ہر ایک کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ آنکھیں اشک بار تھیں۔ کئی تو ایسے بھی تھے جنہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ دل رنجیدہ تھے، ماحول غم زدہ تھا۔ فلمی ستاروں کی کہکشاں تھی جس کی چمک دمک جیسے ماند پڑی ہوئی تھی۔ ہر کوئی غم کی تصویر بنا ہوا تھا۔
ہر نظر کفن میں ملبوس اس اداکارہ کی طرف تھی جس نے بھارتی فلموں میں کم لیکن معیاری، جذباتی اور پراثر اداکاری کر کے ہر کسی کو متاثر کیا تھا۔ کوئی اس خوبصورت اور پروقار اداکارہ کو ’ٹریجڈی کوین‘ کہتا تو کسی نے اسے پردہ سیمیں کی بے مثال جاذب نظر اداکارہ تسلیم کیا۔
انہوں نے مہ جبیں بانو کے نام سے کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور پھر جب ’مینا کماری‘ بنیں تو ایک عالم ان پر فدا ہوا۔ وہی مینا کماری جو ’بیجو باورا،‘ ’کوہ نور،‘ ’صاحب بی بی اور غلام،‘ ’آزاد،‘ ’دل اپنا اور پریت پرائی‘ اور ’پاکیزہ ‘ جیسی شہرہ آفاق فلموں کی ہیروئن بن کر دلوں پر حکمرانی کر گئیں۔ کیا ان کے لیے یہ اعزاز کم تھا کہ وہ 12 بار بہترین اداکارہ کے لیے فلم فئیر ایوارڈز میں نامزد ہوئیں اور چار مرتبہ سرخرو ہو کر ہر اداکارہ کے لیے آج تک مثال بن گئیں۔
لیکن اس وقت اس چمکتی دمکتی دنیا سے منہ موڑ کر اس راہ پر چل پڑی تھیں، جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ہوتی۔
مینا کماری کا آخری دیدار کرنے والوں کا تانتا بندھا تھا۔ اسی دوران ہلچل مچی کہ نرگس کی آمد ہو رہی ہے۔ ان کا مینا کماری سے گہرا یارانہ تھا اور دونوں پکی سہلیاں تصور کی جاتی تھیں۔ مینا کماری نرگس کو ’ باجی‘ کہہ کر مخاطب کرتیں اور دونوں گھرانوں کے خاندانی مراسم تھے۔ نرگس بوجھل قدموں اورنم آنکھوں کے ساتھ مینا کماری کے تابوت کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ آس پاس کھڑے لوگوں نے نرگس کو راستہ دیا۔
نرگس خاموش تھیں لیکن ان کی آنکھیں چغلی کھارہی تھیں کہ وہ اپنے غم کو سب سے پوشیدہ رکھنے کی ناکام کوشش کررہی ہیں۔ نرگس نے رندھی ہوئی آواز سے صرف یہ کہا، ’مینا موت مبارک ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ الفاظ ہر ایک کے لیے حیران کن تھے۔ جن تک یہ پہنچے انہوں نے چونک کر نرگس کو دیکھا، کچھ سوچ میں پڑ گئے تو کئی نے چہرے کے تاثرات سے خفگی کا اظہار کیا۔ مگر نرگس ان سب سے بے نیاز کچھ دیر تک وہاں رہیں اور پھر رخصت ہوگئیں۔ مینا کماری کے آخری سفر میں ہر کوئی نرگس کے ان الفاظ پر تنقید کررہا تھا۔ کسی کا یہ کہنا تھا کہ تعزیت کرنے کے بجائے مبارک دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ فلمی جرائد اور اخبارات نے بھی اس واقعے کو نمایاں انداز میں پیش کیا۔ اعتراض یہ ہو رہا تھا کہ اپنے وقت کی عظیم اداکارہ کی صرف 38 سال میں موت پر نرگس کے الفاظ کسی صورت زیب نہیں دیتے۔
نرگس پر تنقید کے نشتر برسنے شروع ہو گئے۔ مسالہ خبریں بنانے والے کچھ فلمی جریدے تو اس حد تک پہنچ گئے کہ نرگس کی مبارک کو پیشہ ورانہ رقابت قرار دیتے ہوئے دل کی بات لب پر آنے کی دہائی دینے لگے۔ نرگس جہا ں جاتیں، وہاں ان کے ان الفاظ کی بازگشت ضرور سنائی دیتی۔ نرگس کے قریبی صحافی جرات کر کے ان سے دریافت بھی کرتے تو ہ مسکرا کر بات ٹال جاتیں۔
نرگس کے ادا کیے ہوئے الفاظ ہی ان کے تعاقب میں لگے رہے۔ یہ تنازع شدت اختیار کرتا جا رہا تھا کہ موت پر بھلا کون مبارک باد دیتا ہے۔ اور پھر نرگس نے آخر کار خاموشی توڑ ہی ڈالی۔ اس واقعے کے تین مہینے بعد جون 1972 میں جب فلمی دنیا کے مشہور اردو جریدے نے مختلف اداکاروں سے مضامین سے تحریر کرائے تو اس میں نرگس کا خصوصی مضمون بھی شائع کیا گیا۔
