’میں ان دنوں مشرقی پاکستان کے میمن سنگھ ضلع میں جمال پور ڈسٹرکٹ کے علاقے شیرپور میں تعینات تھا۔ یہ 1971 کے فوجی آپریشن کا ذکر ہے۔‘
سرگودھا میں مقیم میجر ریاض حسین ملک انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں ’کہ آپریشن کے ابتدا سے ہی مشرقی پاکستان کے حالات نہایت ناخوشگوار تھے۔ پولیس اور ایسٹ پاکستان رائفلز اور ایسٹ پاکستان رجمنٹ باغی ہو چکے تھے۔ بھارتی حکومت نہ صرف باغیوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کر رہی تھی، بلکہ بھارتی فوج مکتی باہنی کی انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ کی مدد سے سرحد کے اندر آ کر بھی کارروائیاں کرتی تھی۔
’دوسری طرف پاک فوج کو نہ صرف افرادی قوت کی شدید کمی کا سامنا تھا بلکہ مقامی راستوں سے ناواقفیت کی وجہ سے دشمن کے خلاف موثر کارروائی ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہو جاتی تھی۔ ’ایسے میں سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے چند مقامی بنگالی طلبہ میرے پاس آئے اور باغیوں کے خلاف آپریشن میں پاک فوج کے ساتھ لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا۔‘
میجر ریاض کہتے ہیں کہ ’اس معاملے میں ایک رکاوٹ یہ تھی کہ ہمیں مرکزی ہیڈ کوارٹر کی طرف سے بنگالیوں کو کسی بھی قسم کا اسلحہ دینے کی ممانعت تھی۔ ’میں نے اس موقع پر اپنے ذاتی اختیارکو استعمال کر کے ان نوجوانوں کو تربیت دے کر ان کی خدمات انڈین فوج اورمکتی باہنی کے خلاف آپریشنز میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
میجر ریاض آج بھی اس وقت کا تذکرہ کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جس وقت رضاکاروں کی اس تنظیم میں بھرتی کے لیے نوجوانوں کو قد، عمر اور صحت کی بنیاد پرالگ کررہے تھے، ایک چھوٹے قد کا نوعمر لڑکا ایڑیوں کے بل کھڑا ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ اس کے جذبے نے مجھے صدیوں پیچھے غزوہ بدر کی یاد دلا دی جب دو نوعمر صحابیوں نے اسی جذبے کا مظاہرہ کیا تھا اور یوں میں نے طلبہ رضاکاروں کی اس تنظیم کو البدر کا نام دیا۔‘
یہ بات اب ریکارڈ پر ہے کہ 1971 کے فوجی آپریشن اور انڈیا کی مداخلت کے باعث جس المیے نے جنم لیا اس میں متعدد فریقین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے۔ اس مضمون کا مقصد فوجی آپریشن یا کسی بھی فریق کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دفاع نہیں بلکہ ایک ایسے بیانیے کو سامنے لانا ہے جسے مین سٹریم میڈیا میں اب تک جگہ نہیں مل سکی ہے۔
1971 کے تنازعے کے حوالے سے میڈیا اور علمی حلقوں میں بہت سے موقف اور بیانات موجود ہیں۔ جن میں سے کچھ کو بہت زیادہ قبولیت حاصل ہے لیکن کچھ کو میڈیا کے مرکزی دھارے میں بالکل جگہ نہیں ملی۔ ایسا ہی ایک بیانیہ ان بنگالی طلبہ پر مشتمل سابق رضاکار تنظیم ’البدر‘ کا ہے جنہوں نے پاکستانی شہری کی حیثیت سے اسے ٹوٹنے سے بچانے کے لیے پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔
2011 میں بنگالی نژاد امریکی مصنفہ شرمیلا بوس اپنی کتاب ’ڈیڈ ریکننگ‘ میں لکھتی ہیں کہ بنگلہ دیش اور انڈیا میں لکھے گئے جنگی لٹریچر میں کثرت سے پاکستان کے حامی ان رضاکاروں کا تذکرہ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ سابق مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے بنگالی حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ وہ انہیں ’پرو پاکستان‘ رضاکار کہتی ہیں جو انڈیا کی اسپانسر کردہ مکتی باہنی کے مقابل ایک نیم فوجی فورس تھی۔
71 کے سانحے نے بھائی کو بھائی کے مقابل کھڑا کر دیا تھا
