دنیا کے واحد سپر پاور امریکہ اور اس کی جگہ لینے کے لیے کوشاں چین کے درمیان تعلقات مستقبل میں جغرافیائی سیاسیات کا سب سے اہم مسئلہ رہے گا جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔
چین نے نہایت وسیع معیشت کے سہارے بیرونی دنیا تک پھیلے عسکری پنجے، بنیادی ڈھانچے میں ’بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام‘ کے ذریعے اپنے تسلط کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اور عالمی اداروں میں اہم عہدوں پر رسائی تک بہت تیزی سے بین الاقوامی ترقی کی ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے مغرب اور باقی دنیا میں اپنے اتحادیوں سے خود کو فخریہ انداز میں الگ تھلگ کرتے ہوئے مسلسل کثیر الجہتی تجارت کے نظریے کو مسترد کر رہے تھے۔
کرونا وائرس کے دنیا کو وجودی خطرے سے دوچار کرتے اثرات ایک طرح سے چین کے حق میں بہتر ثابت ہوئے۔ دوسرے بڑے ممالک کی نسبت چین کی معیشت زبردست طریقے سے سنبھل رہی ہے۔ شی جن پنگ کی حکومت نے طبی اور فوری ضرورت کے سامان کی فراہمی کے ذریعے خود کو عالمی قیادت کے روپ میں پیش کیا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی بیماری کے پھیلاؤ کو چھپا کر اس سے فائدہ اٹھانے اور اس کے نتیجے میں نہایت تباہ کن اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں چین کے خلاف عدم اعتماد کی فضا نے جنم لیا ہے۔ ہانگ کانگ میں ظالمانہ قبضہ اور اویغور مسلمانوں پر حکومت کی طرف سے صنعتی پیمانے پر جبر کی وجہ سے بھی چین تنقید کی زد میں ہے۔ تائیوان پر عسکری جارحیت اور بھارت کے ساتھ سرحدی ٹکراؤ میں مسلح افواج کے استعمال نے بھی دنیا کو چونکا دیا ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے اس مہینے جنوبی کوریا، کینیڈا، امریکہ اور مغربی یورپی اقوام سمیت 14 جمہوری ممالک میں کی جانے والی رائے شماری سے اندازہ ہوتا ہے کہ چین کے خلاف بڑی سطح پر مخالفانہ خیالات میں اضافہ ہوا ہے۔ رائے شماری میں حصہ لینے والوں میں تین گنا امریکی باشندوں کا کہنا تھا کہ اب چین کے بارے میں اب ان کی رائے منفی ہے۔
کیا امریکی الیکشن کے بعد اپنے اتحادی ملک چین کے خلاف مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں گے؟ کیا اگلے مہینے صدارتی الیکشن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ یا جو بائیڈن یہ کردار ادا کرنے کے لیے چیف کمانڈر ہوں گے؟ دونوں مدمقابل امیدواروں میں سے کون بیجنگ کے ساتھ زیادہ جارحانہ یا مفاہمت پسند ہو گا؟
ایک معروف نقطہ نظر یہ بھی گردش میں رہا ہے کہ چین کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے دونوں پارٹیوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر کچھ عرصے کے لیے سینیئر سیاستدانوں کو سامنے لایا گیا۔ اس کی ایک مثال لنزی گراہم تھے جنہوں نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقعے پر یورپ اور برطانیہ کو چین کی کمپنی ہواوے کو اپنے ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک میں شامل نہ کرنے کی دھمکی دی۔
