بس کے انتظار میں کھڑے ادھیڑ عمر کے شخص کو دیکھ کر امیتابھ بچن سناٹے میں آ گئے۔ وہ عام انسانوں کی بھیڑ میں ممبئی کے سانتا کلاز کے مصروف سگنل پر انتہائی بے چینی سے بس کا منتظر تھا۔ امیتابھ بچن اسے اپنی عالی شان گاڑی سے دیکھ رہے تھے۔
امیتابھ بچن نے اس آدمی کا دیدار کیا تھا، جس پر ایک دور میں ایک عالم فدا تھا، یہ شخص مردانہ وجاہت اور پرکشش شکل و صورت کا حامل تھا۔ جس کے لیے صنف نازک کا دل دھڑکتا تھا لیکن ان سب حقائق کے باوجود اس وقت اس کے چہرے کی پریشانی بیان کر رہی تھی کہ اسے صرف اپنی مطلوبہ بس کی راہ دیکھنی ہے۔ ہجوم بھی اس بات سے بے خبر اور انجان تھا کہ ان کے قریب کھڑا ڈھلتی ہوئی عمر کا یہ شخص کون ہے؟
ایک لمحے کو امیتابھ بچن کا دل چاہا کہ وہ گاڑی سے اتر کر اس شخص کو اپنے ساتھ لے چلیں، لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کہیں ان کے اس عمل پر اس شخص کی خود داری، انا اور وقار مجروح نہ ہو جائے۔ سبز بتی جلی تو وہ دل مسوس کر آگے بڑھ گئے۔
وہ شخص جسے بس سٹینڈ پر دیکھ کر امیتابھ بچن سکتے اور رنج کی کیفیت سے دوچار ہوئے تھے اور دل گرفتہ ہو کر اس واقعے کا تذکرہ اپنے بلاگ میں کئی سال بعد 2008 میں کر ہی بیٹھے۔ وہ کوئی اور نہیں بھارت بھوشن تھے۔ مشہور میوزیکل رومانی فلم ’بیجو باورا‘ کے بیجو اور ’برسات کی رات‘ کے خوبرو شاعر امان حیدر آبادی، وہ بھارت بھوشن جنہوں نے مرزا غالب کا یادگار کردار بھی نبھایا۔
50 اور 60 کی دہائی کے کامیاب اداکار، جنہوں نے دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند جیسے اداکاروں کے درمیان خود کے لیے منفرد اور مختلف مقام بنایا لیکن جب شہرت کا ستارہ ٹمٹمانے لگا تو کام کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں بھی کھانی پڑ گئیں۔
اترپردیش کے شہر میرٹھ میں آنکھ کھولنے والے بھارت بھوشن والد کی طرح وکیل بننے کی بجائے اداکار ی میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے خواہش مند تھے۔ اسی شوق کے خاطر کلکتہ کا رخ کیا، جو اس زمانے میں فلم سازی کے اعتبار سے بھارت کا سب سے بڑا شہر تصور کیا جاتا تھا۔
مختلف مراحل سے گزر کر آخر کار انہیں 1941 میں فلم ’چتر لیکھا‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اداکاری میں دم تھا، جبھی اچھی فلمیں بھی ملنا شروع ہو گئیں۔ 1948 میں آنے والی فلم ’سہاگ رات‘ نے بھارت بھوشن کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ گیتا بالی ہیروئن تھیں۔ فلم نے بہترین کاروبار کیا تو فلم سازوں نے بھی بھارت بھوشن پر توجہ دینا شروع کر دی۔
ہدایت کار اور پروڈیوسر وجے بھٹ کی میوزیکل رومانوی فلم ’بیجو باورا‘ نے تو جیسے پلک جھپکتے میں بھارت بھوشن کو بھارتی فلموں کا چمکتا دمکتا ستارہ بنا دیا۔ مینا کماری کے ساتھ ان کی جوڑی اور پھر موسیقار نوشاد کے گیتوں نے تو سینیما گھروں میں تہلکہ مچا دیا۔ بھارت بھوشن پر فلموں کی برسات ہونے لگی تو وہ مالی طور پر مستحکم ہوتے چلے گئے۔
شہرت کے اس سفر میں مہنگی گاڑیاں خریدنے کے شوق نے آ گھیرا۔ جبھی ہر فلموں سے ملنے والے معاوضے کی ایک بڑی رقم جدید اور غیر ملکی گاڑیوں کی خریداری پر استعمال کرنے لگے۔ 1954 میں ’شری چیتانیا مہاپربھو‘ میں ایسی فطری اداکاری دکھائی کہ بہترین فلم فیئر ایوارڈ کے حقدار ٹھہرے۔
یہی نہیں، ’مرزا غالب‘ میں غالب کے روپ میں وہ خوب جچے۔ اسی دوران بڑے بھائی رمیش چندرا نے مشورہ دیا کہ وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ فلم سازی کی طرف بھی آئیں۔ جبھی انہوں نے ’بسنت بہار‘ کے لیے بھائی کو فلم ساز کے روپ میں پیش کر دیا۔ یہ فلم کمائی کی دوڑ میں نمایاں رہی اور بھارت بھوشن کا حوصلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔
بھارت بھوشن نے دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند سے ہٹ کر الگ راہ نکالی۔ وہ لڑائی بھڑائی والی فلمیں نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی فلموں کی کہانیاں خاصی سادہ، گھریلو اور رومان پرور ہوتیں۔ یہ بھی ان کی خوبی تھی کہ ان کی جوڑی ہر اداکارہ کے ساتھ جچتی۔