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مکتی باہنی ہو یا البدر، یہ دونوں بنگالی بولنے والے تھے۔ ایک ہی ملک کے گلی محلوں میں اور بعض اوقات ایک ہی گھر میں بھائی کی حیثیت سے بڑے ہوئے تھے اور دونوں سابقہ مشرق پاکستان میں ان لوگوں کی اولاد تھے جنہوں نے 23 سال قبل پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں غیر معمولی حصہ ڈالا۔
حالات نے انہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ایک گروہ پر پاکستان سے عشق سوار تھا تو دوسرے پر آزادی اور اپنے حقوق حاصل کرنے کا۔ ایک کو بھارت کی بھر پور پشت پناہی حاصل تھی تو دوسرے کو پاکستانی فوج کی سر پرستی۔
دونوں اپنے اپنے جذبات کے اسیر تھے اور اپنے مقاصد کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ آج ان میں سے ایک کو آزادی کے سرفروش کے طور پر ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے تو دوسرے کو بدترین ولن کا۔
البدر کا قیام
میجر ریاض کا کہنا تھا کہ ابتدا میں البدر نے مجھے جمال پور ضلع میں امن قائم رکھنے میں بہت مدد دی۔ ’جمال پور وہ واحد ضلع تھا جہاں سکول کالج، ہسپتال سب کھلے ہوئے تھے۔ پاکستان کے مواصلاتی اداروں کو جب سب اچھا ہے کی رپورٹ بھیجنی ہوتی تھی تو وہ جمال پور آ کر ہی شوٹنگ کرتے تھے۔‘
’اس بات سے متاثر ہو کر میرے سینیئروں نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے نظم و نسق کیسے برقرار رکھا ہے؟ جب میں نے البدر کے رضاکاروں کا تذکرہ کیا تو کمانڈنگ افسر نے میرے علاقے کا دورہ کیا اور یہ تجویز سامنے آئی کہ اس مشکل وقت میں باقی علاقوں میں بھی پاکستان کی حمایت کرنے اور اس کے لیے لڑنے کی خواہش رکھنے والوں کو ٹریننگ دی جائے اور انکی خدمات کا فائدہ اٹھایا جائے۔‘
یاد رہے البدر کے ان رضاکاروں کا تعلق متحدہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعت جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ سے تھا جو مشرقی پاکستان میں اپنے بنگالی نام ’اسلامی چھاترو شنگھو‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔
ہم نے ہتھیار پاکستانی فوج کے لیے نہیں اٹھائے تھے
منظور الاسلام (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) جو البدر کی تربیت پانے والے پہلے بٹالین میں شامل تھے کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت کالج میں ایف ایس سی کے طالب علم تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ یکم مارچ 1971 کو یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا تو وہ کالج کے دوسرے طلبہ کے ساتھ اس فیصلے کے خلاف مظاہرے میں شامل تھے لیکن ’جب مارچ کے آخر میں اندرا گاندھی نے علیحدگی پسندوں کی حمایت کا اعلان کیا تو ہم خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے تھے۔‘
یہ ہمارے وطن [پاکستان] کی سالمیت کا مسئلہ تھا جسے ہم نے بہت قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا اور دنیا کا کوئی قانون وطن کے دفاع کو جرم قرار نہیں دیتا اور نہ ہی کسی شہری سے اس کا وطن کے دفاع کے حق کو چھینا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی معاشی اور سیاسی تفریق کا پورا احساس تھا لیکن وہ اس نظرئیے کے حامی تھے کہ پاکستان کا ٹوٹنا سیاسی بحران کا حل نہیں ہے۔
منظور السلام کا کہنا ہے کہ پاکستان سے محبت انہیں ان کے والدین اور دادا دادی نانا نانی نے گھٹی میں گھول کر پلائی تھی کیونکہ وہ متحدہ بنگال (تقسیم سے قبل مغربی بنگال اور مشرقی بنگال) میں ذات پات سے آلودہ انڈین نیشنلزم کے مضمرات سے پوری طرح آگاہ تھے اور مغربی بنگال کے ہندو زمینداروں کے طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں کے عینی گواہ تھے۔
’ان کے تجربات نے مجھے جوش دلایا کہ میں پاکستان سے محبت کروں اور اس کی حفاظت کے لیے کھڑا ہوں۔ ہم نے ہتھیار یحییٰ خان یا پاکستانی فوج یا کسی مالی فائدے کے لیے نہیں اٹھائے تھے بلکہ اپنے وطن کی دشمن سے حفاظت کے لیے ایسا کیا تھا۔ ‘