رپبلکن پارٹی کے مرکزی موقف کی تائید کرتے ہوئے ٹرمپ کے حامی سینیٹر گراہم کہتے ہیں، ’نینسی پیلوسی اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک ساتھ کھانے پہ شاید ہی نظر آئیں لیکن اگر آپ برطانیہ کی ہواوے کی خریداری کے متعلق سوال کریں تو دونوں کا جواب ایک ہی ہو گا۔ ہم رپبلکنز اور ڈیموکریٹک اپنی اس بات پر مضبوطی سے قائم ہیں کہ اگر آپ ہواوے کو اپناتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ما رہے ہیں۔‘
ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹک سپیکر نینسی پیلوسی کانفرنس میں یہاں تک کہتی ہیں کہ برطانوی یا یورپی نیٹ ورکس میں ہواوے کی شمولیت کا مطلب ہو گا آپ ’جمہوریت پر آمریت‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی سے کمپنی کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’باہمی رابطے کا یہ 5 جی ٹیٹ ورک ایسی حکومت کے زیر تسلط ہونا جو ہماری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی، دراصل جارحیت کی خطرناک ترین شکل ہے۔‘
الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ نے خود کو بطور صدر چین کے خلاف شدید ترین مخالف بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ جو بائیڈن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے میں ناکام رہیں گے۔ امیدواروں کے درمیان آخری مباحثے میں امریکی صدر مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ بائیڈن اپنے بیٹے ہنٹر کے کاروباری معاہدوں کے ذریعے چین سے پیسے اینٹھتے رہے ہیں۔ یہ بات بالکل بے بنیاد بات ثابت ہوئی جس کے بعد پتہ چلا کہ الٹا ٹرمپ کا چین میں اپنا خفیہ بزنس اکاؤنٹ تھا۔ در حقیقت نیو یارک ٹائمز کی طرف سے جمع شدہ ٹیکس ریکارڈز کے مطابق اپنی کاروباری منصوبوں کی مد میں ٹرمپ نے 2016 اور 2017 کے دوران امریکہ کی نسبت 2013 سے 2015 کے دوران چین میں زیادہ ٹیکس دیا۔
بیجنگ میں امریکہ اور چین کے جھنڈے ایک ساتھ لگائے گئے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ دراصل اس نے آغاز سے ہی ’کرونا وائرس پر چین کے خلاف انتہائی، انتہائی سخت موقف‘ اپنایا ہے لیکن یہ بات بھی اختلاف سے خالی نہیں۔
گذشتہ جنوری امریکی کے سینیئر عہدے داروں کو چین کی طرف سے پھیلتی بیماری کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ چینی حکومت اس بیماری کے آغاز سے متعلق معلومات چھپا رہی ہے۔ نائب امریکن جوائنٹ چیفس آف سٹاف جوہن ہیٹن ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اس مہینے کے آغاز میں تسلیم کیا کہ انہوں نے ایسی رپورٹیں دیکھی تھیں۔ مختلف ذرائع کے مطابق ٹرمپ کو کرونا وائرس کے خدشے سے تین جنوری یا اس کے آس پاس کسی تاریخ کو آگاہ کر دیا گیا تھا، لیکن فروری کے آخر تک 15 مرتبہ سے بھی زیادہ بار وہ چین اور شی جنگ پنگ کی مدح سرائی کرتے دیکھے گئے۔
24 جنوری کو انہوں نے ٹویٹ کی: ’چین بہت تندہی سے کرونا وائرس کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ امریکہ اس کی جدوجہد اور شفافیت کی کھلے دل سے تعریف کرتا ہے۔ یہ کامیابی سے اختتام پذیر ہو گا۔ خاص طور پر امریکی عوام کی طرف سے میں صدر شی کا شکرگزار ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