کہیں بھی کوئی اداکارہ بے جوڑ نہ نظر آئی، البتہ فلم بینوں نے ویسے ان کو مدھو بالا کے ساتھ خاصا سراہا، جبھی ’گیٹ وے آف انڈیا‘ اور ’پھاگن‘ کی مقبولیت دیکھ کر بھارت بھوشن نے 1960 میں ’برسات کی رات‘ کی فلم سازی کا ارادہ کیا۔ حسب روایت بھائی رمیش چندرا کو آگے رکھا جن کا نام پروڈیوسر کے طور پر جھلمایا۔
’برسات کی رات‘ اپنے گیتوں، کہانی اور اداکاری کی بنا پر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ ساحر لدھیانوی کی شاعری اور روشن کی موسیقی نے تو جیسے ہر گیت کو بے مثال بنا دیا۔ یہ اس سال کی سب سے زیادہ کاروبار کرنے والی دوسری فلم تسلیم کی گئی۔ اس وقت ان کی پہلی بیوی سرلا فوت ہو چکی تھیں، جس کے بعد بھوشن نے 1967 میں ’برسات کی رات‘ میں کام کرنے والی اداکارہ رتنا سے دوسرا بیاہ بھی رچا لیا۔
بھارت بھوشن کی شہرت کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ اس دوران انہوں نے گھونگھٹ، چاندی کی دیوار، گیارہ ہزار لڑکیاں اور جہاں آرا میں کام کرکے خود کو ممتاز بنا لیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ ایک فلم میں تان سین کا کردار تک ادا کر گئے۔ بھائی کے مشورے پر ہی 1964 انہوں نے ’دوج کا چاند‘ کی پروڈکشن کا آغاز کیا جس پر انہوں نے پیسہ پانی کی طر ح بہایا لیکن فلم توقع کے برعکس بری طرح ناکام ہو گئی۔ اس نے انہیں زور دار مالی جھٹکا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بدقسمتی اور ناکامی کے گہرے بادل کیریئر پر ایسے چھائے کہ جن فلموں میں وہ کام کر رہے تھے، وہ بھی ناکامی سے دوچار ہونے لگیں۔
مالی بحران بڑھتا ہی چلا گیا۔ جو بنگلے خریدے تھے، وہ ایک ایک کرکے فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ مہنگی گاڑیوں، جن میں وہ شاہانہ انداز میں گھومتے پھرتے تھے، ان کو بھی اونے پونے دام بیچنا شروع کر دیا۔ حالت یہ ہوگئی کہ پائی پائی کو محتاج ہو گئے۔ قرضوں کے سمندر میں ڈوبتے چلے گئے۔ وسیع و عریض عالی شان گھر میں رہنے والے بھارت بھوشن معمولی سے مکان میں رہنے لگے۔
بھارت بھوشن کو رہ رہ کر والد کی بات یاد ستاتی کہ یہ فلم نگری صرف چڑھتے سورج کی پوجا کرتی ہے، زوال آتا ہے تو سب نگاہیں بدل لیتے ہیں۔ بھارت بھوشن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا۔
عالم یہ ہو گیا کہ وہ بھائی جس نے ان کے نام پر خوب دولت کے انبار اکٹھے کیے، وہ بھی راہیں جدا کر بیٹھا تھا۔ بھارت بھوشن پر ایک ناکام اداکار کی چھاپ ایسی لگی کہ انہیں معمولی سے کرداروں کے لیے ہدایت کاروں کے آگے گڑگڑانا پڑ گیا۔
چار سال تک ان کے پاس کوئی ایک بھی فلم نہیں تھی۔ 1969میں ہدایت کار ناصر حسین نے ترس کھا کر ’پیار کا موسم‘ میں کریکٹر رول میں پیش کر دیا تاکہ بھارت بھوشن کے کچھ تو آنسو خشک ہوں۔ اس کے بعد تو جیسے وہ انہی کرداروں کے لیے مخصوص ہو گئے۔ وہ اداکار جو ٹاپ اداکاراؤں کا ہیرو تھا، اب انہی کی فلموں میں ثانوی کرداروں میں پردہ سیمیں پر نظر آتا۔ حد تو یہ ہو گئی کہ کئی فلموں میں انہیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جونیئر آرٹسٹ جیسا کردار بھی نبھانا پڑ گیا۔ یہ سلسلہ ان کی موت تک جاری رہا۔
بھارت بھوشن اپنوں کی بے حسی اور سنگدلی کا شکار ہوتے چلے گئے اور پھر 27 جنوری، 1992 کو مالی بحران کے جنگل میں بھٹکتے بھٹکتے آخر کار دنیا سے منہ موڑ گئے۔ بدقسمتی اور بے حسی تو یہ رہی کہ ان کی آخری رسومات میں فلمی ستاروں نے آنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔
کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ کیریئر کے آخری دنوں میں وہ سٹوڈیو میں چوکیداری بھی کرتے رہے، لیکن ان کی اداکارہ بیٹی اپارجیتا بھوشن اس کی تردید کرتی ہیں۔ انہیں تو اس بات کا رنج ہے کہ والد نے ایک لاکھ کے قریب نادر اور نایاب کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا تھا، جوان کی سوتیلی ماں رتنا کی ملکیت میں ہے اور وہ کسی صورت انہیں دینے پر آمادہ نہیں ہو رہیں۔