البدر کے رضاکار ’مکتی باہنی سے کمزور تھے‘
کرنل صدیق سالک اپنی کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’البدر اور الشمس کے رضاکاروں نے پاکستان کی سالمیت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں۔ وہ ہر وقت پاک فوج کے ہرحکم پر لبیک کہتے تھے۔ انہیں جو کام سونپا جاتا، وہ پوری ایمانداری، اور بعض اوقات جانی قربانی، سے کرتے۔‘ آگے جا کر سالک لکھتے ہیں کہ ’اس تعاون کی پاداش میں رضاکاروں اور ان کے زیر کفالت افراد نے شرپسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھایا۔‘
صدیق سالک یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’رضاکار اسلحے اور تربیت کے لحاظ سے مکتی باہنی سے کمزور تھے۔ ان کو بمشکل دو سے چار ہفتوں کی ٹریننگ دی گئی تھی جبکہ مکتی باہنی آٹھ ہفتوں کی بھرپور تربیت حاصل کر چکی تھی۔ رضاکاروں کے پاس 303 کی دقیانوسی رائفلیں تھیں جبکہ مکتی باہنی نسبتاً جدید ساز و سامان سے لیس تھی۔ ‘
میجر ریاض کا کہنا ہے کہ ان نوجوانوں نے قلیل اور فرسودہ اسلحے سے مکتی باہنی کے خلاف آپریشنز میں بھی حصہ لیا اور کہیں کہیں بھارتی سرحد میں گھس کر بھارتی فوج کے اہداف کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ مقامی راستوں پر پاک فوج کی رہنمائی کرنا اور مکتی باہنی کی نقل و حرکت سے پاک فوج کو مطلع کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل تھا۔
بریگیڈئیر حیات محمد خان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کے البدر کمانڈر کو چند پرانے ہتھیار دے کر فرائض سونپے گئے کہ وہ سندر بن کے زیریں علاقے میں گن بوٹس کو آگے نہ بڑھنے دیں لیکن انہوں نے اپنے آپ کو دفاع تک محدود نہ رکھا بلکہ ہندوستان کی ریگیولر نیوی افسران تک کو جنگی قیدی بنایا۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ البدر اور اشمس کے بعض نوجوان جنگی قیدی بن کر پاکستان پہنچے اور مجھ سے ملے تو میں انکے لیے کچھ نہ کر سکا۔ یاد رہے 1971 میں پاک فوج کے سرنڈر کے بعد انڈین حکومت نے البدر کے رضاکاروں کی گرفتاری کے لیے انعام کا اعلان کیا تھا۔
اسلامی چھاترو شنگھو
البدر پر تحقیق کے لیے بنگلہ دیش کا سفر کرنے والے اور اسی نام سے 1985 میں ایک کتاب تصنیف کرنے والے محقق و مورخ سلیم منصور خالد جو طویل عرصے ایف سی کالج گوجرانوالہ میں تدریس کے فرائض انجام دے کر حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
25 مارچ کو پاک فوج نے مکتی باہنی کے خلاف آپریشن شروع کیا تو اسلامی چھاترو شنگھو جو چھوٹے چھوٹے شہروں اور گاؤں سمیت پورے مشرقی پاکستان میں پھیلی ہوئی تھی، کے پاس تین راستے تھے۔ 1: مکتی باہنی کا ساتھ دیں اور پاکستان سے علیحدگی کی جنگ لڑیں 2: غیر جانبدار رہیں۔ 3: پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کو بچانے کی کوشش کریں۔ یہ تینوں راستے شوریٰ کے سامنے رکھے گئے۔
سلیم منصور کا کہنا ہے کہ مکتی باہنی کا ساتھ دینے کی تجویز سے کسی نے اتفاق نہیں کیا۔ بعض سادہ لوح غیر جانبدار رہنے کے حق میں تھے جو ان نامساعد حالات میں ناممکن تھا لیکن اکثریت آخر وقت تک پاکستان بچانے کی جدوجہد کا ساتھ دینا چاہتی تھی۔ بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے تحفظ کی خاطر پاک فوج سے تربیت لے کر ان کے ساتھ مکتی باہنی اور انڈیا سے لڑیں گے۔
بالآخر مئی 1971 میں البدر کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ اس کا نام میجر ریاض حسین کا ہی مجوزہ تھا۔
دانش مندانہ فیصلہ؟
لیکن کیا ایسے حالات میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینا مقامی بنگالی طلبہ کے لیے دانشمندانہ فیصلہ تھا؟
