بہاولپور سے قلعہ دراوڑ جاتے ہوئے ایک سڑک صادق گڑھ پیلس کو مڑتی ہے جس کی لمبائی ایک کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ اس سڑک کا منظر عجیب ہے ایک طرف ایک نالہ بہتا ہے تو دوسری جانب لگے ہوئے تمام درخت سوکھ کر سیاہ ہو چکے ہیں جیسے کسی آسیب نے ان کی ہریالی چوس لی ہو۔ یہ آسیب اس وقت آپ کو مزید خوفزدہ کر دیتا ہے جب آپ ایک دیو ہیکل دروازے سے صادق گڑھ پیلس میں داخل ہوتے ہیں۔
پہلی نظر میں آپ واہ واہ کر اٹھتے ہیں۔ اس کی خوبصورتی وائیٹ ہاؤس سے کسی طور کم نہیں لیکن جیسے ہی اس محل کے اندر داخل ہوتے ہیں آپ آہ آہ کرنے لگتے ہیں جیسے کوئی آسیب آپ سے لپٹ گیا ہو اور آپ کا خون چوسنے لگا ہو۔ یہ آسیب دراصل وہ قومی بے حسی ہے جس نے اس شاندار محل کو کھنڈر میں بدل دیا ہے۔
احمد پورشرقیہ کے ساتھ ڈیرہ نواب ہے کبھی یہ عباسی فرمانرواؤں کا پایہ تخت تھاجن کا عہد ِ حکومت اڑھائی سو سال پر محیط ہے۔ جن میں سے 50 سال ریاست کی تشکیل میں صرف ہوئے اور جب یہ ریاست بن گئی تو انہوں نے نئی بستیاں بھی بنائیں اور اپنے لیے محلات بھی بنائے۔ ڈیرہ نواب میں موجودصادق گڑھ پیل در اصل ایک وسیع کمپلیکس ہے جس میں تین رہائشی محلات اس کے عین عقب میں واقع ہیں جنہیں مبارک محل، راحت محل اور صادق محل کہتے ہیں۔ یہ تینوں رہائشی حصے اندرونی سرنگوں کے ذریعے بھی ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور پھر یہ سرنگیں باہر کھیتوں کی طرف بھی کھلتی ہیں۔
مرکزی دروازے کے سامنے اور محل کے درمیان ایک بارہ دری ہے جس کے اطراف میں کبھی رنگ رنگ کے پھولوں سے مزین لان ہوا کرتے ہوں گے جہاں تتلیاں طواف کرتی رہتی ہوں گی مگر اب وہاں جڑی بوٹیوں کی حکمرانی ہے ۔ محل کے برآمدے سے سفید سنگ مرمر کی سیڑھیاں پہلی بالکونی کی طرف لے جاتی ہیں۔ آگے سفید سنگ مر مر کا بنا ہوا انتہائی خوبصورت فوارہ ہے اور اس کے آگے مرکزی دربار ہے۔ جس کی شان و شوکت کا اندازہ یہاں ایک بہت بڑے شیشے سے بھی کیا جا سکتا ہے جس کو نواب صاحب نے خصوصی طور پر انگلینڈ سے منگوایا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب یہ آئینہ بحری جہاز سے کراچی کی بندرگاہ پر اتارا گیا تو اسے ریلوے کے ذریعے بہاولپور لایا گیا جس کے لیے کئی پلیٹ فارم چوڑے کرنے پڑ گئے۔ اس شیشے کے آگے شاہی چبوترہ ہے جہاں نواب صاحب اپنے مشیران کے ساتھ بیٹھ کر امور ریاست سرانجام دیا کرتے تھے مگر اب اس چبوترے میں استعمال ہونے والی لکڑیاں بھی اکھڑ رہی ہیں اور اس پر موجود ایرانی قالین گل سڑ چکا ہے۔ اس ہال نما شاہی دربار کی چھت پر کی گئی کند ہ کاری اور اس میں کھلنے والی بالکونیوں کی شان و شوکت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ قدیم روم اور ہندوستانی طرز تعمیر کو اس میں یکجا کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صادق گڑھ پیلس کا سنگ بنیاد نواب صادق خان عباسی چہارم نے 1882 میں رکھا تھااور دس سال کے عرصے میں 15 لاکھ روپے سے اس کی تکمیل ہوئی تھی۔ 15 ہزار مزدوروں اور کاریگروں نے یہاں کام کیا تھا جن کی نگرانی اطالوی ماہرین تعمیرات نے کی تھی ۔ 24 مربعوں پر محیط یہ محل جمال و جلال کا شاہکار ہے۔ اس کی 50 فٹ اونچی فصیلیں ایک کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں جس کے ہر کونے پر فوجی بیرک بھی موجود ہے جہاں پر پہرہ دار تیر کمانیں سنبھالے کھڑے ہوتے ہوں گے۔ محل کے وسط میں ایک شاندار گنبد ہے۔ چاروں طرف بر آمدے ہیں، برجیوں کے نچلے حصے میں تہہ خانے ہیں۔ جہاں ریاست کا خزانہ رکھا جاتا تھا۔ اس خزانے میں استعمال ہونے والی بھاری لوہے کے سیف آج بھی اس انداز سے کھلے ہوئے ہیں جیسے کسی نادر شاہی حملے کا شکار ہوئے ہوں۔ ایک جگہ پر دیوار کو توڑا گیا ہے اور اس کے درمیان سے ایک سوراخ کہیں آگے کی جانب موجود خزانے کا پتہ دیتا ہے جسے تلاش کر کے نکال لیا گیا ہو گا۔
