بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر طارق احسن کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے قریبی تعلقات چاہتا ہے، لیکن ہماری خواہش ہے کہ پاکستان ایک خود مختارملک تسلیم کرتے ہوئے ہماری سالمیت کا احترام کرے۔
صحافیوں سے ہونے والی ایک ملاقات میں طارق احسن نے کہا، 'ہمیں کبھی پاکستان میں اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ یہاں ہمیشہ اپنے گھر جیسا محسوس کیا ہے۔ جن معاملات کی وجہ سے دوریاں ہیں وہ سفارتی سطح کے ہیں اُن کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔'
بنگلہ دیشی ہائی کمیشن حکام کی مشکلات
سفارتی حلقوں میں اس معاملے کو بھی اُٹھایا گیا کہ بنگلہ دیش کے پریس اتاشی محمد اقبال حسین جو گزشتہ چار برس سے اسلام آباد میں تعینات ہیں، کے اہلخانہ چھ ماہ سے پاکستانی ویزہ کے انتظار میں ہیں لیکن اُن کو ویزہ جاری نہیں کیا جا رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ 'ہم ایک مذہب کے ماننے والے ہیں ہمارے تہوار ایک ہیں لیکن ہمارے تہواروں میں بھی ہمارے اہلخانہ ساتھ نہیں ہیں۔'
اقبال حسین نے مزید کہا، 'دفتر خارجہ کے سامنے بارہا معاملہ اُٹھایا گیا لیکن نہ جانے یہ سفارتی دوریاں کب ختم ہوں گی۔'
دو سال سے اسلام آباد میں تعینات بنگلہ دیش کے ڈیفنس اتاشی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ پاکستان میں خوش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 'اُن کے بچوں کے سکول میں بہت سے دوست بن گئے ہیں۔ ہمیں پاکستانیوں نے آج تک اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا۔ لیکن ہائی کمیشن میں ویزہ قونصلر نہ ہونا بہت سے مسائل جنم دے رہا ہے۔'
پاکستانی ہائی کمیشن حکام کو بنگلہ دیش میں کیا مسائل ہیں؟
سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش، پاکستان سے سفارتی تعلقات کی بحالی کی بات کرتا ہے لیکن پہلے اُسے اپنا رویہ بھی ٹھیک کرنا ہو گا۔
بنگلہ دیش کا بھارت کی جانب جھکاؤ پاک بنگلہ دیش تعلقات میں سرد مہری پیدا کرتا ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش کو اپنا برادرہمسایہ ملک سمجھتا ہے لیکن بنگلہ دیش نہ سارک میں پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور نہ کسی اور معاملے پر۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان نے سیدہ ثقلین کو بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر تعینات کرنے کی منظوری دی لیکن سات ماہ گزرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش نے ہائی کمشنر کی نامزدگی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پاکستان سے ہائی کمشنر کے لیے نیا نام مانگ لیا۔
بنگلہ دیش حکومت پاکستان دوست کیوں نہیں؟
بنگلہ دیش حکومت کو پاکستان سے یہ شکایت ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اورنیشنل پارٹی کی حمایت کرتا ہے اور عوامی پارٹی کو پسند نہیں کرتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اُن کا یہ ماننا ہے کہ ملکی سالمیت کے لیے تمام سیاسی جماعتیں برابر ہیں۔ پاکستان کے لیے بنگلہ دیش اہم ہونا چاہیے، کوئی ایک مخصوص سیاسی جماعت نہیں۔
جماعت اسلامی سے منسلک سات افراد جنہوں نے پاکستان کے حق میں آواز بلند کی اُن کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
بنگلہ دیشی سفارتی حلقوں کا موقف ہے کہ پاکستان کے حق میں بیانات پر اُن کو سزا نہیں دی گئی بلکہ اُن کے خلاف چارج شیٹ تھی جس میں قتل سمیت مختلف جرائم درج تھے۔ عام تاثر یہی ہے کہ بنگلہ دیش کی نو منتخب حکومت عوامی لیگ بھارت دوست ہے اور پاکستان کے لیے کوئی خاص نرم گوشہ نہیں رکھتی، لیکن مقامی میڈیا سے گفتگو میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے بیان دیا کہ بنگلہ دیش دو طرفہ تعلقات میں تلخی کے باوجود پاکستان کی مدد کرنے پر تیار ہے۔
انہوں نے کہا، ’’اگر پاکستان ہم سے مدد کی درخواست کرے گا تو ہم اپنے تجربات کے حوالے سے پاکستانی عوام کی فلاح اور دو طرفہ تعلقات میں بہتری لانے کے مقاصد کی خاطر، ان کی بھرپور مدد کریں گے۔‘‘
باہمی تعلقات میں بہتری کیسے لائی جائے؟
بنگلہ دیشی ہائی کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں میں ذاتی مقاصد دیکھنا بند کر دے تو ڈھاکہ حکومت اسلام آباد کی نومنتخب حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