو کس نے ہلاک کیا؟
اگر نوجوان لادن کی ہلاکت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ القاعدہ کے لیے یقیناً ایک بری خبر ہے جو پہلے ہی امریکی حملوں اور حریف تنظیم داعش کے پھیلاؤ کے باعث کمزور ہو چکی ہے۔
اس دہشت گرد نیٹ ورک کی کمزور اور عمر رسیدہ قیادت پرانے دقیانوسی طریقوں اور گھنٹوں طویل تقاریر کے ذریعے نئی نسل کو بھرتی کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جبکہ اس کی حریف تنظیم داعش جدید ڈرون اور گو پرو کیمروں کی مدد سے بنائی گئی ویڈیوز سے شدت پسندوں کو باآسانی اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
30 سالہ حمزہ انتہائی دباؤ کی شکار تنظیم کے بہت سے مسائل حل کر سکتے تھے کیوں کہ وہ القاعدہ کے موجودہ رہنما ایمن الظواہری سے لگ بھگ 40 سال چھوٹے تھے۔
چونکہ دہشت گردی سے جڑا سب سے مشہور نام ’بن لادن‘ ان کے نام کا حصہ تھا لہذا حمزہ اس عقیدت کو راغب کرنے کے قابل تھے جو دنیا بھر کے جہادی ان کے والد کے لیے محسوس کرتے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر القاعدہ کو امید تھی کہ حمزہ تنظیم کو متحد کرنے کے ساتھ ساتھ داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے ان جہادیوں کو واپس لا سکتے تھے جو شام اور عراق میں اپنے علاقے کھو چکے ہیں۔
ایف بی آئی کے سابق ایجنٹ اور انسداد دہشت گردی کے ماہر علی سوفان کے مطابق القاعدہ کے لیے حمزہ کی موت کا اعلان نہ کرنا غیرمعمولی ہے۔ ’اگر یہ سچ ہے کہ حمزہ ہلاک ہو چکے ہیں تو القاعدہ اپنا مستقبل کھو بیٹھی ہے کیونکہ وہ القاعدہ کا مستقبل تھے۔‘
حمزہ کی زندگی پر کتاب لکھنے والے علی سوفان کا مزید کہنا تھا ’وہ تنظیم کی سربراہی کرنے کے لیے تیار تھے اور یہ بات ان کے بیانات سے بالکل واضح تھی کہ ان کا مقصد اپنے والد کے پیغام کو واپس لانا تھا۔‘
امریکی عہدے داروں نے بتایا حمزہ کی ہلاکت کے لیے آپریشن میں امریکی حکومت نے کردار ادا کیا تھا لیکن انہوں نے اس حوالے سے مزید معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔
بدھ کو اس آپریشن کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ جہاں تک حمزہ کے ٹھکانے کا تعلق ہے تو اس بارے میں ممکنہ طور پر صرف مبہم اطلاعات تھیں۔
پاکستانی سرحد کے قریب مشرقی افغانستان کے ایک پہاڑی ضلع وایگل کے گورنر محمد اسماعیل کے مطابق: ’ہماری انٹلیجنس اطلاعات سے معلوم ہوا کہ یہاں حمزہ نامی شخص موجود تھے لیکن ہم اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ پاکستانی شہری تھے اور کچھ لوگ انہیں عرب سمجھ رہے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسامہ کی ہلاکت کے بعد ان کے کمپاؤنڈ سے ملنے والے خطوط اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حمزہ 2009 اور 2010 کے درمیان ایران میں نظربند تھے۔
دوسری جانب، ایک ایرانی عہدے دار نے بدھ کو کہا کہ ان کے خیال میں حمزہ دو بیویوں اور ایک بہن کے ساتھ تہران کے ایک پُرتعش ویلا میں رہ رہے تھے جبکہ ایک اور عہدے دار نے بتایا حمزہ ایران آتے جاتے رہے لیکن وہ کبھی یہاں مستقل طور پر قیام پذیر نہیں رہے۔
حمزہ اُس وقت محض 13 سال کے تھے جب ان کے والد انہیں اور ان کے بھائیوں کو افغانستان کے ایک پہاڑ پر واقع بیس پر ملے اور آخری بار انہیں الوداع کہا۔
یہ 2001 کی بات ہے جب اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے پائلٹس نے ہائی جیک کیے گئے طیارے نیویارک کی پہچان ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی فوج کے مرکز پینٹاگون سے ٹکرا دیے تھے جبکہ ایک اغوا شدہ طیارہ واشنگٹن جاتے ہوئے تباہ ہو گیا۔
اسامہ جانتے تھے امریکی تاریخ کے ان بدترین دہشت گرد حملوں کے بعد انتقامی کارروائی زیادہ دور نہیں، اسی لیے انہوں نے اپنے بیٹوں کو رخصت کرنے کا انتظام کر لیا تھا۔ اسامہ نے اپنے بیٹوں کو رخصت کرتے وقت ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک تسبیح سونپتے ہوئے کہا یہ انہیں ایمان میں تقویت حاصل کرنے کی یاد دلاتی رہے گئی۔
حمزہ نے کئی سالوں بعد ’میرے پیارے والد‘ کے عنوان سے اسامہ کو ایک خط ارسال کیا جس میں انہوں نے بچھڑنے کے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا: ’آپ نے ہمیں الوداع کردیا اور ہم وہاں سے چلے گئے لیکن یہ ایسے ہی تھا جیسے ہم نے اپنے جگر کو جسم سے نکال کر وہیں چھوڑ دیا ہو۔‘
