یہ 1957 کی سہانی دوپہر تھی جب دلیپ کمار فلم ’مسافر‘ کے ایک منظر کو عکس بند کرانے کے بعد یونٹ کے ساتھ آرام کی غرض سے سستانے کے لیے بیٹھے تھے۔
قریب ہی موسیقار سلل چوہدری تھے، جو ہری کیش مکرجی کی بطور ہدایت کار بننے والی اس پہلی فلم کے مدھر گیت تخلیق کر رہے تھے۔ یوسف صاحب اپنی دھن میں کوئی گیت گنگنارہے تھے اور اس بات سے انجان تھے کہ موسیقار سلل چوہدری آنکھیں بند کیے انہیں بغور سن رہے ہیں۔
’مسافر‘ درحقیقت ایک ہی گھر میں مختلف اوقات میں رہنے والے کرایہ داروں کی کہانیاں پر مبنی تھی۔ جس میں شادی سے لے کر وفات تک کے معاملات کو مختلف خاندان کے ساتھ پیش کیا جارہا تھا۔ یوسف صاحب اپنے انداز میں لے سے لے ملا رہے تھے۔وہ جب چونکے جب موسیقار سلل چوہدری نے ان کی گلوکاری کی بے اختیار تعریف کی۔ زیر لب مسکراتے ہوئے یوسف صاحب یہی کہہ سکے کہ ہاں کبھی کبھار موڈ ہو تو سُر سے سُر ملا لیتے ہیں۔ وہ کسی طور بھی سلل چوہدری کے ذہن اور آنکھوں کو پڑھ نہ سکے جو کسی اور خیال سے روشن تھیں۔ اُن کے ذہن میں ’مسافر‘ کے ہی ایک گیت ’لاگی نہیں چھوٹی رام‘ تھا‘ جسے یوسف صاحب کی اس سریلی گلوکاری کو سننے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ پکے راگ پر مبنی یہ گیت یوسف صاحب کی آواز میں ہی ریکارڈ کرایا جائے۔
یوسف صاحب اس بات سے بےخبر تھے کیونکہ یہ وہ دور تھا جب فلموں میں اُن کے لیے پس پردہ گلوکاری محمد رفیع یا طلعت محمود کیا کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے خود یوسف صاحب گا رہے ہیں۔
موسیقار سلل چوہدری نے آخر کار اپنے دل اور ذہن میں کلبلانے والی بات یوسف صاحب کے گوش گزار کی تو انہوں نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور کانوں تک ہاتھ لے جاکر بولے کہ ’دادا رہنے دیں، میں اداکار ہی بھلا۔‘
لیکن سلل چوہدری ٹھان چکے تھے، انہوں نے باقاعدہ اعلان کردیا کہ یوسف صاحب لتا منگیشکر کے ساتھ جوڑی بنا کر فلم کا گیت گائیں گے۔ شہنشاہ جذبات انکار ہی کرتے رہ گئے مگر موسیقار سلل چوہدری کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔
سلل پہلی بار یوسف صاحب کی کسی فلم کے لیے موسیقی ترتیب دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود یوسف صاحب ان کی بہت عزت اور احترام کرتے تھے اور ان کے فن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ سلل چوہدری اگر ارادہ کرلیں تو پیچھے نہیں ہٹتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن یہاں اس سے بڑھ کر بات یوسف صاحب کی ان سے عقیدت اور احترام کی جس کے آگے وہ گلوکاری نہ کرنے کی اپنی خواہش کو دبا نہیں سکتے تھے۔ یوسف صاحب چاہتے تھے کہ جس طرح وہ فن اداکاری میں اپنی مثال آپ ہیں، اسی طرح نغمہ سرائی کریں تو اس میں بھی کوئی جھول یا خامی نہ ہو۔ اسی بنا پر انہوں نے سلل چوہدری سے مزید ریاض کرنے اور گلوکاری کے بنیادی رموز میں ماہر ہونے کی درخواست کی جسے موسیقار رد نہ کیا۔