مرکزی ایوان کے اندر دربار ہال اور اس سے متصل دونوں جانب آٹھ مکمل سیٹ ہیں جہاں وسیع ڈائننگ ہال ہیں۔ نواب آف بہاولپور کے نواسے پرنس قمر الزمان عباسی نے اپنی کتاب ’بغداد سے بہاولپور تک‘ میں اس کی منظر کشی ان الفاظ میں کی ہے، ’خواب گاہ سے لے کرڈرائنگ روم، ڈریسنگ روم، غسل خانے اور دفتر کے کمرے تمام شاہی لوازمات سے خود کفیل ہیں۔ ہر کمرے کی چھت، فرش اور درو دیوار سے نفاست اور خوبصورتی جھلکتی ہے۔ سامان ِ آرائش اور فرنیچر بڑے اعلیٰ درجے کا ہے، کمروں میں قدِ آدم آئینے اور بلوری فانوس لگے ہوئے ہیں۔ کرسیوں، میزوں اور گلدانوں پر ایک ہی طرح کا رنگ ہے۔ آرٹ کے بہترین نمونے، نوادرات اور قیمتی پردے اس قصر ِ عالی شان کے وقار میں اضافہ کرتے ہیں۔ محل میں ایک چڑیا گھر بھی ہے جس میں انوا ع و اقسام کے پرندے اور جانور ہیں۔ محل کے اندر کئی جانوروں کو حنوط کر کے رکھا گیا ہے۔‘
محل میں سینما گھر کی عمارت بھی ہے جو اب گر چکی ہے۔ مسجد اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے مگر یہاں اذان دینے والا کوئی نہیں ہے۔ یہاں بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک پاور ہاؤس بھی تھا جس کی آسمان کو چھوتی چمنی سے آج بھی ماضی کی روشنیاں جھلکتی ہیں۔ محل کے ساتھ درجن بھر گاڑیوں کو پارک کرنے کا ایک گیراج بھی ہے جہاں دو چار رولز رائس آج بھی گرد سے اٹی پڑی ہیں۔ ان گاڑیوں کی مرمت کے لیے ورکشاپ بھی موجود ہے۔
محل کی دوسری منزل پر ایک شاندار لائبریری بھی تھی جس میں نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ تھا اور اس لائبریری کے ساتھ ہی خواجہ غلام فرید کا کمرہ بھی ہے۔ نواب صاحب کو خواجہ صاحب سے خصوصی عقیدت تھی۔ اس کے بارے میں نوجوان محقق اور شاعر عرفان شہود اپنی کتب ’باونی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک روایت کے مطابق نواب صادق خان اپنی دوسری بیگم گامن گدوھکن کو دلہن بنا کر اسی محل میں لائے۔ نواب صاحب نے اس خاتون کو بہاولنگر کی کسی جیل یا قید خانے میں دیکھا اور اس پر فریفتہ ہو گئے۔ سیمابی طبیعت پر عاشق مزاجی در آئی۔ فوراً اسے رہا کروایا اور اس سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اس بیگم سے نہایت عشق تھا اس کے مزاج کے مطابق پیراہن زیب تن کرتے۔ عشق و محبت کی بارش برستی رہی مگر کوئی پھول نہ کھل سکا۔ جس شان ِ خسروانہ سے بیگم کے برق جمال کی تجلی ان برسوں میں گرتی رہی پھر کبھی نصیب نہ ہو سکی کیونکہ شادی کے قلیل بندھن میں ہی بیگم کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے مرنے کے بعد نواب صاحب بہت بے قرار رہنے لگے تھے۔ حتیٰ کہ اپنے مرشد خواجہ غلام فرید سے دوبارہ عالم ِ ارواح سے اسے واپس لانے کی ضد کرتے۔ صرف 37 برس کی عمر میں نواب صاحب 14 فروری 1899 کو اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے۔‘
صادق گڑھ پیلس جہاں وقت کے کئی راجے مہاراجے، برطانوی شاہی خاندان کے افراد، وائسرائے اور اہم سیاسی افراد آئے وہ عہد رفتہ کی ایک ایسی داستان لیے ہوئے ہے جو لالچ، خون کی سفیدی اور عیاری و مکاری سے عبارت ہے۔ وہ محل جس کے مکین عدل و انصاف کے پیامبر تھے ان کے ساتھ ناانصافیوں کی تمام حدیں پار کر کے اس محل کو کھنڈر بنا دیا گیا۔
اس شاندار محل کی تباہی کا آغاز تو اسی وقت ہو گیا تھا جب ریاست بہالپور کے نواب سر صادق خان عباسی 1966 میں لندن میں انتقال کر گئے تو اس کے ساتھ ہی محل کی ملکیت پر تنازع کھڑا ہو گیا۔ نواب صاحب کے دس بیٹے، دس بیٹیاں اور تین بیوائیں تھیں جو جائیداد کی تقسیم کے لیے متحرک ہو گئے۔ احمد پور شرقیہ کے وہ حلقے جو محل کے اندر جنم لینے والی کہانیوں کے رازدان ہیں وہ ایک اور وجہ بھی بتاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی بیٹی بےنظیر بھٹو کا رشتہ نواب صلاح الدین عباسی سے کرنے کے متمنی تھے اور یہ پیغام بیگم نصرت بھٹو خود لے کر ڈیرہ نواب گئی تھیں۔
خود بھٹو صاحب دو بار صادق گڑھ پیلس آئے پہلی بار 1973 میں اور دوسری بار 1975 میں 70 کے لگ بھگ غیر ملکی سفیروں کو لے کر وہ یہ خوبصورت محل دکھانے لائے۔ بےنظیر اور نواب صلاح الدین کے رشتے کی تجویز بوجوہ ناکام ہو گئی جس کا خاصا قلق بھٹو صاحب کو ہوا۔ بھٹو صاحب کی کابینہ میں نواب صلاح الدین عباسی کے چچا سعید الرشید عباسی وزیر مملکت تھے انہوں نے اس رنجش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو صاحب سے صادق گڑھ پیلس کو سیل کروا دیا کہ اسے حصہ داروں میں تقسیم کیا جائے۔ دو تین ماہ بعد شدید مزاحمت کے بعد محل کو دوبارہ واپس کر دیا گیا۔ لیکن 1985 میں لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم عباسی جو کہ ضیا دور میں گورنر سندھ تھے اور بہاولپور کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے 1984 میں محل کو دوبارہ سیل کروا دیا جو 2005 تک 21 سال سیل رہا۔
اس دوران اس محل کے ساتھ کیا بیتی؟ اس حوالے سے 1992 میں بہاولپور کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راؤ منظر حیات جو بعد ازاں وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہو ئے، انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’1992 میں اسلام آباد سے ایک سرکاری ٹیم کے ہمراہ انہیں یہ محل اندر سے دیکھنے کا موقع ملا تھا تب یہ محل ویران ہو چکا تھا اور اس کی تمام قیمتی اشیا یہاں زیر زمین سرنگوں کے ذریعے نکال لی گئی تھیں۔
’محل عدالت ِ عظمیٰ کے حکم پر بند تھا کیونکہ وارثان میں مقدمہ بازی چل رہی تھی۔ چنانچہ جو کمیشن محل کا جائزہ لینے گیا میں بھی اس میں شامل تھا۔ محل میں حنوط شدہ چیتے کی آنکھیں تک نکال لی گئی تھیں شاید آنکھوں کی جگہ قیمتی پتھر لگے ہوئے تھے۔ محل کی دیوار پر ایک بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی جس میں برطانوی فوجیوں کا جتھہ دشمن پر حملہ کر رہا تھا۔ یہ تصویر دنیا کے مشہور مصور ٹامس جان بیکر کی بنائی ہوئی تھی۔ ایک تصویر بکنگھم پیلس اور دوسری صادق گڑھ پیلس میں آویزاں کی گئی تھی۔ اس کی قیمت اس وقت دو تین ملین پاؤنڈ ہو گی۔
’بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بھی چوری کر لی گئی ہے۔ یہاں سے تمام نوادرات غائب کر دیے گئے۔ کرسٹل کی بنی ہوئی کرسیاں اور فانوس جو ہالینڈ سے بن کر آئے تھے انہیں بھی محل سے چوری کر لیا گیا۔ محل کے تہہ خانہ میں ایک اسلحہ خانہ تھا جس میں دنیا کی قیمتی ترین بندوقوں ’ہالینڈ اینڈ ہالینڈ‘ کا ذخیرہ تھا۔ بیلجئم اور انگلستان کے بنے ہوئے قیمتی پستول بھی تھے جو سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ جن کی قیمت 20 ہزار پاؤنڈ سے تین لاکھ پاؤنڈ تک ہوتی ہے اور جن پر سونے کی کشیدہ کاری کی گئی تھی۔
’محل کے گیراج میں دنیا کی قیمتی ترین گاڑی رولز رائس کا ایک جم غفیر موجود تھا۔ ان کے بارے میں روایت ہے کہ نواب صاحب رولز رائس بنانے والی فیکٹری گئے وہاں تین گاڑیاں موجود تھیں۔ نواب صاحب نے قیمت پوچھی تو سیلز مین نے ہتک آمیز نظروں سے جواب دیا کہ تمہاری سوچ اور جیب سے بہت زیادہ ہے۔ جس پر نواب صاحب نے مینیجر کو بلایا اور کہا کہ اس سال جتنی رولز رائس گاڑیاں بنیں وہ بہاولپور پہنچا دی جائیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ قائداعظم جس گاڑی پر بیٹھ کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے گورنر جنرل کا حلف لینے گئے تھے وہ بھی نواب آف بہاولپور نے دی تھی۔‘
آج اس محل میں کوئی قیمتی چیز نہیں بچی، سب کچھ اکھاڑ لیا گیا ہے۔ محل میں زیادہ تر چوریاں اسی 21 سال کے عرصے میں ہوئیں جب یہ محل سیل رہا۔ یہ قیمتی اشیا یا تو بیرون ملک سمگل ہو گئیں یا پھر کچھ طاقتور اور امیر ترین لوگوں کے ڈرائینگ روموں کی زینت بن گئیں۔
اب اس محل کا مستقبل کیا ہے؟ کیا یہ قیمتی ورثہ قصہ پارینہ بن جائے گا یا پھر اس کی بحالی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے؟
یہ سوال جب انڈیپنڈنٹ اردو نے پرنس بہاول خان عباسی سے کیا جو کہ صادق گڑھ پیلس کے موجودہ نگران ہیں توانہوں نے جواب دیا کہ ’ہم اس کو ایک شاندار فائیو سٹار ہوٹل میں بدلنا چاہتے ہیں۔ اس کی تاریخی حیثیت اور طرز تعمیر کو دیکھتے ہوئے اس کی بحالی خاصا مشکل کام ہے لیکن آغا خان فاؤنڈیشن کو اس سلسلے میں مہارت اور تجربہ ہے ان سے بات چیت چل رہی ہے جو جلد کسی نتیجے پر پہنچے گی۔ اگر یہ اپنی اصل کے مطابق بحال ہو گیا تو دنیا بھر کے سیاح یہاں آ کر ٹھہرنے کو ایک یادگار تجربہ سمجھیں گے۔‘
ریاست بہاولپور کے ورثے کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تباہ حال کیوں ہے تو انہوں نے کہا کہ ’ریاست پر برے وقت آتے رہے ہیں آپس کی لڑائیوں میں بھی اس ورثے کو نقصان پہنچا لیکن یہ برا وقت بھی گزر ہی جائے گا۔ ہمارے اجداد نے تو چولستان کے 25800 مربع کلومیٹر صحرا کو آباد کرنے کے لیے ستلج ویلی پراجیکٹ بنا لیا تھا، دریا سے نہریں نکال کر اگر یہ علاقہ آباد ہو جاتا تو بہاولپور میں آج کتنی خوشحالی ہوتی۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ وقت آباد زمینوں کو بھی ویران کرنے والا ہے۔‘
اگر ایسا ہو جائے تو یہ محل ایک بار پھر آباد ہو جائے گا۔ انڈیا میں شاہی محلات اور قلعوں کو ہوٹلو ں اور میوزیم کی شکل دی گئی ہے۔ نواب آف حیدر آباد دکن کے محل فلک نامہ محل کو بھی ہوٹل کی شکل دی گئی ہے۔ نواب آف بہاولپور کی پالم پور انڈیا میں گرمائی رہائش گاہ تارا گڑھ پیلس کو بھی ہوٹل میں بدل کر محفوظ بنایا گیا ہے۔ نئی دہلی میں واقع بہاولپور ہاؤس میں نیشنل سکول آف ڈرامہ قائم ہے۔ مگر ہم اپنے ورثے کو ثواب سمجھ کر تباہ کر رہے ہیں۔ اس ورثے کی بحالی کے لیے حکومت اور بہاولپور کا شاہی خاندان مل کر حکمت عملی بنائے۔