یہ 2567 عیسوی ہے۔ بلندو بالا عمارتوں کے بیچوں بیچ ایک دریا بہہ رہا ہے۔ رات کو پانی پر پڑنے والے روشنیوں کے عکس نے یہاں گویا قوس قزح بکھیر دی ہو۔ درمیان میں چلتی کشتیاں گویا نور پر رواں دواں ہوں۔
دریا کے اطراف ’واکنگ ٹریکس‘ ہیں جن کے گرد دنیا جہان کے کھانوں کے ریستوران موجود ہیں۔ سیاحوں کا جم غفیر امڈ آیا ہے۔ ساتھ ہی مشہور عالم تھیئٹر ہیں جن کے باہر داخلے کے لیے قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ لیکن ان تھیئٹروں میں کوئی ڈراما نہیں دکھایا جاتا بلکہ یہاں وہ ٹائم مشین لگی ہے جو ہزاروں لاکھوں سال پہلے کے منظروں کو وقت سے کشید کر کے لوگوں کو ایسے دکھا دیتی ہے جیسے یہ منظر ابھی ابھی وقوع پذیر ہو رہے ہوں۔
انہیں دیکھ کر لوگوں کو گمان گزرتا ہے کہ جیسے وہ جوراسک پارک میں آ گئے ہوں، جہاں کسی منظر میں ڈائنوسار گھومتے نظر آتے ہیں۔ پھر منظر بدلتا ہے تو ڈائنوساروں کی جگہ شیر، ہاتھی اور گینڈے لے لیتے ہیں اور ان سے بچتا بچاتا غاروں میں دبکا بیٹھا، پتھر کے دور کا انسان، جو کبھی خشک میوے اکھٹے کرتا نظر آتا ہے اور کبھی اچانک کسی شیر کے سامنے آنے پر درختوں پر کود جاتا ہے۔
یہ نیویارک کا دریائے ہڈسن ہے نہ ہی لندن کا دریائے ٹیمز، نہ ہی وینس ہے اور نہ ہی استنبول بلکہ 2567 کا سواں سٹی ہے جو گندھارا کا دارالحکومت ہے اور جسے دریائے سواں کو دوبارہ زندہ کر کے ایک سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ دریائے جہلم کا رخ موڑ کر پانی کا ایک حصہ دریائے سواں میں ڈالا گیا ہے۔ سواں سٹی آج کی دنیا میں سیاحت میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان کے آبا و اجداد نے زندگی کا وہ سفر شروع کیا تھا جو لاکھوں سال گزرنے کے باوجود رواں دواں ہے۔ یہاں تھیئٹروں میں لگی ٹائم مشینیں وہ مناظر ایسے براہ راست دکھاتی ہیں جیسے دنیا کرکٹ میچ اپنے ٹی وی پر دیکھتی ہے۔
مستقبل کی ایک خیالی جھلک کے بعد ہم واپس اپنے دور میں آ جاتے ہیں۔ یہ 2020 ہے ابھی کوئی ایسی سکرین ایجاد نہیں ہوئی جہاں ماضی کے مناظر دیکھے جا سکیں، لہٰذا فرض کر لیتے ہیں کہ دریائے سواں کا کنارہ جہاں آج کل ڈی ایچ اے ون راولپنڈی ہے، ٹھیک اسی جگہ آج سے کم و بیش 20 لاکھ سال پہلے دریا ایک نیلگوں جھیل میں گررہا ہے، اوپر ہمالہ کے برف پوش پہاڑ ہیں جو سارا سال برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ موسم سال کے چوتھائی حصے سے بھی کم عرصہ معتدل رہتا ہے جس میں اس جھیل کا بنیادی کردار ہے کیونکہ ارد گرد گھنا جنگل ہے جس میں موجودہ ہاتھی سے دوگنا بڑے ہاتھیوں، شیروں اور گینڈوں سمیت خونخوار جانوروں کا راج ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دریا کے کنارے غاریں ہیں جن میں ایک ایسا قدیم انسان بستا ہے جس کے جسم پر گھنے بال ہیں اور کمر میں ایسا خم ہے کہ درخت پر بندروں کی طرح چڑھ جاتا ہے مگر جب سامنے سے شیر آ جائے تو سیدھا کھڑا ہو کر اسے بھاری بھرکم پتھر دے مارتا ہے۔ یہ انسان ایک قبیلے کی شکل میں انہی غاروں میں جنم جنم سے رہ رہا ہے۔ خوراک کی تلاش میں غاروں سے نکلتا ہے، مقدور بھر خوراک مل جائے تو دوبارہ انہی غاروں میں چھپ جاتا ہے۔ خوراک کیا ہے پھل، خشک میوے، شہد اور پیاس بجھانے کے لیے غار کے دہانے پر موجود چشمہ۔
