فلم کا ٹرائل شو کا اختتام ہوا تو وہاں موجود کئی اداکاروں اور تقسیم کاروں کی تالیوں کا شور تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
عام طور پر ٹرائل شو تقسیم کاروں کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ وہ فلم دیکھ کر اُسے خریدنے میں اپنی دلچسپی ظاہر کریں۔ ساتھ ہی مختلف شہروں کے لیے اس کے حقوق بھی حاصل کریں جسے فلم پسند آتی ہے وہ منافع بخش سرمایہ کاری تصور کرتے ہوئے اس کے زیادہ سے زیادہ پرنٹ وصول کر کے مختلف سنیما گھروں میں سجا دیتا ہے۔
اس فلم کی کہانی ایکشن اور ایڈونچر سے بھری تھی، وہیں کلائمکس جذباتی اور المیہ تھا۔ جبھی کچھ حساس دل رکھنے والوں کی آنکھوں سے آنسوبھی بہنے لگے تھے۔ ایسے میں امجد خان کے برابر بیٹھے موہن مکی جانے کی آنکھیں نم تھیں۔ امجد خان نے ان کے کندھے پرہاتھ رکھ کر حوصلہ دیا، تب انہوں نے دیکھا کہ ان کے اس ساتھی کی آنکھیں توضرورت سے زیادہ اشکبار ہیں۔
انہیں حیرت بھی ہوئی کہ فلم میں ان کے ساتھ کام کرنے والا یہ اداکار اس قدر جذباتی اور حساس بھی ہو سکتا ہے۔ اس نم دیدہ اداکار کی اس کیفیت سے قریب بیٹھے امیتابھ بچن اور دھرمیندر بھی حیران اور پریشان ہوئے۔ موہن مکی جانے جب سب کی نگاہوں میں آنے لگے تو برق رفتاری کے ساتھ نشست سے اٹھے اور ہال سے نکل گئے۔
چند لمحے بعد جب جمگھٹا ذرا کم ہوا تو موہن مکی جانے فلم کے ہدایتکار رمیش سپی کے دفترمیں اُن کے سامنے بیٹھے تھے۔ ’سنا ہے تم رو رہے تھے؟‘ رمیش سپی نے پوچھا تو موہن کی آواز جیسے اُ ن کے گلے میں پھنس ہی گئی۔
بڑی مشکل سے اپنی تمام تر توانائی اکٹھی کرکے انہوں نے گلوگیر آواز میں بولنا شروع کیا ’رمیش جی۔ ۔ فلم میں تو میرا کردار کچھ ہے ہی نہیں۔ میں تو جونئیر آرٹسٹ بن کر رہ گیا ہوں۔‘
رمیش سپی جو ابھی تک خاصے سنجیدہ تھے، اس جواب پر مسکرا دیے۔ چند لمحوں تک موہن مکی جانے کو دیکھتے رہے۔ جو ان کی بہت جلد نمائش پذیر ہونے والی فلم ’شعلے‘ میں ’سامبھا ‘ کا کردار ادا کر رہا تھا اور اسے لوگ ان کے اصل نام کے بجائے میک موہن سے شناخت کرتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر شکوہ تھا۔ اس سے پہلے رمیش سپی کچھ بولتے، میک موہن نے پھر غم زدہ لہجے میں کہا، ’میں تو آپ کی ’شعلے‘ میں ایکسٹرا لگ رہا ہوں۔ میری تو گزارش ہے کہ آپ میرا کردار ہی فلم سے کاٹ دیں۔ جس طرح میرے اور سین مووی سے نکالے گئے ہیں اسی طرح جو رہ گئے ہیں ان کا بھی صفایا کر دیں، کم از کم اس طرح میر کیرئیر تو متاثر نہیں ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ فلم ’شعلے‘ سے پہلے میک موہن کم و بیش بیس بائیس فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ان فلموں میں جہاں مثبت کردار تھے وہیں منفی بھی۔ ان میں حقیقت،‘ زنجیر،‘ آیا ساون جھوم کے،‘ ’شاگرد‘ ہیرا پنا،‘ ’رفوچکر‘ ’کسوٹی‘ اور ’مجبور‘ نمایاں تھیں۔
فلم نگری سے 60 کی دہائی سے وابستہ تھے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ موہن نے تقسیم ہند سے کوئی نو سال پہلے کراچی میں آنکھ کھولی اور پھر پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے پہلے لکھنو اور پھر بمبئی میں بس گیا۔ میک کی بھی خواہش تھی کہ وہ کرکٹر بنیں لیکن بہت جلد انہیں احساس ہو گیا کہ یہ شعبہ ان کے لیے مناسب نہیں۔ شکل و صورت سے وہ اداکار تو نہیں لگتے تھے لیکن اپنی اسی خامی کو پس پشت ڈالنے کے لیے انہوں نے اداکاری کی باقاعد ہ تربیت حاصل کی اور آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ چہرے کے بنتے بگڑے تاثرات میں مہارت حاصل کی۔