10 فروری وہ فاکس نیوز کو بتا رہے تھے، ’میرا خیال ہے چین ایسے پیشہ ورانہ انداز سے نمٹ رہا ہے کہ سب کچھ ان کے کنٹرول میں ہے۔ فرض کریں اپریل میں یہ (کرونا وائرس) شدید گرمی کی وجہ سے مر جاتا ہے تو آگے بڑھنے کے لیے یہ نہایت مناسب وقت ہے۔ لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ چین بہت محنت سے کام کر رہا ہے۔‘ 29 فروری کو ایک پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے کہا، ’چین بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا نظر آ رہا ہے۔ متاثرین کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ میرا خیال ہے چین سے ہمارا بہت اچھا تعلق ہے۔ ہم نے ابھی ایک بہت اچھی کاروباری شراکت کی ہے۔ وائرس سے متعلق وہ ہمارے اور ہم ان کے لوگوں سے بات کر رہے ہیں۔‘
بعد میں بائیڈن کی مہم کے ایک ٹی وی اشتہار میں ٹرمپ کی شی جن پنگ اور اس کے دور حکومت کی مدح سرائی کی تصویر کشی کرتے ہوئے ایسا تاثر دیا گیا کہ ٹرمپ کی بطور صدر دوبارہ جیت ایسے شخص کی جیت ہو گی جس پر چین کے خلاف امریکی مفادات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دعوے بھی کیے گئے کہ ٹرمپ نے اپنی دوبارہ جیت کی مہم کے لیے چین سے عملی مدد طلب کی ہے۔ انتظامی امور سے تازہ ترین کنارہ کشی کرنے والوں میں ایک نام جان بولٹن کا بھی ہے جو اس سے پہلے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ بولٹن نے شی جن پنگ سے مبینہ درخواست کو اپنی کتاب The Room Where it Happened میں بیان کیا ہے۔
بولٹن نے لکھا، ’حیرت انگیز طور پر ٹرمپ نے چین کی معاشی اہلیت کا حوالہ دیتے ہوئے بحث کا رخ آئندہ صدارتی الیکشن کی طرف پھیر دیا اور یہ کہ شی جن پنگ ان کی جیت کو یقینی بنائیں۔ ٹرمپ نے کسانوں کی اہمیت پر زور دیا اور چین کی طرف سویابین اور گندم کی خریداری بڑھاتے ہوئے انتخابی فوائد حاصل کیے۔‘ وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ وضاحت متنازع قرار دی گئی۔
ہم جانتے ہیں کہ امریکہ میں ووٹوں کے نقطۂ نظر سے کسان بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور 2016 کے الیکشن میں 75 فیصد کی نمایاں تعداد میں انہوں نے ٹرمپ کی حمایت کی تھی۔ بیجنگ نے کرونا وائرس کے معاملے پر تنقید کا نشانہ بنانے والے ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کر دی تھی، مثال کے طور پر آسٹریلیا سے بہت سی درآمدات پر پابندی لگائی۔ لیکن کم قیمت پر ہی سہی، انہوں نے امریکی زرعی پیداوار کی خریداری جاری رکھی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کسانوں اور زراعت پیشہ لوگوں کے لیے 2019 میں 14.3 ارب ڈالروں کی سبسڈی اور عالمی وبا کے پیش نظر مزید 30 ارب ڈالروں سے چین کی خریداری میں کمی کا ازالہ کر دیا۔
ٹرمپ کی جانب سے جاپان اور جنوبی کوریا میں موجود فوجوں دستوں کی مزید ادائیگی تک واپسی کی دھمکی نے امریکہ کے دو مضبوط اتحادیوں میں غیر یقینی صورت حال پیدا کر دی ہے اور چین کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ لیکن موجودہ عہدہ داروں مائیک پومپیو اور مارک ایسپر سمیت ریاست اور دفاعی امور کے بہت سے وزرا نے نقصان کی تلافی اور دوبارہ مذاکرات کی سر توڑ کوشش کی ہے۔
امریکی سفارت کاروں اور عسکری کمانڈروں نے بھی بیجنگ کے خلاف انڈیا کو اتحاد کا حصہ بنانے کے لیے بش اور اوباما کے دور سے چلی آنے والی پالیسیاں جاری رکھیں اور اس حد تک آگے بڑھے کہ فوج کی پیسفک کمانڈ کا نام تبدیل کر کے انڈو پیسفک کمانڈ کر دیا۔ تاہم چین کے ساتھ موجودہ خراب تعلقات کے باوجود نریندر مودی حکومت کی واضح ہچکچاہٹ کی وجہ سے چین کے خلاف سخت گیر موقف مشکل کام ثابت ہوا۔
