سرمایہ کار نے ایک لمبی جمائی لی، چہرے پر ناگواری اور بوریت کے آثار نمایاں تھے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ انہیں شیکھر کپورکی قصہ گوئی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
وہ کرسی پر کئی بار پہلو بدل کر’باڈی لینگوج‘ سے پیغام دے رہے تھے کہ انہیں اس کہانی میں کوئی کشش نہیں ہے لیکن شیکھر کپور نے بھی ہمت نہ ہاری۔ ان کے قریب بیٹھے پروڈیوسر دیوی دت نے اندازہ لگا لیا تھا کہ سرمایہ کار کسی بھی وقت مشہور فلمی مکالمے ’ملاقات کا ٹائم ختم ہوا‘ ادا کر کے دونوں کو کمرے سے باہر کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔
دیوی دت نے ہی شیکھر کپور کو اس ملاقات کے لیے راضی کیا تھا اور وہ بھی اس لیے کیونکہ انہوں نے ایک وقت میں شیکھر کپور سے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی وہ ہدایت کاری کا ارادہ کریں گے تو وہ ان کی اس تخلیق کو پروڈیوس کریں گے۔ دونوں اس وقت ایک ایسے سرمایہ کار کے سامنے تھے جو رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتا تھا، مقصد صرف یہ تھا کہ دونوں اس بڑے کاروباری شخص کو نئی فلم کی سرمایہ کاری کے لیے راضی کریں۔
دیو آنند اور وجے آنند کے بھانجے شیکھر کپور لندن میں چارٹر اکاؤنٹنٹ کی بہترین نوکری کر رہے تھے کہ نجانے کیسے ہیرو بننے کا خبط سوار ہوا کہ ملازمت چھوڑ چھا ڑ کر بھارت آ پہنچے۔ دیو آنند کو ان کے اس شوق کا علم ہوا تو انہوں نے فلم ’عشق عشق عشق‘ میں شیکھر کپور کا یہ ارمان پورا کر ڈالا۔
دو تین فلموں میں ہیروئنز کے آگے پیچھے بھاگتے بھاگتے شیکھر کپور آخر کار اکتا ہی گئے۔ ارادہ کر لیا کہ اب اداکاری نہیں ہدایت کاری کریں گے۔ دیوی دت کو اس بارے میں بتایا گیا تو اس فلمی منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔ شیکھر کپور نے ایک کہانی لکھی، جو دیوی دت کو بھی پسند آئی۔ مزید سرمائے کے لیے دونوں بمبئی کے بڑے ریئل اسٹیٹ تائی کون کے پاس آئے تھے۔ جہاں شیکھر کپور انہیں کہانی سنانے کی جستجو میں تھے۔ یہ قصہ 1982 کے وسط کا ہے۔
شیکھر کپور نے محسوس کر لیا تھا کہ ان کی سنائی ہوئی روایتی فارمولا فلمی کہانی اب اس سرمایہ کار کے اعصاب پر بوجھ بنتی جا رہی ہے، جن کے چہرے کے تاثرات اب اور ناگواری میں بدل چکے تھے۔ یہ اشارہ تھا کہ شیکھر اور دیوی دت کو جوصرف 15 منٹ ملاقات کے لیے دیے گئے تھے، وہ ضائع ہونے کے قریب ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تبھی شیکھر کپور نے دیکھا کہ متوقع سرمایہ کار کی میز اور ریک میں بچوں کی فریم کی ہوئی کئی تصاویر آویزاں تھیں۔ جو ممکنہ طور پر ان کے بچوں کی ہی ہوں گی۔ اس سے پہلے کہ یہ سرمایہ کار، شیکھر اور دیوی دت سے معذرت کرتے، شیکھر کپور کے ذہن میں ان تصاویر کو دیکھ کر امریکی مصنف ارچ سیگل کا معصوم بچے کے گرد گھومتا ہوا جذباتی ناول ’مین، وومن اینڈ چائلڈ‘ کا خیال آیا۔ انہوں نے چند دنوں پہلے پڑھا تھا اور اسی ناول پر اسی نام سے ہالی وڈ میں فلم بھی بن چکی تھی۔
شیکھر کپور نے کمال ہوشیاری اور ذہانت سے اپنی بنی بنائی کہانی کو درمیان میں چھوڑا اور ناول کی داستان کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ بیان کرنا شروع کیا۔ شیکھر کپور جوں جوں کہانی سناتے جارہے تھے۔ چند لمحے قبل انہیں کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھنے والا سرمایہ کار اب گہری دلچسپی کے ساتھ شیکھر کپور کو سن رہا تھا۔