ادھر لتا منگیشکر اس بات سے لا علم تھیں کہ جس گانے کی وہ کئی دنوں سے ریہرسل کررہی ہیں وہ انہیں کسی اور نہیں یوسف صاحب کے ساتھ ریکارڈ کرانا ہے۔ اسی دوران اڑتے اڑتے یہ خبر ان کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ وہ یکدم حیران ہو گئیں کہ سلل چوہدری نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ یہ گانا کوئی پیشہ ور اور باقاعدہ گلوکار ہی گنگنائے کیوں کہ ان کے دل میں خوف سما گیا تھا کہ کہیں یہ گیت ان کی شہرت کو نقصان نہ پہنچا دے۔
یہی نہیں، ایک اور بات یہ بھی تھی کہ لتا کو ڈر تھا ایک ناتجربہ کار گلوکار کے ساتھ گیت ریکارڈ کرانے میں نہ جانے کتنا وقت ضائع ہو جائے گا جس کی وجہ سے ان کے دیگر فلمی مصروفیات متاثر ہو سکتی تھیں۔ انہی تحفظات اور خدشات کا ذکر جب انہوں نے سلل چوہدری کے سامنے کیا تو انہوں نے حسب روایت مسکراتے ہوئے صرف یہ کہا کہ ’وہ دلیپ کمار ہے جو کام کرتا ہے وہ مختلف اور منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں مہارت بھی ہوتی ہے۔‘
اس پکے راگ والے گیت کی ریہرسل کئی دنوں تک جاری رہی۔ دلیپ کمار نے بڑی محنت کر کے گانے کی دھن سیکھی۔ ادھر لتا کے دل میں خلش تھی۔ انہوں نے اپنی کلاسیکی موسیقی کی تربیت کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے گانے کے دوران کئی سر ملا کر ایک ہی ماترے میں گا دیے۔ ظاہر ہے کہ دلیپ کتنی ہی مشق کر لیں، اس میدان میں لتا کے مقابلے میں طفلِ مکتب تھے، اس لیے وہ لتا کا ساتھ نہیں دے سکے۔
مشہور فلمی صحافی راجو بھارتن نے لکھا ہے کہ ریکارڈنگ کے دوران دلیپ کو محسوس ہوا جیسے لتا جان بوجھ کر مشکل انداز میں گا رہی ہیں، تاکہ ان کے سامنے دلیپ اناڑی لگیں۔
شاید لتا کے دل میں دس سال پرانی بات تھی۔ یہ واقعہ ہے 1947 کا جب دلیپ اور لتا دونوں بالی وڈ کی انڈسٹری میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ ایک دن دلیپ کی لتا سے ملاقات ہوئی تو دلیپ نے لتا کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، ’ان مہاراشٹریوں کے ساتھ ایک پرابلم ہوتا ہے، ان کے گانے سے دال بھات کی بو آتی ہے۔‘
لتا نے خود ایک بار بتایا کہ انہیں یہ بات اتنی بری لگی کہ اگلے دن سے انہوں نے سرگرمی سے اپنے لہجے کو بہتر بنانے پر کام شروع کر دیا اور ایک مولوی سے باقاعدہ اردو رسم الخط بھی سیکھا تاکہ ان کے لہجے میں شین قاف کی کوئی غلطی نہ رہ جائے اور وہ دلیپ کمار کو غلط ثابت کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ لتا کے اردو تلفظ پر آج تک کوئی انگلی نہیں رکھ سکا۔
معلوم نہیں لتا کے دل میں یہ بات تھی یا کچھ اور، بہرحال انہوں نے ’لاگی ناہیں چھوٹے راما‘ کی ریکارڈنگ میں اپنی آواز اور فن کے جوہر پوری طرح سے دکھائے۔ یہ بات دلیپ کو اتنی چبھی کہ ان دو عظیم فنکاروں میں اس کے بعد بول چال بند ہو گئی اور دونوں نے 13 برس تک آپس میں بات نہیں کی۔ پھر کہیں جا کر 1970 میں دونوں کی صلح ہوئی۔
دلیپ کمار نے اس کے بعد کبھی گلوکاری کی کوشش نہیں کی۔