تاہم امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا پر مشتمل چار رکنی گروپ کے درمیان ٹوکیو میں بیجنگ کے خلاف تازہ ترین مذاکرات کافی ہنگامہ خیز رہے۔ جن میں چین کے جنوبی سمندروں کے 80 فیصد حصے پر یک طرفہ دعوے اور ان میں جہاز رانی کی آزادی سے لے کر مبینہ سائبر حملوں سمیت چین کی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں کے خلاف مضبوط موقف اپنایا گیا۔
حال ہی میں امریکی بحریہ نے متنازع سمندری علاقے میں دو مال بردار بحری بیڑے روانہ کیے اور دوسرے ملک بھی ممکنہ طور پر ان کی پیری کرنے والی ہیں جیسے برطانیہ جو جہاز بردار بحری بیڑا ’ملکہ الزبتھ ٹو‘ اگلے سال مشرق کی طرف روانہ کرے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کو 1.8 ارب ڈالر کے اسلحے کی فروخت کی منظوری دی ہے جس میں 135 گائیڈڈ کروز میزائل بھی شامل ہیں۔ جہاں یہ عمل صدر کی لین دین کی خارجی و دفاعی پالیسی کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہے وہیں یہ چین کے فوجی کمانڈروں کی دھمکیوں اور زبردستی جزیرے پر قبضہ گیری کا جواب بھی پیش کرتا ہے۔
بعض مشرقی ایشیائی ملکوں کی حکومتوں کا موقف ہے کہ اوباما انتظامیہ، جس کے دوران بائیڈن نائب صدر تھے، وہ چین کی توسیع پسندی پر نظر رکھنے کے معاملے میں کوتاہ بین واقع ہوئی جس کی وجہ سے چین کو بحر الکاہل اور بحرِ ہند میں جگہ جگہ پاؤں جمانے کا موقع مل گیا۔ جب سمندری تنازعے پر پڑوسی ممالک بیجنگ سے برسر پیکار تھے تو امریکہ کی طرف سے ناکافی معاونت بھی محسوس کی گئی۔ تاہم پانچ سال قبل اوباما نے سفارت کاری، دفاع اور تجارت کے معاملات میں بحرِ اکاہل کی جانب مجموعی جھکاؤ کی طرف اشارہ ضرور دیا تھا، لیکن شام کی جنگ میں روس کی مداخلت اور داعش کی اٹھان نے امریکہ کو واپس مشرقِ وسطیٰ میں لا کھڑا کیا۔
ایشیا کی مشرقی ریاستوں میں عہدے داروں کا یہ بھی خیال ہے کہ بیجنگ کے اقدامات پر سوالات اٹھانے کے بجائے امریکہ چین کے ساتھ تجارت میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔ اوباما کا چین میں دورہ طے کروانے والی سلامتی کی مشیر سوزن رائس دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی کھلے عام حامی تھیں۔
رائس کو بائیڈن انتظامیہ کے اہم ترین عہدے داروں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ محض چین اور امریکہ کو مسائل سے نکلنے اور استحکام پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دے رہی تھیں۔
بہرحال رائس اور چین کے عہدے داروں کے باہمی تعلقات ہمیشہ خوشگوار نہیں رہے۔ ’چین کی جارحانہ سفارت کاری کے ’جنگجویانہ‘ مکتبۂ فکر کے حامی عہدے دار لی جیان ژاؤ کو پچھلے برس کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے ’شرمناک نسل پرست‘ اور ’جاہل مطلق‘ کہا ہے۔
ژاؤ نے صوبہ سنکیانگ میں اویغوروں کے خلاف اپنے حکومتی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے سنکیانگ میں سکیورٹی کی صورتِ حال کو سیاہ فاموں اور لاطینیوں پر مبینہ تشدد کی صورتِ حال سے موازنہ کرتے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا، ’اگر آپ واشنگٹن ڈی سی میں ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ یہاں سفید فام نہیں جاتے کیونکہ یہ سیاہ فام اور لاطینیوں کا علاقہ ہے۔‘
