پاکستان میں مقیم فرانسیسی نژاد مصنف ژولیاں کولومو کے ساتھ ساتھ پاکستانی مصنفہ اور مترجم ثنا آر چوہدری کے لیے معروف امریکی ادبی جریدے ’دی پیرس ریویو‘ نے سوزانا ہنویل انعام کا اعلان کیا ہے۔
1953 میں اپنے قیام کے بعد سے دی پیرس ریویو امریکہ کا معروف ادبی سہ ماہی رسالہ ہے، جو بہترین نثر، انٹرویوز، شاعری اور بصری آرٹ کی اشاعت کے لیے وقف ہے۔
دی پیرس ریویو کی ویب سائٹ کے مطابق 2023 میں قائم کیا گیا، سوزانا ہنویل پرائز میگزین کی مرحوم پبلشر کی یاد میں دیا جاتا ہے، جو 2019 میں انتقال کر گئی تھیں۔ یہ پرائز ریویو کے ذریعے گذشتہ برس شائع کردہ نثر یا شاعری کی شاندار تحریروں کو تسلیم کرتا ہے۔
ژولیاں کولومو فرانس میں پیدا ہونے والے ناول نگار ہیں، جو پاکستان میں 2003 سے رہائش پذیر ہیں۔ وہ فرانسیسی اور اردو میں لکھتے اور بول بھی سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے انڈیا میں اپنے آٹھ سالہ قیام کے دوران اردو/ہندی سیکھی۔
وہ اردو میں پانچ ناول اور مختصر کہانیوں کے مجموعے شائع کر چکے ہیں۔
وہ پاکستان میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ساتھ وابستہ تھے اور اسی دوران انہوں نے شورش زدہ علاقوں میں بطور مترجم کام کیا۔
ژولیاں کی پہلی اردو مختصر کہانی ’زلزلہ‘ 2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد منظر عام پر آئی۔ یہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لڑکیوں کے ایک سکول اور اسلام آباد میں ایک اپارٹمنٹ ٹاور پر مبنی تھی۔
ژولیاں کی کہانی ’لاہور میں دیریدا‘ بھی پیرس ریویو کے 247 نمبر شمارے میں شائع ہوئی تھی۔
’لاہور میں دیریدا‘ کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ ثنا آر چوہدری نے کیا، جنہوں نے ژولیاں کی کہانی ’میرے پیارے استاد‘ کے ترجمے کے لیے 2022 کا جواد میموریل انعام برائے اردو-انگریزی ترجمہ حاصل کیا۔
ڈاکٹر ثنا آر چوہدری ایک مصنفہ، ایوارڈ یافتہ مترجم اور ماہر تعلیم ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی اور فلوریڈا، امریکہ سے ماسٹرز اور یارک، انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ثنا اس وقت اپنی آنے والی کتاب کو کلیمسن یونیورسٹی پریس سے ایڈٹ کروا رہی ہیں۔
وہ 2022 میں شروع کیے گئے پاکستانی ادب کے معروف ادارے ادبستان کی بانی بھی ہیں، جو دنیا بھر کے اساتذہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ انہیں امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور پاکستان کی معروف یونیورسٹیوں سے انگلش میجرز کی ایک شاندار ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرانسیسی اردو مصنف ژولیاں کے ناولٹ ’کامران علی خان قوال‘ کا ان کا پہلا ترجمہ ایک میوزیکل لیجنڈ کی زندگی پر مبنی ہے، اور ’دی ایلف ریویو‘ میں شائع ہوا تھا۔
’لاہور میں دیریدا‘ کے بارے میں قارئین اس عظیم فلسفی کی آٹو فکشن جھلک دیکھنے کی امید میں اس تحریر کا رخ کر سکتے ہیں جنہیں یہ کہانی مایوس نہیں کرے گی۔ لیکن فرانسیسی استاد کے لاہور چھوڑنے کے کافی عرصے بعد دو نوجوانوں کی کہانی باقی رہے گی جنہوں نے پرائمری سے یونیورسٹی ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔
ان میں سے ایک، شاہد ہے جو میونسپل لائبریری میں بند ہونے تک رہتا ہے لیکن جسے توہین مذہب کے الزام میں یونیورسٹی سے نکال دیا جاتا ہے، تو وہ پیرس بھاگ جاتا ہے جہاں وہ ڈیریڈا کے لیکچرز میں شرکت کرتا ہے۔
دوسرا کردار زیادہ روایتی راستہ اختیار کرتا ہے، ایک مقامی ہائی سکول میں پڑھانے کے لیے گھر لوٹ آتا ہے۔ شاہد کے والد، جو ایک جاگیردار ہیں اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے صرف ایک کتاب قرآن پڑھی ہے، اپنے بیٹے کو شیخوپورہ کے ایک کالج میں ایک پوسٹ دلوا کر گھر واپس لے آتے ہیں۔
دونوں دوست ایک ہوٹل میں دوبارہ ملتے ہیں جہاں مقامی ادیب چائے پیتے، گپ شپ کرتے اور شکایت کرتے ہیں۔ سمپسن لکھتے ہیں کہ ژولیاں نے بڑی مہارت سے دانشورانہ زندگی اور ایمان کی تلاش کو پیش کیا ہے۔
انہیں یہ ایوارڈ یکم اپریل 2025 کو نیویارک میں ایک تقریب میں دیا جائے گا۔