ان غاروں سے دور ایسے اور کتنے قبیلے آباد ہیں کسی کو کچھ خبر نہیں اور نہ ہی یہ اپنی خوراک کے علاوہ کسی خبر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ ساری معلومات ہم تک ییل یونیورسٹی کے معروف ماہر آثار قدیمہ جی ای لیوس نے پہلی مرتبہ 1910 میں پہنچائی تھیں جنہوں نے یہاں پر ایسے فوسلز دریافت کیے جو ایک کروڑ سال سے زیادہ قدیم ہیں۔ یہاں پتھروں کے ایسے اوزار بھی ملے جو 20 لاکھ سال تک پرانے ہو سکتے ہیں، اور ممکنہ طور پر انہیں جدید انسان سے پہلے آنے والے انسان نما جانوروں نے بنایا تھا۔
1928 میں جیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ ڈاکٹر ڈی این واڈیا نے بھی کھدائیاں کیں اور انہیں بھی یہاں سے پہلے پتھر کے زمانے کی اشیا ملیں۔ دریائے سواں کی تہذیب کے بارے میں اٹک کے گزیٹیئر 1930 میں لکھا ہے کہ دریائے سواں کے کنارے ڈھوک پٹھان میں پتھر کے اوزار ملے ہیں جن میں پتھر کے بنے چاقو، چھریاں، سکریپر اور کلہاڑیاں شامل ہیں۔ ایسے ہی اوزار فرانس میں بھی ملے ہیں جو 40 ہزار سال پرانے ہیں۔
راجہ عارف منہاس اپنی کتاب ’پاکستان کے آثار قدیمہ‘ کے صفحہ 12 پر دریائے سواں کی وجہ تسمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہاں ایک جھیل تھی جو دریائے شوالک کے باعث یہاں وجود میں آئی تھی۔ طویل عرصے بعد پانی خشک ہوا تو مرتفع نکل آیا۔ اس کے بیچوں بیچ گزرنے والے دریا کو شوالون کہا جانے لگا جس کو یونانیوں نے شوشماس اور آریاؤں نے شوشمان بنا دیا جس کے معنی خوبصورت اور دلکش کے ہیں، جس سے بنتے بگڑتے یہ سواں ہو گیا ہے۔
تقریباً اڑھائی سو کلومیٹر لمبا دریائے سواں اسلام آباد ایکسپریس وے پر کاک پل کے نیچے سے گزرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کو جدا کرتے ہوئے آگے کا سفر جاری رکھتا ہے۔ اس کا سرچشمہ پتریاٹہ مری کے قریب ہے لیکن اگر گوگل میپ کو غور سے دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ کبھی اس کا سرچشمہ کشمیر کے بلند وبالا پہاڑ تھے جسے آج دریائے جہلم کہتے ہیں کبھی وہ کوٹلی ستیاں یا پھر کہوٹہ سے ہوتا ہوا سواں میں گرتا تھا مگر بعد میں آنے والے زلزلوں نے دریائے جہلم کا رخ موڑ دیا جس کے بعد دریائے سواں ایک ندی کی صورت رہ گیا۔
اس استدلال کی ایک وجہ اس کی تہہ میں سرخ، سبز اور سنگ مرمر کے پتھروں کا ملنا ہے جو مری کے ریتلے پتھر کے پہاڑوں میں نہیں ملتے بلکہ دریائے نیلم اور جہلم میں ملتے ہیں۔ راولپنڈی کے گزٹیئر 1893ء میں لکھا ہے کہ ’دریائے سواں نرڑ کی پہاڑیوں کو کاٹتا ہوا ایک میل لمبا اور حیرت انگیز چٹانی غار بناتا ہے جس کے مشرقی سرے پر پھروالہ کا قدیم قلعہ آج بھی دکھائی دیتا ہے، یہ کھائی کہوٹہ کو راولپنڈی سے الگ کرتی ہے اس کے بعد دریا جنوب مغرب کی طرف مڑتا اور تقریباً اسی سمت چلتا ہوا فتح جنگ اور پنڈی گھیب تحصیلوں کو عبور کرتا ہوا مکھڈ کے نیچے دریائے سندھ میں گر جاتا ہے۔‘
حیرت کی بات ہے کہ اس گزٹیئر کو لکھے ہوئے کم و بیش 130 سال ہو چکے ہیں لیکن آج پھروالہ قلعے کے سامنے جہاں دریا گزرتا ہے وہاں کوئی سرنگ نہیں البتہ چٹانوں کی شکست و ریخت اور دریا کی تنگی یہ ضرور سوال اٹھاتی ہے کہ کیا کبھی اپنے وقت کا عظیم دریا اسی تنگ راستے سے گزرتا تھا؟
سواں کی تہذیب جسے آج پوٹھوہار کی تہذیب کہا جاتا ہے اس کا ابتدائی نام ’لیموریا‘ تھا، پھر ’پاتال‘ بھی رہا۔ دراوڑوں نے اسے ملہوا اور آرین نے بھرت ورش کا نام دیا۔ تاشقند سے آنے والے تک شک قبیلے نے اسے ناگ دیش اور کوشل قبیلے نے پنچال کا نام دیا۔ آرین کی کتاب وشنو پوران میں اسے پاتال کہا گیا ہے جو انتہائی سرسبز علاقہ تھا جس کے مکین چاند کی پوجا کرتے تھے جن کے مہینے چاند کی مختلف اشکال پر مبنی تھے۔