نرگس نے مضمون میں مینا کماری کی درد بھری بیماری اور المیہ زندگی کے بارے میں تفصیل سے تحریر کیا۔ نرگس نے مضمون کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا کہ ’آپ کو موت مبارک ہو، یہ بات میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ آپ کی بڑی بہن آپ کی موت پر مبارک باد پیش کرتی ہے۔ آپ سے کہتی ہوں کہ اس دنیا میں میں پھر کبھی نہیں آئے گا۔ کیونکہ یہ آپ جیسے لوگوں کے لیے نہیں ہے۔‘
نرگس نے مزید لکھا کہ انہوں 1962 میں ریلیز ہونے والی فلم ’میں چپ رہوں گی‘ کی عکس بندی کے دوران بیشتر وقت مدراس میں یونٹ کے ساتھ گزارا۔ مینا کماری نے نرگس سے یہ بھی کہا کہ اگر وہ انہیں باجی کہیں تو اعتراض تو نہیں ہو گا، جس پر نرگس نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اس بات کی اجازت دی۔ ایک روز جب باہر کھانے کا ارادہ ہوا تو مینا کماری نے معذرت کر لی لیکن ساتھ ہی یہ پیش کش کی کہ وہ ان کے کم سن بیٹے سنجے اور نومولود بیٹی نمرتا کو ہوٹل میں رہ کرسنبھال سکتی ہیں۔ رات گئے واپسی ہوئی تو نرگس نے جھانک کر مینا کماری کے کمرے میں دیکھا تو سنجے اور نمرتا ان کے دائیں بائیں پرسکون نیند میں تھے۔ بچوں کی آیا نے یہاں تک بتایا کہ مینا کماری نے انہیں لوریاں بھی سنائیں۔
نرگس کے مطابق ایک رات انہوں نے مینا کماری کو ہوٹل کے سبزہ زار میں بے چینی اور اضطراب میں ٹہلتے ہوئے دیکھا۔ نرگس بھاگ کر ان تک پہنچیں، چہرے کی پریشانی بتا رہی تھی کہ مینا کماری ٹوٹ کر بکھری ہوئی ہیں۔ کوئی غم، کوئی تکلیف انہیں اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے۔ کوئی خوف ناک جنگ ان کے دل کو دماغ میں چل رہی ہے۔ نرگس نے ان کی کیفیت دیکھی تو محسوس کیا کہ وہ تھکاوٹ کا بھی شکار ہیں۔ جبھی انہوں نے مشورہ دیا کہ مینا تم آرام کیوں نہیں کرتیں۔
تب مینا کماری نے انتہائی درد بھرے لہجے میں جواب دیا کہ ’میری قسمت میں آرام کہاں۔ بس ایک بار ہی آرام کروں گی۔‘
نرگس کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ کمال امروہوی کے ساتھ ناکام ازوداجی زندگی گزارتے گزارتے مینا کماری مختلف ذہنی بیماریوں کا شکار ہوچکی تھیں۔ مینا کماری کو یہ بھی شکوہ تھا کہ کمال امروہوی کے سیکریٹر ی اور اسٹنٹ باقر علی ان کی نجی زندگی میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کرتے ہیں۔ ایک بار مینا کماری نے باقر علی کو ملازمت سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تو کمال امروہوی نے ان کی اس بات کو رد کر دیا۔ اس کے بعد دونوں میں دوریاں اور بڑھتی چلی گئیں۔
مینا کماری کی کثرت مے نوشی کی خبریں عام ہوئیں تونرگس کو فکر لاحق ہوئی لیکن مصروفیات کی بنا پر وہ ان سے ملاقات نہ کر سکیں۔ یہ وہ دور تھا جب مینا کماری، کمال امروہوی سے خفا ہو کر بہن کے پاس آکر رہنے لگی تھیں اور یہ فیصلہ کر چکی تھیں کہ اب دوبارہ لوٹ کر کمال امروہوی کے گھر نہیں جائیں گی۔
جب ان کا جگر کمزور ہونے لگا اور انہیں بمبئی کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو نرگس ان کی تیمارداری کے لیے پہنچ گئیں۔ انہوں نے مینا کماری کو صرف یہی کہا کہ وہ ناکام ازدواجی زندگی کی قید سے آزاد ہو چکی ہیں لیکن ایسی آزادی کا کیا فائدہ جب وہ خود کو مارنے پر تلی ہوئی ہیں؟
مینا کماری کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور پھر اس ملاقات کے بعد دو دن کوما میں رہنے کے بعد مینا کماری ہر درد، ہر دکھ اور ہر غم سے آزاد ہو گئیں۔
نرگس کے مطابق انہوں نے مینا کماری کی ہر تکلیف اور رنج کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ محبت میں ناکامی اور کسی پیار کرنے والے سہارے کی تلاش نے انہیں اندر ہی اندر گھلا دیا تھا۔ نرگس کے اس مضمون کے بعد کئی کو اس بات کا جواب مل گیا کہ انہوں نے مینا کماری کی موت پر انہیں مبارک باد کیوں دی تھی۔