امریکہ کی اگلی انتظامیہ کو چینی حکومت اور انسانی حقوق کے مسئلہ پر توجہ دینا ہو گی۔ جان بولٹن کے مطابق جس میٹنگ میں ٹرمپ نے خود کو منتخب کروانے کے لیے شی سے تعاون کی درخواست کی تھی، اسی میں ٹرمپ نے عوامی نظر بندی کی مہم کو ’بالکل کرنے والا کام‘ قرار دیتے ہوئے اویغوروں کے معاملے پر شی سے کہا، ’مزید کیمپ بنانے میں لگے رہو۔‘ (وائٹ ہاؤس اس بات کی تردید کرتا ہے)۔
بیجنگ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے بائیڈن کا کہنا تھا کہ چین کی ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ناروا سلوک کے خلاف وہ امریکی اتحادیوں اور ساتھیوں کا ایک مشترکہ محاذ‘ قائم کریں گے۔ انہوں نے شی کو ’ان ٹھگوں میں ایک‘ کا نام دیا ہے جن سے ٹرمپ نے پینگیں بڑھا لی ہیں۔ لیکن جو بائیڈن نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ وہ ’موسمیاتی تبدیلی، عدم توسیع اور عالمی تحفظ صحت جیسے مشترکہ مفادات کے معاملے پر ایک دوسرے سے تعاون کے خواہش مند ہیں۔‘
بائیڈن نے کہا ہے کہ اس کے زیر صدارت امریکہ دوبارہ صحت کی عالمی تنظیم میں شامل ہو جائے گا جس پر بالخصوص اس کے ایتھوپیائی ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز گیبریئسس پر کسی حد تک درست الزام لگاتے ہوئے ٹرمپ نے کرونا وائرس کے مسئلے پر شی اور اس کی حکومت کی جانب غلامانہ طریقے سے جھکنے کی بنیاد پر عالمی ادارۂ صحت سے ہاتھ کھینچ لیے تھے۔
بائیڈن نے یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی کا صدر ٹرمپ کی طرف سے روکے گئے عالمی ادارۂ صحت کے فنڈز دوبارہ جاری کرے گا اور ایک مشترکہ ٹیم بنانے کی تجویز پیش کرے گا جو کرونا وائرس کی ویکسین اور نئے علاج پر تحقیق کرے گی۔
ٹرمپ نے پیرس موسمیاتی تبدیلی کا معاہدہ ترک کر دیا ہے۔ بائیڈن نے اس میں فوراً شمولیت کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ عالمی تپش کے عالمی اہداف کا حصول بھی یقینی بنائے گا۔ معاہدے پر کسی بھی ٹھوس پیش رفت کی ضرورت دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کو لازمی بنا دے گی۔
پھر چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ ہے جسے ٹرمپ نے جیتنے کا عزم کر رکھا تھا۔ لیکن اس جنگ میں اس کے پاس فتح کے ثبوت دکھانے کو ناکافی ہیں۔ صدر نے مجموعی طور پر تجارتی خسارہ کم کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن گذشتہ اگست 14 سال میں یہ اپنی بلند ترین ماہانہ سطح کو چھوتا ہوا 67 ارب ڈالر تک پھیل گیا۔ ماہانہ سات فیصد کے زوال کے باوجود چین کا خسارہ محض 26 ارب ڈالر تھا۔
ڈیموکریٹکس کہتے ہیں وہ تجارتی جنگ کا خاتمہ کر دیں گے لیکن یہ کرتے ہوئے وہ بیجنگ سے غیر ضروری رعایات نہ برتیں گے۔ اگلے ہفتے ہونے والے انتخابات میں جو بھی سرخرو ہوتا ہے، امریکی صنعت کو چین سے الگ کرنے کا پہلے سے جاری عمل یقیناً بہت تیزی سے آگے بڑھے گا۔
امریکہ اور چین کے تعلقات امریکہ کے صدارتی الیکشن کے بعد بہت سی بنیادی تبدیلیوں سے گزریں گے اور حالات سے ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل بہت ترش اور ہنگامہ خیز ہو گا۔
© The Independent