ادھر پروڈیوسر دیوی دت، شیکھر کپور کو کرسی کے نیچے سے پیر مار کر اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ یہ کہانی کب اور کیسے گھڑی؟ ان اشاروں سے لاپروا اور بے نیاز ہو کر شیکھر بولے چلے جا رہے تھے۔ سرمایہ کار نے زور دار تالی بجائی تو شیکھر کپور اور دیوی دت کی جان میں جان آئی۔ جنہوں نے بے ساختہ کہا کہ وہ اس فلم کے لیے ضرور سرمایہ لگائیں گے۔
کمرے سے باہر نکلتے ہوئے دیوی دت نے پوچھ لیا کہ یہ نئی کہانی کہاں سے آ گئی؟
جس پر شیکھر کپور کا کہنا تھا کہ بچوں کی تصاویر ہی دیکھ کر انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ موصوف بچوں سے بہت محبت اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ جبھی انہوں نے جو ناول پڑھا تھا، جس میں بچے کے جذبات اور احساسات کو بیان کیا تھا۔ اسی کی کہانی سنا دی اور یوں شہرہ آفاق فلم ’معصوم‘ کا ابتدائی پلاٹ فائنل ہو گیا۔
سرمائے کی یقین دہانی کے بعد شیکھر کپور نے ’معصوم‘ پر کام کرنا شروع کیا۔ مرکزی کرداروں کے لیے نصیر الدین شاہ اور شبانہ اعظمی کا انتخاب ہوا۔ نصیر الدین شاہ نے اس فلم میں محض اس لیے کام کیا کیونکہ وہ ہدایت کاری میں نو وارد شیکھر کپور کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ اسی فلم کے ذریعے ارمیلا ماتونڈکر اور جگل ہنس راج نے بطور چائلڈ سٹارز فلمی دنیا میں قدم رکھا۔
ابتدا میں شیکھر کپور چاہتے تھے کہ سکرین پلے جاوید اختر لکھیں لیکن انہوں نے بھاری معاوضہ طلب کیا تو گلزار صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جنہوں نے نہ صرف اسکرین پلے بلکہ گانے بھی لکھ دیے۔
موسیقار راہل دیو برمن نے ’معصوم‘ کے لیے دل کو چھو لینے والی موسیقی ایسی ترتیب دی کہ آج تک اس گیت ’تجھ سے ناراض نہیں زندگی،‘ ’آ جی حضوراس قدر‘ اور ’دو نینوں کی ایک کہانی‘ سبھی کے لبوں پر بے اختیار آ جاتے ہیں۔ بات کی جائے ’معصوم‘ کے اس گانے کی جو بچوں کا ترانہ سمجھا جاتا ہے تووہ ’لکڑی کی کاٹھی‘ ہے، جسے تین بچوں وینتا مشرا، گوری بپت اور گرپیت کور نے کمال خوبی سے گایا۔
جب شیکھر کپور نے اس فلم کا ٹرائل تقیسم کاروں کو دکھایا تو کئی کا خیال تھا کہ عجیب فلم ہے، نہ کوئی ولن نہ مار دھاڑ ہے۔ ان کے خیال میں یہ باکس آفس پر بری طرح پٹ جائے گی، لیکن شیکھر کپور پرامید تھے۔
1983 میں جب ’معصوم‘ سنیما گھروں کی زینت بنی تو اپنی منفرد اور اچھوتی کہانی، اداکاروں کی غیر معمولی اداکاری، بالخصوص چائلڈ سٹار جگل ہنس راج کی فطرت سے قریب تر اداکاری، گیتوں اور بہترین ڈائریکشن کی بنا پر اسے خلاف توقع پذیرائی ملی۔ مقبولیت اور پذیرائی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اگلے برس ہونے والے فلم فئیر ایوارڈز میں ’معصوم‘ نے آٹھ نامزدگیاں اپنے نام کے ساتھ چمکائیں اور پانچ میں کامیابی بٹوری۔
ان میں بہترین کریٹک فلم، بہترین اداکار، بہترین موسیقار، نغمہ نگار اور پس پردہ گلوکارہ کے ایوارڈز شامل ہیں۔ آرتی مکرجی کو ’دو نینوں کی ایک کہانی‘ پر بہترین گلوکارہ کا ایوارڈ ملا۔ یہ گیت سننے کے بعد ابتدا میں ایسا لگتا ہے جیسے یہ آشا بھونسلے نے گایا ہو۔
بطور ہدایت کار شیکھر کپور کا پہلا تجربہ کامیاب رہا تھا، جس نے انہیں بالی وڈ میں قدم جمانے کا موقع دیا۔ ’معصوم‘ کے بعد انہوں نے بچوں کی ہی کہانی کے گرد گھومتی ایک اور فلم ’مسٹر انڈیا‘ بھی بنائی جس نے کامیابی اور کامرانی کی نئی مثالیں قائم کیں۔
شیکھر کپور کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس وقت سرمایہ کار کے کمرے میں بچوں کی تصاویر اور اس کی نفسیات کو نہ پرکھ پاتے تو ممکن تھا کہ وہ مایوس اور ناکام ہو کر واپس لندن جا کر کسی کمپنی کے لیے حساب کتاب کی جوڑ توڑ کر رہے ہوتے۔