ڈھاکہ جماعت اسلامی کے سابق امیر خرّم جاہ مراد اس وقت پاک فوج، مجیب الرحمان اور دائیں اور بائیں بازو کے تمام سیاست دانوں سے قریبی رابطے میں تھے، اور بعد ازاں جنگی قیدی بھی رہے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’لمحات‘ میں لکھا کہ انہوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
یاد رہے خرم جو متحدہ پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ کے صدر بھی رہی تھے اور ان کا تعلق مغربی پاکستان کے اردو بولنے والے مہاجر طبقے سے تھا، اور وہ اس وقت امریکہ سے انجینیئرنگ میں ماسٹرز کرنے کے بعد ڈھاکہ کی ایک غیر ملکی فرم میں ملازم تھے۔ 1971 کے تنازعے سے قبل وہ کئی سال جماعت اسلامی ڈھاکہ کے صدر کے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔
خرم کے مطابق، انتخابات کے نتائج دیکھ کر انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک کی تقسیم ناگزیر ہے، اس لیے ان کا خیال تھا کہ اگر یہ طلبہ مکتی باہنی سے لڑنا چاہتے ہیں تو بھی انہیں پاک فوج کے ساتھ مل کر نہیں لڑنا چاہیے کیونکہ علیحدگی کے بعد پاکستان بچانے کی یہ جدوجہد ان بنگالی طلبہ کے لیے شدید خطرناک اور جان لیوا نتائج پیدا کر سکتی ہے، لیکن یہ طلبہ پاکستان سے عشق کے جذبے سے سرشار تھے۔
خرم لکھتے ہیں کہ پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے علاوہ اسلامی چھاترو شنگھو کے سامنے ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ مکتی باہنی کے حملوں کے خلاف آپریشن کے دوران فوج کے ہاتھوں بے گناہ بنگالیوں کو جو نقصان پہنچ رہا تھا، امید تھی کہ اگر بنگالی رضاکار ساتھ ہونگے تو اس میں کمی آئے گی۔ افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
’تم پنجابیوں کے دلال ہو‘
’البدر‘ کتاب کے مطابق مکتی باہنی نے انہیں پاک فوج کو معلومات فراہم کرنے کے جرم میں بہت بے دردی سے مارا۔ بعض مقامات پر یہ انہیں مقامی سویلین آبادی کے حق میں بات کرنے پر پاک فوج کی گالیوں کا نشانہ بھی بننا پڑا، کہیں کہیں یہ بنگالی ہونے کی وجہ سے غیر بنگالیوں اور پاک فوج کے رد عمل کا بھی شکار ہوئے۔
آپریشن کے رد عمل اور پاک فوج سے مسلح تعاون کی پاداش میں ان رضاکاروں کے گھروں کو جلایا گیا، انہیں اور ان کے گھر والوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر موت کی گھاٹ بھی اتارا گیا۔ لیکن یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ ان محدود وسائل کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھنے والے ان محافظین کی اپنی حفاظت کے لیے سرنڈر کی دستاویز میں کوئی شق شامل نہیں تھی کہ وہ دہلی میں تیار ہوئی تھی۔
15 اور 16 دسمبر کو جب انہیں علم ہوا کہ پاکستانی فوج ہتھیار ڈال رہی ہے تو ان رضاکاروں کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ ان میں سے کچھ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں تھے اور آسام کے جنگلات میں چھپ کر انڈین فوج کو تنگ کرنا چاہتے تھے۔ بعض مقامات پر پاکستانی فوج نے انہیں پیش کش کی کہ آپ ہمارے ساتھ رہنا چاہیں تو رہیں ورنہ اپنی حفاظت کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔ بعض مقامات پر بھارتی فوج نے انہیں پاک آرمی کے ساتھ جنگی قیدی بنانے سے انکار کر دیا کہ ہمیں بنگالیوں کو گرفتار کرنے کی اجازت نہیں، ان سے مکتی باہنی خود نمٹے گی۔
ان میں سے بعض رضاکار اپنی جان بچانے کے لیے شہروں شہروں جنگلوں میں گھومتے رہے۔ کچھ بھارتی ریاستوں آسام، تریپورہ، مغربی بنگال کی سرحد پار کر کے انڈیا، نیپال اور برما پہنچے اور مختلف راستوں سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ البدر کے بہت سے کارکن 16 دسمبر کے سرنڈر کے بعد مکتی باہنی کے ہاتھوں مارے گئے۔