معروف یونانی مورخ ہیروڈوٹس جس کا عہد 425 سے 484 قبل مسیح کا ہے، وہ اپنی کتاب میں دریائے سواں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’دریائے شوشماں کے کنارے ایسے درخت ہیں جن پر اُون کے پھول آتے ہیں۔‘
سنسکرت کی قدیم ترین کتاب رگ وید میں بھی سواں کو شوشماں، کابل کو کبھا اور سندھ کو سندھو لکھا گیا ہے۔
سوانین کلچر کا نام اسے 1930 میں اس وقت دیا گیا جب جرمن ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ڈی ٹیرہ نے موجودہ سواں کیمپ مورگاہ، پنڈی گھیب، میال، نرگئی، سہالہ، کہوٹہ، ادھوال اور گوجرخان سے ملنے والے فوسلز اور انسانی ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو اسے ابتدائی پتھر کا زمانہ کہا۔
ٹی ٹی پیٹرسن اور ایچ جے ایچ ڈرمنڈ نے بھی بعد ازاں اس کی تائید کی۔ ڈاکٹر ٹیرہ نے آگے چل کر اسے برفانی عہد کا حصہ بھی قرار دیا جو 30 لاکھ سال قبل تھا۔ میال آئل فیلڈ سے ملنے والی جلی ہوئی ہڈیاں اور پتھر کے اوزار 12 لاکھ سال پرانے ہیں۔
اس علاقے میں جنگلی حیات کی بھی بہتات تھی اور یہاں دریا کے کنارے سے ہرن، ذرافے، گینڈے اور مگرمچھ کے قدیم فوسلز بھی ملے ہیں، جو پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری اسلام آباد میں محفوظ کیے گئے ہیں۔
سواں کے پانیوں نے پھر سات ہزار سال قبل مسیح کا مہر گڑھ بھی دیکھا، پانچ ہزار سال پہلے کا موہنجو داڑو اور ہڑپہ بھی دیکھا، وسطی ایشیا سےآنے والے آریاؤں کے قافلوں کو ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح ہندوستان میں پھیلتے پھولتا دیکھا، تین ہزار سال پہلے گندھارا کی تہذیب کو اپنے دامن میں پھولوں کی طرح سجایا، پھر اس تہذیب کو سفید ہنوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوتے بھی دیکھا۔ بعد کی تاریخ میں درج ایک ایک باب کی گواہی بھی سواں سے لی جا سکتی ہے۔
انگریز دور میں دریائے سواں کا پانی اتنا شفاف تھا کہ سرکار یہاں کی ریت سے سونا نکالنے کا لائسنس جاری کرتی تھی۔ انگریز خاندانوں کی سواں میں پکنک مناتے تصویریں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
مگر قدیم ترین تہذیبوں کا مسکن یہ دریا اب ایک گندے نالے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کا شفا ف پانی اسلام آباد میں واقع سملی ڈیم میں روک لیا جاتا ہے جسے آلودہ کرنے کے بعد دوبارہ سواں کی نذر کر دیا جاتا ہے۔
جہاں لاکھوں سال پہلے انسان نما جانور رہتا تھا آج وہاں دنیا کی جدید ترین آبادیاں ہیں مگر افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ان آبادیوں کے معمار اور مکین اس عظیم تاریخ سے نا آشنا ہیں جس کی گواہی دریا کی ریت کا ایک ایک ذرہ بھی دیتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ان آبادیوں کی معمار یہاں پر سوانین انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل ریسرچ سینٹر کی بنیاد رکھیں۔ دریا کے اردگرد وینس یا سان انٹونیو کی طرح کے واک ویز بنائیں، جہاں تختیوں پر اس تاریخ کے نقش کندہ ہوں جو دنیا کی چند ہی جگہوں کے حصے میں آئی ہے۔ جو بھی راولپنڈی اسلام آباد آئے وہ ایک شام منانے یہاں ضرور آئے۔