جب انڈیا اور پاکستان میں ٹی وی کا دور دورہ نہیں تھا، تب لوگ وقت گزاری کے لیے جاسوسی، رومانی اور طلسماتی کتابیں پڑھتے تھے۔
ادبی دنیا سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ 1977 تک بڑے بڑے پبلشرز تھوک کے حساب سے ناول اور فکشن چھاپتے تھے۔ اردو اور ہندی زبان کے مصنفین الگ الگ ناموں سے اچھے پیسوں کے لیے موٹی موٹی کتابیں لکھا کرتے تھے۔
ان ہی میں ایک نام الہٰ آباد کے مجاور حسین کا بھی شامل ہے، جنہوں نے سیکڑوں کی تعداد میں رومانی، جاسوسی، اور طلسماتی کہانیاں لکھیں۔ وہ ابن سعید کے نام سے بھی لکھتے تھے۔ سیاسی حالات کی وجہ سے جب ابن صفی کے مسودے انڈیا آنا بند ہو گئے تب انہوں نے ابن صفی کی طرز پر کئی کہانیاں تحریر کیں۔
وہ خود بتاتے ہیں کہ انہوں نے تقریباً 1065 ناول اور کہانیاں لکھیں۔ مجاور حسین آج بھی اپنے عہد کی کہانیاں بڑی دلچسپی سے سناتے ہیں۔
مجاور حسین ماضی کو ’یادِ ماضی عذاب ہے‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’میں نے حالات کی مجبوری کی وجہ سے کچھ ایسی کتابیں لکھی ہیں جنہیں میں باعثِ فخر نہیں سمجھتا۔ بے تحاشہ لکھتا رہا ہوں۔
’یسی کتابوں کی تعداد اردو اور ہندی میں ملا کر 1065 ہے۔ لیکن جو کتابیں میں اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتا ہوں، وہ میرا تحقیقی مقالہ ہے، اردو شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر، اور میرے مذہبی مضامین کا مجموعہ۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کن لوگوں کے لیے لکھتے تھے اور کیوں؟ تو انہوں نے ایک شعر کا حوالہ دے کر کہا:
’شکم کی آگ لیے پھرتی ہے شہر بہ شہر۔‘
اور مزید وضاحت کی، ’میں نے بہت گھوسٹ رائٹنگ کی ہے اور بڑے بڑے ناموں کے لیے۔‘
داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
’جن لوگوں کے نام سے میں نے لکھا، ان کی تعداد 10 سے 12 کے قریب ہے۔ ان میں کچھ نام غیر مسلم بھی ہیں۔ جو ہندی میں میں نے لکھے اور جو ابھی حیات ہیں، اُن کے نام بتا دیتا ہوں، جو میرے شاگرد بھی ہیں۔‘
جناردن پرساد جیسوال کا ہے، شمبھو پرساد جین کا ہے، اور اشوک بی اے کا۔ تیسرا نام نقاب پوش بیدی کا تھا۔ میں نے قریب قریب 30،32 ناول ان کے نام سے لکھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ بار بار گھوسٹ رائٹنگ کے عمل پر اپنی تکلیف ظاہر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں، ’یہ پورا قصہ میرے لیے تکلیف دہ ہو جاتا ہے کیونکہ مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب میں گھر میں داخل ہوتا تھا اور میری اہلیہ یہ بتاتی تھیں کہ پرسوں شام تک کھانے پینے کا سامان چلے گا۔ اور میں فوراً قلم لے کر بیٹھ جاتا تھا، لکھتا تھا اور پھر مسودہ ناشر صاحب کو تھما دیتا تھا۔ اُن سے پیسے لیتا تھا۔ ایک وقت میں 30 روپے ملتے تھے، پھر 60، پھر سو، اور آخر میں ڈھائی ہزار روپے تک۔ انہی پیسوں سے گھر کا خرچہ چلتا تھا اور میں بےتکان لکھتا جاتا تھا۔
’اسی نے مجھے مجبور کیا۔ اُس زمانے کی یاد بھی میرے لیے تکلیف دہ ہے اور یہ کام بھی تکلیف دہ تھا اور اُس کے بعد پھر میں نے قلم رکھ دیا۔‘
مجاور حسین نے مشہور نکہت پبلیکیشنز کے عباس حسینی کے ساتھ بھی کام کیا، جہاں ابن صفی کی کتابیں شائع ہوتی تھیں۔
وہ بتاتے ہیں، ’1958 میں میں نے ایم اے کیا اردو میں، آج بھی میرا ریکارڈ ہے۔ مجھ سے زیادہ نمبر اب تک کسی کو نہیں ملے اور مجھے دو گولڈ میڈل، ایک سلور میڈل، وِکٹوريا گولڈ میڈل اور ایک سلور میڈل ملا، ایک میڈل اور ملا تھا، مجھے یاد نہیں رہ گیا، مگر یہ سب ملا۔ پورا ادارہ دو ہی آدمیوں پر چلتا تھا، کام کرنے والے تو بہت تھے۔ پیسہ یا تو میری کتابوں کی وجہ سے آتا تھا یا ابنِ صفی صاحب کی۔ تو میں اُن کی علالت کی وجہ سے، جب میں نے دیکھا کہ اب یہ بند ہونے والا ہے، تب میں نے انہیں کے نام سے لکھنا شروع کر دیا۔
’تو اردو میں میں نے اُن کے نام سے بہت تھوڑے سے ناول لکھے تھے۔ وہ بھی آدھا تیتر آدھا بٹیر یعنی کچھ اُن کا تھا, کچھ میں نے ملا دیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے اردو سے زیادہ ہندی میں ابن صفی کی طرز پر لکھا۔ وہ کہتے ہیں، ’ہندی میں میں نے بہت لکھا۔ پہلا ناول جو ان کے نام سے لکھا، 'بیرسٹر کی بیوی' تھا۔ لیکن یہ سب آج بیان کرتے ہوئے بھی مجھے اچھا نہیں لگتا اور اُس وقت بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ میں اسے اپنے لیے باعثِ افتخار نہیں سمجھتا تھا۔