چینی کار ساز کمپنی بی وائی ڈی کی گذشتہ برس آمدنی میں اضافہ دیکھا گیا جس نے 100 ارب ڈالر کا ہندسہ عبور کیا اور اپنی حریف ٹیسلا کو شکست دی کیونکہ الیکٹرک گاڑیوں کے بڑے ادارے نے اپنے آپ کو بیرون ملک توسیع کو تیز کیا ہے۔
شینزن میں قائم بی وائی ڈی حالیہ برسوں میں چین کی انتہائی مسابقتی ای وی مارکیٹ میں نمایاں طور پر رہنما کے طور پر ابھری ہے۔
یہ کمپنی تیزی سے بیرون ملک ترقی کے نئے راستے تلاش کر رہی ہے۔ بی وائی ڈی دیگر براعظمی برانڈز کے مقابلے میں ایک نئے ’کمپیکٹ الیکٹرک ماڈل‘ اور انتہائی تیز چارجنگ کی صلاحیتوں کے ساتھ یورپی مارکیٹ کو فتح کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔
یورپ میں چینی ادارے کی گاڑیاں ٹیسلا کے لیے ایک مشکل موڑ کے طور پر سامنے آئی ہیں، جس کی براعظم میں فروخت سی ای او ایلون مسک کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کے سیاسی گروپوں کی حمایت کے بعد گر گئی ہے۔
شینزین سٹاک ایکسچینج میں پیر کی شام جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق بی وائی ڈی نے 2024 کے لیے 777 ارب یوآن یعنی 107ارب ڈالرز ریونیو ریکارڈ کیا۔
اس سے قبل ٹیسلا نے اعلان کیا گتھا کہ پچھلے برس اس کی آمدنی کم ہو کر 97 ارب ڈالرز ہو گئی تھی۔
گذشتہ برس بی وائی ڈی کا خالص منافع 40 ارب یوآن سے زیادہ تھا، جو 2023 کے مقابلے میں 34 فیصد زیادہ ہے اور تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھا۔
بی وائی ڈی کی ماہانہ فروخت بھی فروری میں 161 فیصد بڑھ کر تین لاکھ 18 ہزار یونٹس تک پہنچ گئی اور اس نے اسی عرصے کے دوران ٹیسلا کی کم ہوتی ہوئی فروخت کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیا۔
تیز چارجنگ
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں ماہ بی وائی ڈی کے ہانگ کانگ میں حصص اس وقت ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئے جب فرم کی جانب سے نئی بیٹری ٹیکنالوجی کی نقاب کشائی کی گئی۔ ادارے کا کہنا ہے کہ گاڑی کو اتنے ہی وقت میں چارج کیا جا سکتا ہے جتنا وقت اس میں پیٹرول بھرنے میں لگتا ہے۔
کمپنی کے مطابق: ’سپر ای پلیٹ فارم‘ بیٹری اور چارجنگ سسٹم 1000 کلو واٹ کی تیز رفتار کا حامل ہے اور کاروں کو پانچ منٹ کے چارج کے بعد 470 کلومیٹر (292 میل) تک سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس کے برعکس ٹیسلا کے سپر چارجرز فی الحال 500 کلو واٹ کی چارجنگ کے حامل ہیں۔
بی وائی ڈی کی نائب صدر سٹیلا لی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ مارچ اور اپریل کے دوران یورپ میں ’رجسٹریشن نمبرز بڑھ جائیں گے‘۔
بی وائی ڈی گروپ نے بڑی اشتہاری مہم شروع کی ہے جس میں فٹ بال میں گذشتہ سال کی یورپی چیمپئن شپ کی سپانسرشپ شامل ہے اور اس نے پورے براعظم میں متعدد نئے شو رومز کھولے ہیں۔
تاہم، بیجنگ اور مغربی دارالحکومتوں کے درمیان جغرافیائی سیاسی اور تجارتی تناؤ کی وجہ سے کمپنی کے عالمی عزائم کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
یورپی یونین کے حکام مبینہ طور پر اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا چینی حکومت نے ہنگری میں بی وائی ڈی کی پہلی یورپی فیکٹری کے لیے غیر منصفانہ سبسڈی فراہم کی، جہاں اس سال کے آخر میں الیکٹرک کاروں کی پیداوار شروع ہونے والی ہے۔
گذشتہ ہفتے کمپنی کے ترجمان لی کا کہنا تھا کہ کمپنی ’انتہائی شفاف‘ ہوگی اور کسی بھی تحقیقات میں تعاون کرنے کو تیار ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پیشرو جو بائیڈن کے اقدام میں اضافہ کرتے ہوئے حال ہی میں چینی درآمدات پر بلند بلینکٹ ٹیرف عائد کیے ہیں۔ یہ ٹیرف سمارٹ کاروں میں چینی ٹیکنالوجی کے استعمال کو مؤثر طریقے سے روکتا ہیں۔