البدر کتاب کے مطابق ایسا بھی ہوا کہ بڑے بھائی نے یہ کہہ کر جیل پہنچا دیا کہ ’جاؤ اپنے پاکستان میں، تم بنگالی نہیں پنجابیوں کے دلال ہو۔ ‘ مکتی باہنی کے نوجواں رہنما قادر صدیقی جو ٹائیگر صدیقی بھی کہلاتے تھے، انہوں نےعین ہتھیار ڈالنے کی تقریب کے دوران سٹیج کے پیچھے غیرملکی نامہ نگاروں کی موجودگی میں رضاکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
اپنی اس حرکت پر ٹائیگر صدیقی نے حال ہی میں ایک بھارتی امریکی ادیبہ یاسمین سائکیا کو ان کی کتاب کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے ندامت کا اظہار بھی کیا ہے۔ ٹائیگر کا کہنا ہے کہ انہیں اس وقت یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور غیر قانونی ہے۔
ہتھیار ڈالنے کے بعد بھارتی فوج کے زیر قبضہ علاقوں میں پاکستان کے حامی بنگالیوں اورغیر بنگالیوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔
انڈین اور بنگلہ دیشی حکومت کے بیانیہ میں پاک فوج کو بنگالیوں کی نسل کشی کا مجرم قرار دیا جاتا ہے لیکن اس خون کی ہولی کا تذکرہ عموما نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے سابق مشرقی پاکستان کی تمام غیر بنگالی اور بہاری آبادی کیمپوں میں منتقل ہو گئی جنکی تیسری نسل آج بھی وہاں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔
پاکستان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف ایکٹ
پاکستانی نژاد برطانوی صحافی اینتھونی میسکرینس 1986 میں چھپنے والی اپنی کتاب ’بنگلہ دیش: اے لیگسی آف بلڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ نئی مملکت کے قیام کے بعد 24 جنوری کو پاکستان کا ساتھ دینے والے سیاست دانوں اور رضاکاروں کو قانونی سزائیں دینے کے لیے بنگلہ دیش کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان نے Collaborators Act کا اجرا کیا تو ایک عجیب سی صورت حال پیش آئی۔ پہلے ہی مقدمے میں رضاکار کا کہنا تھا کہ جو آدمی استغاثہ کی حییثت سے کھڑا ہے اسی نے مجھے رضاکار بھرتی کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بڑی تعداد میں لوگوں نے اس ایکٹ کو اپنے ذاتی یا سیاسی مخالفین کو پھنسانے کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ یہاں تک کہ عوامی لیگ کے ایک با اثر رہنما کا کہنا تھا کہ وہ تمام افراد جنہوں نے 1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کی مخالفت کی انھیں اس ایکٹ کے تحت سزائیں دی جائیں۔
اینتھونی لکھتے ہیں کہ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ کسی کے پروفیشنل یا سیاسی کیرئیر کو تباہ کرنے کے لیے یہ کافی تھا کہ اسے Collaborator یعنی پاکستان کا ساتھ دینے والا قرار دے دیا جائے۔ بالآخر شیخ مجیب کی زندگی میں ہی ان مقدمات کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا۔
اپریل 1974 میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کا جو سہہ فریقی معاہدہ ہوا اس کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت نے در گزر کا فیصلہ کیا۔ روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت کے بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ مجیب کی حکومت وعدہ کیا کہ ان مقدمات کو جاری نہیں رکھا جائے گا۔
البدر کی بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں کامیابی
لیکن ایک بہت دلچسپ بات یہ ہے کہ نئی مملکت کے قیام کے بعد ان رضاکاروں کو وہاں کےعوام نے کئی مرتبہ منتخب کر کے اپنی نمائندگی کے لیے پارلیمان میں بھیجا۔ پاکستان کے سابق حامیوں کا مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہو کر پارلیمان میں پہنچنا بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ سابق مشرقی پاکستان کے تمام عوام علیحدگی نہیں چاہتے تھے لیکن بنگلہ دیش کے قیام کے حوالوں سے جو بیانیہ موجود ہیں ان میں اس پہلو کو عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔
لیکن اس سے بڑھ کر ان کا متعدد مرتبہ پارلیمنٹ میں پہنچنا اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام انکے اخلاق و کردار پر اعتماد کرتے رہے ہیں۔
پھانسیوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں کا اعتراض
لیکن آج البدر اور دیگر رضاکاروں کو بڑے پیمانے پر 40 سے 50 سال پرانے ریپ، قتل عام اور لوٹ مار کے مقدمات کا سامنا ہے اور انہیں پھا نسیوں پر چڑھایا جا رہا ہے۔
پھانسی اور عمرقید کی ان سزاؤں کو ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان مقدمات میں یعنی انصاف کے تقاضوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے۔
یہ مقدمات 2010 میں اچانک شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کی دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے لیے منتخب ہونے کے بعد سامنے آئے جنھیں ان کے مخالفین سیاسی انتقام بھی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پاکستان سے نفرت بڑھا کر سیاسی فائدے حاصل کرنے کی کوشش اور اپوزیشن کو راستے سے ہٹانے کی تدبیر تھی۔
ان مقدمات کے حوالے سے ڈھاکہ کی ایک متمول خاندان میں پیدا ہونے والے اکانومسٹ مشتاق خان جو ایس او اے ایس یونیورسٹی لندن میں پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشن سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد مشرقی پاکستان میں پاکستان کے حمایتی ایک ایک کر کہ پاکستان سے اپنی وفاداری چھوڑتے رہے لیکن جماعت اسلامی اور اس کے رضاکار 17 دسمبر تک پاکستان کے لیے لڑتے رہے۔
مشتاق خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان رضاکاروں کو اور جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد عوام سے مانگ لینی چاہیے تھی جو انہوں نے پچھلے 50 سال میں نہیں مانگی۔ جماعت اسلامی کا ایک بڑا دھڑا اس مسئلے پر اختلاف کی وجہ سے الگ بھی ہو گیا ہے۔
دوسری طرف منظور السلام کا کہنا ہے کہ البدر کے کارکنان پر نہ 1971 سے پہلے کوئی مقدمات تھے اور نہ ہی 1971 کے بعد حسینہ کی دوبارہ وزارت عظمیٰ تک۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کئی دھائیوں تک اتنے گھناؤنے مجرمین کا کوئی پولیس ریکارڈ ہی موجود نہ ہو؟
اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ان کے لیے یہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں ریپ، قتل عام، لوٹ مار، جیسے گھناؤنے الزامات کے مفروضے کو بغیر منصفانہ ٹرائل کے بھار اور عالمی میڈیا میں دہرایا جاتا ہے۔ منظور السلام کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا میں پاکستان کے خلاف بیانیہ بہت طاقتور ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جس پاکستان کی محبت میں البدر نے ہتھیار اٹھائے وہاں بھی لوگ انہیں نہیں جانتے ہیں یا ان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ منظور السلام کا آج بھی یہ کہنا ہے کہ یہ اس وقت پاکستان کے شہری تھے۔ دنیا کا کوئی قانون وطن کے دفاع کو جرم قرار نہیں دے دیتا اور نہ ہی کسی شہری سے اس کے وطن کے دفاع کا حق چھین سکتا ہے۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں میجر ریاض حسین ملک، سلیم منصور خالد، البدر کے سابق کارکن، کے انٹرویوزکے علاوہ شرمیلا بوس کی کتاب ’ڈیڈ ریکننگ،‘ اینتھونی مسکرینس کی کتاب ’اے لیگیسی آف بلڈ،‘ کرنل صدیق سالک کی کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا،‘ ڈھاکہ جماعت اسلامی کے سابق امیر خرم جاہ مراد کی کتاب ’لمحات‘ اور ’البدر‘ سے استفادہ کیا گیا ہے۔