اپنے بیٹوں کو دیے گئے ایک جیسے تحائف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سینئر بن لادن کو تمام اولاد سے یکساں پیار تھا لیکن ان کے اہل خانہ سے سنی گئی کہانیوں سے یہ بات واضح ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا کہ اسامہ کی سب سے پسندیدہ اہلیہ خیریہ صابر کے بتن سے جنم لینے والے صاحبزادے حمزہ کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا۔
جب حمزہ دو سال کے تھے تو ان کے والد اپنے خاندان کے ہمراہ افغانستان سے سوڈان منتقل ہو گئے، جہاں وہ پانچ برس اس وقت تک قیام پذیر رہے جب تک عالمی دباؤ پر سوڈانی حکومت نے انہیں اپنے ملک سے نکال نہیں دیا۔
اسامہ اور ان کے پیروکار افغانستان واپس آئے جہاں انہوں نے طالبان سے پناہ مانگی اور جھونپڑیوں کے ایک کمپلیکس میں رہائش اختیار کی، جن میں بیت خلا، بجلی اور یہاں تک کہ دروازوں کی سہولت بھی موجود نہیں تھی۔
علی سوفان کے مطابق نائن الیون حملوں کے بعد ایران میں پناہ لینے سے قبل حمزہ پہاڑی راستوں سے پاکستان داخل ہوئے، ایران پہنچنے کے بعد وہ ابتدا میں ایک محفوظ مکان میں رہتے تھے بالآخر حمزہ اور ان کی والدہ کو ایرانی حکام نے گرفتار کیا اور ایک فوجی کیمپ میں قید کردیا۔
حمزہ جیسے جیسے بڑے ہو رہے تھے وہ اسامہ کے بیٹے کی حیثیت سے تنظیم میں کوئی خصوصی برتاؤ کے طلب گار نہیں تھے۔
2010 میں اسامہ کے ایک معاون سے پکڑے گئے خط کے مطابق ’وہ کسی خاص شخصیت کے بیٹے ہونے کی وجہ سے خصوصی برتاؤ حاصل کرنے کے خلاف تھے، میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں ان کے لیے کچھ محفوظ تربیت کا منصوبہ بناؤں گا، بندوقوں اور مختلف ہتھیاروں سے۔‘
ایبٹ آباد کمپاؤنڈ سے ملنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حمزہ نے القاعدہ کے ایک سینئر رہنما عبد اللہ احمد عبد اللہ کی بیٹی سے شادی کی تھی۔
فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے سینئر رکن تھامس جوسلین نے، جو برسوں سے القاعدہ کا بغور مطالعہ کرتے رہے ہیں، کہا اس تنظیم میں حمزہ کا کردار مبہم تھا۔
انہوں نے کہا: ’ہمیں حقیقت میں نہیں معلوم کہ حمزہ کا القاعدہ میں اصل کردار کیا تھا۔ ہم جانتے ہیں القاعدہ نوجوان نسل کی آواز کی حیثیت سے حمزہ کی مارکیٹنگ کررہی تھی۔ ان کی طرف سے جاری آڈیو پیغامات میں یہ پیغام واضح تھا۔‘
تھامس نے القاعدہ کے بانی سربراہ کی ذاتی فائلوں میں موجود شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا حمزہ نے اعلیٰ تربیت حاصل کی تھی لیکن اسامہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے کو فوجی کردار دیا جائے۔
دوسری جانب، حمزہ کے آڈیو پیغامات اور اپنے والد کے نام خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ وہ القاعدہ میں سرگرم کردار ادا کرنے کے خواہش مند تھے۔
انہوں نے 2009 میں اسامہ کو بھیجے گئے ایک خط میں لکھا تھا: ’میرے پیارے ابو، جب میں آپ سے بچھڑا تھا تب میں ایک بچہ تھا لیکن اب میں بڑا ہوچکا ہوں اور مردانہ جوہر دکھانے کو بے قرار ہوں۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’لیکن جس چیز نے مجھے واقعتاً اداس کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ جب مجاہدین کے دستے روانہ ہو رہے تھے تو میں ان کی صفوں میں شامل نہیں تھا۔‘
2017 میں امریکہ نے سرکاری طور پر حمزہ کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔ سائٹ انٹلیجنس گروپ کے مطابق اسی سال القاعدہ کے ذریعے شائع کردہ ایک خط میں حمزہ نے کہا تھا کہ ان کا 12 سالہ بیٹا مارا گیا ہے لیکن تب بھی حالات غیر واضح تھے۔
عراقی انٹیلیجنس کے تین عہدے داروں نے بتایا کہ رواں سال حمزہ کو ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔
فروری میں امریکی محکمہ خارجہ نے حمزہ کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کے لیے 10 لاکھ ڈالرز انعام کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ کے اس اقدام کے بعد سعودی عرب نے حمزہ کی شہریت منسوخ کردی تھی۔ امریکی عہدے داروں کے مطابق اس وقت تک وہ پہلے ہی ہلاک ہو چکے تھے۔
© The Independent