جدید زمینی اور فضائی ذرائع آمد و رفت کے باوجود آج بھی دنیا میں دریاؤں کو تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ نہ صرف سستے ہیں بلکہ ماحول دوست بھی ہیں۔
جتنا ایندھن استعمال کر کے ایک کنٹینر کو سڑک کے ذریعے کراچی سے راولپنڈی لایا جا سکتا ہے اتنے ایندھن سے 40 کنٹینر دریائی راستے سے لائے جا سکتے ہیں۔ دریائی راستوں کی تعمیر بھی سڑکوں کی تعمیر سے 80 فیصد سستی ہے اور اس کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی بہت کم ہیں۔
اس وقت دریاؤں کے ذریعے تجارت کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف کارگو کشتیوں کے کرائے کی مد میں 20 ارب ڈالر سے زیادہ کی مارکیٹ ہے جبکہ چین نے تو اس میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں 1978 تک دریاؤں کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ ٹن سامان کی ترسیل ہو رہی تھی جبکہ 2018 تک یہ پونے چار ارب ٹن تک پہنچ چکی تھی جو کہ یورپی یونین اور امریکہ سے چھا گنا زیادہ ہے۔ آج چین نے 127000 کلومیٹر دریائی راستوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کر کے انہیں تجارت کے لیے قابل استعمال بنا لیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دریائی راستوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ نیویارک سے پہلے امریکہ کی سب سے بڑی بندرگاہ لوزیانہ تھی جب دریائے ہڈسن کو1825 میں اری کینال کے ذریعے دریائی راستوں میں بدلا گیا تو آنے والے سالوں میں نہ صرف نیویارک سب سے بڑی بندرگاہ بنی بلکہ نیویارک دنیا کا معاشی مرکز بھی بن گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اری کینال نہ ہوتی تو امریکہ شاید خانہ جنگی کے بعد کبھی متحدہ نہ ہوتا بلکہ کئی ریاستوں میں تقسیم ہوتا۔
دریائے سندھ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اہتمام 1835 میں پلانیٹ اور سیٹلائٹ نامی کشتیاں تجارتی بنیادوں پر چلائی گئی تھیں۔ جن کا اولین مقصد تو سٹریٹجک تھا مگر بعد ازاں کراچی اور ملتان کے درمیان ڈاک کی ترسیل بھی انہی کشتیوں کے ذریعے ہوتی رہی۔ 1858 سے 1870 تک انڈس فوٹیلا کمپنی کے تجارتی جہاز جھرک سے ملتان تک آتے تھے اور پھر آگے مزید دریائی راستوں سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعےسامان آگے پہنچایا جاتا تھا۔
1921 میں برطانیہ نے کا افغان حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تاکہ برطانیہ دریائے کابل کو تجارت کے لیے استعمال کر سکے۔ لیکن افغانستان کے ساتھ جنگوں کے بعد برطانیہ کو یہ کھٹکا لگ گیا کہ اگر دریائی راستے موجود ہوئے تو روس گرم پانیوں تک رسائی میں آسانی محسوس کرے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ برطانیہ نے نہ صرف دریائے کابل کو تجارتی بنیادوں پر استعمال نہیں کیا بلکہ مستقبل میں اس نے دریائی راستوں کو ترقی دینے کی بجائے ریلوے پٹریاں بچھا دیں اور انڈس فوٹیلا کمپنی کو نارتھ ویسٹرن ریلوے میں ضم کر دیا۔
قیام پاکستان کے وقت یہاں دریاؤں اور نہروں کی کل لمبائی 30 ہزار کلومیٹر تھی جنہیں تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا تھا مگر اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔ بالآخر 2017 میں حکومت پنجاب نے ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی جس کا مقصد پہلے مرحلے میں داؤد خیل سے اٹک تک کشتیاں چلانی تھیں اور بعد ازاں پورٹ قاسم سے نوشہرہ تک تجارتی جہاز چلانے تھے۔
کالا باغ میں جہاز رانی کی صنعت کا قیام اور دریائی سیاحت کا فروغ بھی اس کے مقاصد تھے مگر اس اہم منصوبے کے ساتھ کیا ہوا؟ اس حوالے سے ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ ڈویلپمنٹ کمپنی کے چیئرمین کمانڈر نعیم سرفراز نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم نے حکومت پنجاب کے ساتھ اٹک سے داؤد خیل تک پائلٹ پراجیکٹ کیا تھا جس پر 60 کروڑ روپے کی لاگت آئی تھی اس کے تحت ہم نے ایک پورٹ اور دو برتھیں بناکر دیں۔ کریو کے 50 لوگوں کی رہائشیں بنائیں۔ دو بڑی کشتیاں چلا کر ثابت کر دیا کہ سندھ میں کارگو کشتیاں چل سکتی ہیں۔ اس کے بعد اگلے مرحلے کو نگران حکومت نے روک دیا۔ عمران خان کی حکومت میں پلاننگ کمیشن کے ساتھ پراجیکٹ شروع کرنے پر کئی میٹنگز ہوئیں۔ بعد میں وزارت مواصلات نے اس کی ذمہ داری لے لی پھر پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت والے آ گئے کہ یہ ہمارا کام ہے۔
