’جس ناول میں عورت نہ ہو وہ نامکمل ہوتا ہے:‘ لاہور میں ادب میلہ

الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں تین روزہ ادبی میلے میں خواتین مقررین کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشروں میں خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے، انہیں ایک فرد سمجھنے کی بجائے کمزور اور نازک عورت ہی سمجھا جاتا ہے۔

الحمرا آرٹس سینٹر میں تین روزہ ادبی میلے میں ’اردو ادب میں عورت کا عکس‘ کے عنوان سے سیشن رکھا گیا۔ جس میں ملک کی معروف شاعرہ اور ادیب خواتین مقررین نے عورتوں کے حقوق سے متعلق مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا۔

مقررین کی رائے میں ہر کہانی اور افسانے میں عورت کا تذکرہ ہی رنگ بھرتا ہے۔ معاشروں میں خواتین ہر راشتے اور کردار میں کسی نہ کسی صورت میں مرد کے لیے لازمی ہیں۔

لیکن انہیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے، انہیں ایک فرد سمجھنے کی بجائے کمزور اور نازک عورت ہی سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان کی معروف افسانہ اور ناول نگار نیلم احمد بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جب عورت تحریر میں ہوگی تو ہی اس میں رس ہوگا۔ جس ناول میں عورت نہ ہو وہ نامکمل ہوتا ہے کیونکہ عورت سے ہی تو زندگی ہے وہی تو زندگی مین رنگ بھرتی ہے وہی تو کہانی ہوتی ہے۔ لیکن کس طرح کی عورت ہے وہ ایک اور بات ہے۔

’عشق کی کہانیوں میں بھی عورت کا مرکزی کردار ہے کیونکہ عشق کرتی ہی عورت ہے مرد صرف رسیور ہے۔ قدرتی طور پر عورت کو اللہ نے پیدا کرنے، نسل بڑھانے کے لیے بنایا ہے۔

’اسے فرق نہیں پڑتا مرد کیس اہے کالا ہے گورا ہے یا موٹا یا پتلا ہے۔ اس نے اپنی جبلت کے مطابق مرد کو چننا ہوتا ہے اس لیے وہی آگے بڑھے گی۔‘

نیلم کے بقول، ’عورت کا جذبہ اتنا مضبوط ہے کہ ہر داستان میں عورت قدم بڑھاتی ہے کیونکہ رغبت اور کشش کی وجہ سے مرد کی طرف مائل ہوتی ہے۔

’معاشرے میں اگر عورت مرد کے برابر کام کرتی ہے تو اس کا معاوضہ اور اتھارٹی کم کیوں ہوتی ہے؟

’حالانکہ وہ بھی مرد کی طرح ایک فرد ہی ہوتی ہے۔ مگر اسے صنفی امتیازیت سے پرکھا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیلم کے خیال میں ’عورت کے جسم کا استحصال ہوتا ہے ریپ ہوتی ہے، خریدی جاتی ہے، لونڈی بنائی جاتی ہے،جبری شادی کر دی جاتی ہے۔ جسم کسی کو بھی دے دیا جاتا ہے تو اس کا اس کے جسم پر اختیار ہی کہاں ہے۔

’اس لیے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ سامنے آیا۔ عورت کے سر پر ڈوپٹہ نہ لینے کو رغبت دلانے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو جب مرد شارٹس پہن کر نکلتا ہے ہم نہیں متوجہ ہوسکتی؟‘

معروف شاعرہ فاطمہ حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں عورت اور مرد کی تخصیص کی قائل ہی نہیں۔ میں فرد اور جنس کی بات کرتی ہوں، کردار تو ہم نے بنایا ہے انسان تو انسان ہے جتنا مرد اتنی عورت انسان ہے۔ جو شعور رکھتا ہے وہی باشعور کہلاتا ہے۔

’عورت ہو یا مرد انہیں باشعور بنانا معاشرے کا فرض ہے۔ انسان کو حالات ہی کسی رخ پر لے کر جاتے ہیں توازن پیدا کرنے کے لیے ہی خواتین باہر نکلتی ہیں۔

’میں تین لائبریریاں سنبھالتی ہوں۔ اس لیے عورت ہو یا مرد وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘

فاطمہ نے کہا کہ ’خواتین اپنے میں اعتماد پیدا کریں  وہ نہ بنیں جو معاشرہ انہیں بنانا چاہتا ہے بلکہ وہ بنیں جو وہ خود بننا چاہتی ہیں۔

’اس حوالے سے میں نے ایک نظم بھی لکھی ہے جس کا عنوان ہے ’میری بیٹی انگلی چھوڑ کے چلنا سیکھ گئی‘۔ جس میں نوجوان لڑکیوں کے لیے کافی آگاہی ہے۔‘

خیال رہے لاہور کے الحمرا آرٹس سینٹر میں تین روزہ ادبی میلے کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ہر سال کی طرح مختلف موضوعات پر سیشنز کا انعقاد کیا گیا۔

ان سیشنز میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ملکی و غیر ملکی شخصیات نے بھی شرکت کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان