ہدایت کار شکتی سمانتا کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ وہ اور ان کا یونٹ کلکتہ کے ہوائی اڈے پر اترے تو چاروں طرف سینکڑوں کی تعداد میں پرستار ہی پرستار تھے۔ راجیش کھنہ کے آنے کی خبر نجانے کیسے ان چاہنے والوں کو پہنچ گئی کہ ایسا لگا کہ سارا شہر امڈ آیا ہے۔
ایک شور مچا تھا راجیش کھنہ کے نام کا۔ ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہر کوئی بے تاب اور بے چین تھا۔ شکتی سمانتا کو یہ فکر ستا رہی تھی کہ اس جم غفیر سے نکل کر وہ کیسے ہوٹل پہنچیں گے۔ بہرحال مقامی پولیس نے ان کی یہ مشکل آسان کردی۔ جو باقاعدہ پروٹوکول کے ساتھ فلم ’امرپریم‘ کے اس قافلے کے لیے جگہ بناتی ہوئی ہوٹل تک پہنچا گئی۔ جہاں جہاں سے یہ قافلہ گزرا، وہاں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو اس یونٹ کا استقبال کر رہا تھا۔
شکتی سمانتا جانتے تھے کہ یہ سب کے سب راجیش کھنہ کے دیوانے ہیں۔ انہیں احساس ہوا کہ واقعی راجیش کھنہ کو سپر سٹار ہونے کا حق حاصل ہے۔
ہدایت کار شکتی سمانتا نے ہوٹل پہنچ کر سکھ کا لمبا سانس لیا۔ ان کے ہیرو راجیش کھنہ اور ہیروئن شرمیلا ٹیگور اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے۔ جبکہ ہدایت کار کا ذہن یہ سوچ رہا تھا کہ رات میں وہ اپنی اس فلم کے گیت ’چنگاری کوئی بھڑکے‘ کی عکس بندی میں کون کون سے کیمرا اینگلز استعمال کریں گے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے معاونین کی ٹیم کو کمرے میں ہی طلب کر لیا تھا۔
ہدایت کار شکی سمانتا کی ’امرپریم‘ راجیش کھنہ کے ساتھ ’آرادھنا‘ اور ’کٹی پتنگ‘ کے بعد تیسری بڑی فلم تھی۔ ابتدا میں انہوں نے اس تخلیق کے لیے راج کمار کو منتخب کیا تھا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بنگال کے پس منظر میں تیار اس فلم کے اوریجنل ورژن ’نشی پدما‘ میں اتم کمار والا کردار ہر صورت میں راج کمار پر فٹ بیٹھے گا، وہ کم و بیش راج کمار کو گرین سگنل دے چکے تھے۔
لیکن ایک روز خود راجیش کھنہ ان کے در پر آ دھمکے اور ان سے ’امرپریم‘ کے اس مرکزی کردار میں جلوہ گر ہونے کی فرمائش کر دی۔
ہدایت کار شکتی سمانتا نے یہ کہہ کر انہیں ٹالنے کی کوشش کی کہ اس وقت وہ سپر سٹار ہیں بھلا ’امرپریم‘ کے لیے ان کے پاس تاریخیں کہاں ہوں گی۔ تب راجیش کھنہ نے ان سے یہ وعدہ لیا کہ وہ باقی فلموں کو ثانوی ترجیح دیتے ہوئے عکس بندی کی تاریخوں میں ہیر پھیر کر دیں گے، لیکن روزانہ چار گھنٹے ’امرپریم‘ کے لیے ضرور نکال لیں گے اور پھر شکتی سمانتا نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔
راجیش کھنہ نے ’آنند بابو‘ کے اس کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے کوئی 24 بار اوریجنل بنگالی فلم ’نشی پدما‘دیکھی۔ فلم کی عکس بندی مکمل ہو چکی تھی۔ نغمہ نگار آنند بخشی کے لکھے ہوئے گیتوں کے ساتھ موسیقار راہل دیو برمن نے خوب انصاف کیا تھا۔ چاہے ’گیت رینا بیتی جائے،‘ ’کچھ تو لوگ کہیں گے،‘ یا پھر ’یہ کیا ہوا،‘ ہر ایک میں جلترنگ ہی بج رہے تھے۔ یہاں تک کہ راہل دیو برمن نے والد سچن دیو برمن کی آواز میں فلم کے آغاز میں دکھایا جانے والا گیت ’ڈولی میں بٹھائی کے‘ تک ریکارڈ کرا لیا تھا۔
اسی دوران ہدایت کار شکتی سمانتا کو موسیقار راہل دیو برمن نے ’چنگاری کوئی بھڑکے‘ سنایا تو سمجھیں جیسے ہدایت کار کا دل اس گانے پر مچل گیا۔ راجیش کھنہ کو بتایا گیا کہ اس گیت کو کلکتہ جا کر دریائے ہگلی پر واقع ہاوڑہ برج پر اس وقت عکس بند کیا جائے گا، جب آسمان پر جھلماتے ہوئے ستاروں ہوں گے اور سمندر بالکل خاموش۔ راجیش کھنہ کو ’امر پریم‘ کے اس اضافی گیت کی عکس بندی کے بارے میں بتایا گیا تو انہیں کیسے اعتراض ہوتا، اسی لیے اب یہ سارا یونٹ کلکتہ پہنچا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شام کے گہرے سائے جب چاروں طرف پھیلے تو پورا یونٹ ہاوڑہ برج پر پہنچا لیکن یہاں آ کر ان کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ پل کے اوپر اور سمندر کے کنارے پر ہزاروں کی تعداد میں پرستار ہی پرستار تھے۔ ہدایت کار شکتی سمانتا ان بن بلائے مہمانوں کو دیکھ کر ہلکان ہو گئے۔ سوچ میں پڑ گئے کہ اب ان چاہنے والوں کی موجودگی میں وہ کیسے اور کس طرح اپنا یہ گیت عکس بند کریں گے۔ پولیس موجود تھی لیکن وہ بھی کیا کرتی، بے چاری بے قابو تماشائیوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی تھی۔
شکتی سمانتا ہی نہیں پورے یونٹ کے لیے یہ صورت حال خاصی پریشان کن تھی۔ پولیس حکام شکتی سمانتا کے آس پاس موجود تھے، جنہوں نے تھک ہار کر دوٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ عکس بندی کا اجازت نامہ منسوخ کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں یہ اندیشہ ستا رہا ہے کہ عکس بندی کا نظارہ کرنے والی بڑی تعداد ہاوڑہ برج پر موجود ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ برج ان کا بوجھ مزید برداشت نہ کرے اور دھڑام سے دریائے ہگلی میں جا گرے۔
شکتی سمانتا نے مایوس اور لاچار انداز میں تماشائیوں کو دیکھا جو راجیش کھنہ کی محبت میں تو تھے لیکن اس وقت انہی کے لیے وبال جان بن چکے تھے۔ ایک منظر بھی عکس بند نہ ہونے کے باوجود شکتی سمانتا کو ’پیک اپ‘ کی صد ا لگانی پڑی اور پرستاروں سے بچتے بچاتے اب یہ قافلہ پھر سے بمبئی کا رخ کر رہا تھا۔
بمبئی آ کر شکتی سمانتا نے بھی ضد پکڑ لی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اس مدھراور رسیلے گانے کو شوٹ ضرور کریں گے۔ اس مقصد کی خاطر مقامی فلم سٹوڈیو کے تالاب کو ہو بہو ہاوڑہ برج کے سمندر کا روپ دیا گیا۔ پس منظر میں ایسے ہورڈنگز اور سائن بورڈز لگائے گئے جیسے ہاوڑہ برج کے سمندر کی سیر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر ایک کشتی میں راجیش کھنہ اور شرمیلا ٹیگورکو بٹھا کر اور کیمرا مین نے اس تالاب میں باقاعدہ آدھے دھڑ تک ڈوبتے ہوئے کشور کمار کی آواز میں تیار گیت ’چنگاری کوئی بھڑکے‘ کو عکس بند کیا۔
’امرپریم‘ ریلیز ہوئی تو کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ یہ گانا، ہاوڑہ برج کے کنارے نہیں بلکہ سٹوڈیو کے تالاب میں عکس بند کیا گیا تھا۔ یہ اس دور کی راجیش کھنہ کی ایک اور کامیاب ترین فلم تسلیم کی گئی ۔ جس نے ان کی سپر سٹار ہونے کی سلطنت کو برقرار رکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آخری لمحے میں فلم میں شامل ہونا والا یہ گیت اس وقت درجہ بندی کے ریڈیو پروگرام میں نمایاں رہتا۔ جبکہ اگلے سال 1973 میں فلم فیئر ایوارڈز میں کشور کمار بہترین گلوکار اور آنند بخشی بہترین نغمہ نگار کے لیے اسی گانے پر نامزد ہوئے تھے، مگر بدقسمتی سے دونوں ہی ایوارڈز سے محروم رہے۔
برسبیلِ تذکرہ، اس سال فلم ’بے ایمان‘ کے لیے ’جے بولو بے ایمان کی‘ کے لیے مکیش اور نغمہ نگار کا ایوارڈ ورما ملک کے حصے میں آیا۔ بے ایمانی ہو تو ایسی!