انہوں نے پائلٹ پراجیکٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ عمل درآمد کے لیے پہلے ایک فیڈرل اتھارٹی بنائی جائے جو پہلے واٹر ویز کے لیے الگ قوانین بنائے جس طرح سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کے لیے ہیں پھر وہ پراجیکٹ کو شروع کرائے۔ اس کے لیے ہم سے مشاورت ہوئی ہم نے اپنی تجاویز دے دیں مگر کرونا کا بہانہ بنا کر حکومت ابھی تک اتھارٹی کا مسودہ بھی پیش نہیں کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ اتھارٹی کے قیام کے بعد اس منصوبے پر عملدرآمد کی راہیں ہموار ہو جائیں گی۔ منصوبے پر ایم ایل ون سے آدھی لاگت آئے گی مگر اس کے اثرات زیادہ دوررس ہوں گے۔
ڈاکٹر حسن عباس جو کہ پاکستان کے آبی ذرائع کے حوالے سے ماہر گردانے جاتے ہیں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دریائے سندھ ایک شیر دریا ہے جس میں پانی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے اور گذشتہ 20 سالوں میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اس میں پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پھر یہ کشتی رانی کے لیے انتہائی موزوں بھی ہے کیونکہ اس میں چڑھائی زیادہ نہیں بلکہ چار ہزار فٹ فاصلہ طے کیا جائے تو ایک فٹ چڑھائی بنتی ہے جبکہ دنیا میں ان دریاؤں میں بھی کشتی رانی ہو رہی ہے جہاں سات سو فٹ کے بعدایک فٹ چڑھائی بنتی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ بیراجوں، پلوں اور ڈیموں کو کیسے عبور کیا جائے گا تو انہوں نے کہا کہ دنیا میں کشتی رانی بہت جدید ہو چکی ہے۔ آج سے سو سال پہلے ہی دنیا بیراجوں، پلوں اور ڈیموں سے کشتیاں گزر رہی تھی۔ لاکنگ گیٹ سسٹم کے ذریعے کشتیاں ان کو آسانی سے عبور کر لیتی ہیں۔ دریائے سندھ کے ذریعے تین ممالک کے کئی شہر بحیرۂ عرب میں ایک دوسرے سے جڑ سکتے ہیں اور اگر ایساہو جائے تو پانچ کروڑ لوگوں کو براہ راست فائدہ مل سکتا ہے۔
مغربی چین اور وسطی ایشیا کے ممالک بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 60 ارب ڈالر سالانہ کا ہے جس میں سے 45 ارب ڈالر کا انحصار نہری نظام پر ہے۔ امریکہ میں صرف دریائے مسی سپی کے ذریعے جو تجارت ہو رہی ہے اس کا حجم 70ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اگر آپ جھرک سے بحیرہ عرب تک 200 کلومیٹر کی نہر بنا لیں تو سمندر سے اٹک اور جلال آباد تک با آسانی تجارتی کشتیاں چلائی جا سکتی ہیں۔ جھرک میں انگریزوں نے اس وقت دنیا کاسب سے بڑا ان لینڈ نیوی گیشن ٹرمینل بنایا تھا جو اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ان لینڈ نیوی گیشن سسٹم بننے کے بعد افغانستان کا شہر جلال آباد سنگا پور اور راٹر ڈیم جیسی حیثیت اختیار کر سکتا ہے کیونکہ تمام وسطی ایشیا کی تجارت اسی راستے سے ہو گی۔
جھرک سے بحیرہ عرب تک نہر کھودنے پر دو ارب ڈالر سے زیادہ لاگت نہیں آئے گی مگر جواب میں آپ کو سالانہ اربوں ڈالر کی آمدن ہو گی۔ کراچی سے جلال آباد تک ایک کنٹینر کا کرایہ چار سے پانچ ہزار ڈالر ہے جبکہ اگر یہی تجارت سڑک کی بجائے دریائی راستے سے ہو تو لاگت چار سو ڈالر فی کنٹینر تک کم ہو سکتی ہے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ایک جائزے کے مطابق 2025 تک پاکستان میں سڑکوں کے ذریعے تجارتی سامان کی ترسیل میں چار گنا اضافہ ہو جائے گا، جبکہ پاکستان کے دریائی راستوں کے ذریعے اس سے 16 گنا زیادہ کارگو کی ترسیل ہو سکتی ہے جبکہ مزید یہ کہ دریائی راستے 70 گنا زیادہ محفوظ ہیں۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ دریائی راستوں کو اگر ترقی دی جائے تو پاک چین اقتصادی راہداری کو بھی نئی جہتیں مل سکتی ہیں۔