ایسے میں ان کی سنیل دت سے ملاقات ہوئی۔ جنہوں نے ان کی رسائی چیتن آنند تک کرائی۔ جن کی وہ کئی فلموں میں اسسٹنٹ بھی رہے۔ کیمرے کے پیچھے رہنے والے میک دیکھتے ہی دیکھتے اداکاری بھی کرنے لگے اور پھر جب انہیں 1973میں ’شعلے‘ میں کاسٹ کیا گیا تو وہ خاصے مطمین اور مسرور تھے۔
میک موہن نے کوئی ڈیڑھ دو سال تک اس فلم کی عکس بندی میں حصہ لیا۔ وہ دیگر اداکاروں کے ساتھ منہ اندھیرے اٹھ کر اس فلم کی عکس بندی میں حصہ لیتے۔ ’شعلے‘ میں گبر سنگھ کے وہ دست راست تھے، جنہیں مشکل وقت میں وہ کئی بار بچا چکے تھے۔ سٹار کاسٹ اور بڑے پروڈکشن کی اس فلم کو دیکھتے ہوئے میک موہن کو یقین تھا کہ یہ فلم اِن کے کیریئر کا رخ بدل کر رکھ دے گی۔ لیکن جب انہوں نے فلم کا ٹرائل دیکھا تو وہ اپنا دل مسوس کر رہ گئے۔ کل ملا کر ان کے صرف چار یا پانچ مناظر تھے۔ جس نے انہیں اس قدر غمگین کردیا تھا کہ وہ آنسوؤں پر ضبط کے بندھن نہ باندھ سکے۔ باقاعدہ ہچکیاں لیتے ہوئے اب رمیش سپی سے التجا کررہے تھے کہ ’شعلے‘ سے ان کے تمام تر مناظر نکال دیں۔ انہیں اس فلم کا حصہ نہ بنائیں۔
ہدایت کار رمیش سپی نے ایک بار مسکرا کر میک موہن کو دیکھا۔ دونوں ہاتھ سر پر لے جاتے ہوئے بولے، ’ہوں۔ ۔ ۔ میں مانتا ہوں کہ فلم طوالت کا شکار ہو گئی تھی تو کچھ مناظر ہم نے کاٹ دیے۔ اب بدقسمتی سے ان میں تمہارے بھی تھے۔ کچھ جو رہ گئے وہ سنسر بورڈ کا نشانہ بنے۔ لیکن میک میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ تین چار مناظر جن میں تمہارے ڈائیلاگ بھی کم ہیں اور یہ تمہارا ’سامبھا‘ کا کردار تمہارے شکوے شکایتوں کو دور کر دے گا۔ بلکہ تمہارے لیے سنگ میل بن جائے گا۔ اگر یہ کہوں کہ یہ تمہارے لیے ٹریڈ مارک بنے گا تو غلط بھی نہیں ہو گا۔‘
رمیش سپی کے لفظوں میں یقین اور آنکھوں میں سچائی کو محسوس کرتے ہوئے میک موہن کو لگا جیسے ان کے سبھی سوالوں کا جواب مل گیا۔ آنسو پونچھ کر وہ جب کمرے سے نکل رہے تھے تو کانوں میں رمیش سپی کے حوصلہ افزا جملے گونج رہے تھے اور جب فلم ’شعلے‘ سنیما گھروں میں لگی تو جہاں دوسرے کرداروں کا چرچا رہا، وہیں ’سامبھا‘ کا بھی، جنہوں نے دو تین مکالمات بولے ہوں گے، لیکن گبر سنگھ کا ان کو مخاطب کرکے یہ کہنا، ’ارے او، سامبھا کتنا انعام رکھے ہے سرکار ہم پر؟‘ تو زبان زد عام ہوا۔
اس مکالمے نے تو میک موہن کو ہر کسی کا ’سامبھا‘ بنا دیا اور وہ میک موہن کے بجائے پھر ’سامبھا‘ سے ہی شناخت کیے جانے لگے۔ ’شعلے‘ کے بعد انہوں نے مختلف زبانوں کی بے شمار فلموں میں منفی اور مثبت کردار ادا کیے۔ ان فلموں میں ’ہیرا پھیری،‘ ’ڈان،‘ ’گنگا کی سوگند،‘ ’کالا پتھر،‘ ’قرض،‘ ’قربانی،‘ ’دوستانہ‘ اور ’شان‘ قابل ذکر ہیں۔
پروڈیوسر اور ہدایت کار روی ٹنڈن ان کے بہنوئی تھے۔ اس اعتبار سے روینہ ٹنڈن ان کی بھانجی ہیں لیکن کبھی بھی فلموں کے حصول کے لیے روی ٹنڈن کی کوئی سفارش نہیں لگائی۔ بعض دفعہ وہ سوچتے کہ اگر واقعی انہیں ’شعلے‘ سے نکال دیا جاتا تو وہ ایک کلاسک ایور گرین فلم کا حصہ بننے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتے۔ کیسے لوگ انہیں ’سامبھا‘ کے کردار کے بغیر شناخت کرتے۔
اب یہ بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ چار سو سے زائد فلموں میں کام کرنے والے میک موہن کو کسی بھی اعزاز یا ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔ اسی بات کا رنج و ملال لیے وہ 10 مئی 2010 کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔
۔