باجی رخسانہ، بھائی یعقوب، بشیر فورمین، چچا ٹیم پیس، باؤ حمید، ڈاکٹر ڈھکنا یا پھر ماسی برکتے، جب یہ نام ذہن میں گردش کریں یا پھر کسی محفل میں تذکرہ ہو تو یکدم ماضی کی یاد آ جاتی ہے اور ذہن میں پاکستان ٹیلی ویژن کی کلاسک شاہکار ڈراما سیریز ’سونا چاندی‘ جگمگانے لگتی ہے۔
یہ کردار اور ان کے سنگ سونا چاندی کی معصومانہ اور بھولپن سے بھری اداکاری، جیسے خوشگوار یادوں کا تازہ جھونکا بن کر آس پاس مہکنے لگتے ہیں۔ بلاشبہ 80 کی دہائی کی ایک ایسی ڈراما سیریز جس کے دلچسپ کردار سونا اور چاندی ہر ناظر کے گھر میں بن بلائے مہمان کی طرح وارد ہوتے اور پھر اپنی پر لطف گفتگو اور سادگی سے دل جیت لیتے۔
چاندی کا کردار شیبا حسن نے برتا جب کہ سونا کے کردار کو حامد رانا نے سونا بنا دیا۔ مکاری اور چالاکی سے عاری معصوم، سیدھا سادا دیہاتی جوڑا، جو شہری پیمانے سے بھولا تو ضرور ہے، مگر اس میں دیہات کی کھلی فضا سے اخذ کردہ صدیوں کی لوک دانش بھی موجود ہے، جس کی مدد سے وہ شہریوں کی پیچیدہ زندگیوں کی بگڑتی صورت حال کو سنبھالا بھی دے دیتے ہیں۔
گاؤں دیہات سے نکل کر شہری زندگی میں قدم رکھنے والوں کے رویوں میں بناوٹ نہیں ہوتی، جو جھوٹ کا سہارہ لینے کے بجائے زندگی میں محبت، اپنائیت اور خلوص کی چاشنی بھرنے کی جستجو میں رہتے۔ نوکری کی تلاش میں مختلف ٹھکانے بدلتے اور اپنی سادگی کے ذریعے مدد کرنے کا کوئی نہ کوئی نقش چھوڑ جاتے ہیں۔
سونا چاندی کی تشکیل کے پس پردہ بھی خاصی دلچسپ کہانی ہے۔ اس کے ڈراما نگار منو بھائی تھے، جنہوں نے یہ کردار اپنے گھریلو ملازمین سے متاثر ہو کر تخلیق کیے۔ منو بھائی کا ہی لکھا ہوا پنجابی زبان کی ڈراما سیریز ’کیہ جاناں میں کون‘ میں پہلی بار شیبا اور حامد رانا نے ملازم کا کردار نبھایا۔ حامد رانا مالی پپو کے روپ میں آئے جبکہ شیبا نے نذیراں کا کردار ادا کیا۔
دونوں اس وقت سکرین پر جلوہ گر ہوتے جب ڈرامے کی کہانی بوجھل پن اور تناؤ کا شکار ہوتی۔ نذیراں اور پپو کی نوک جھوک ہوتی اور شگفتہ جملوں پر ناظرین کے چہرے بھی کھل اٹھتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ثانوی نوعیت کے ان کرداروں کی مقبولیت پی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچی تو منو بھائی سے فرمائش کی گئی کہ دونوں کے مناظر میں اضافہ کیا جائے، بلکہ انہیں مرکزی کرداروں جیسی حیثیت دی جائے۔
منو بھائی نے اسی دوران حامد رانا اور شیبا حسن کی اس عوامی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے اردو زبان میں الگ سے ایک ڈراما سیریز لکھنا شروع کی جس کو ’سونا چاندی‘ کا نام دیا گیا۔ سکرپٹ جب لاہور ٹی وی کے جنرل مینیجر کو دکھایا گیا، تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ حامد رانا اور شیبا حسن نئے فنکار ہیں اور ان دونوں کو بنیاد بنا کر کسی صورت ڈراما نہیں چلے گا۔ وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ حامد رانا تو پھر بھی چل جائیں گے پر چاندی کے کردار کے لیے کسی اور کا انتخاب کیا جائے۔
اس مرحلے پر منو بھائی بھی ڈٹ گئے، جنہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ ’سونا چاندی‘ اگر بنے گا تو حامد رانا اور شیبا حسن کے ساتھ ہی۔ یوں اس کھینچا تانی میں یہ ڈراما ایک سال کے لیے لٹک گیا۔ اسی دوران جب محمد نثار حسین نے لاہور ٹی وی کے جنرل مینیجر کی کرسی سنبھالی تو ایک بار پھر منو بھائی کو ’سونا چاندی‘ کی یاد آئی۔ تخلیقی ذہنی صلاحیتوں سے مالا مال محمد نثار حسین کے پاس سکرپٹ آیا تویہ انہیں متاثر کر گیا۔ منو بھائی کے لیے یہ بات باعث اطمینان تھی کہ انہوں نے حامد رانا اور شیبا حسن کے چناؤ پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
پروڈیوسر راشد ڈار کو ’سونا چاندی‘ کی ہدایت کاری کی ذمے داری سونپی گئی جن کے ذمے سب سے پہلے کام یہ تھا کہ ’سونا چاندی‘ کا پائلٹ پروجیکٹ تیار کر کے اسے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر منظوری کے لیے بھیجا جائے۔ راشد ڈار اس آزمائشی پروجیکٹ میں اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے جبکہ فنکاروں نے بھی ایسی غیر معمولی اداکاری دکھائی کہ جب اسے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر میٹنگ میں پیش کیا گیا تو شرکا نے تالیاں بجا کر اس منصوبے کو گرین سگنل عطا کر دیا۔
پروڈیوسر راشد ڈار نے اب باقاعدگی کے ساتھ ’سونا چاندی‘ پر کام کرنا شروع کیا۔ منو بھائی کے زور قلم میں کئی خوبصورت اور تفریح سے بھرے کردار متعارف ہوئے، جن کے پرمزاح جملوں اور ڈرامائی واقعات نے جیسے اس ڈرامے میں ان گنت رنگ بھر دیے۔ اس پر سونا چاندی کی بھولی بھولی باتیں، اوٹ پٹانگ حرکتیں اور شرارتیں دل کو گلنار کر دیتی ہیں۔
پی ٹی وی پر ’سونا چاندی‘ سیریز کا پہلا ڈراما 16 اپریل 1982 کو نشر ہوا۔ اپنی پہلی ہی کہانی سے ’سونا چاندی‘ کی مقبولیت اور شہرت کا نیا سفر شروع ہوا۔ سونا چاندی ہی نہیں اس ڈرامے میں آنے والے ہر کردار کو غیر معمولی شہرت ملی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ یہ وہ ڈراما ہے جس کا ہر کردار، ان کا لب و لہجہ اور تکیہ کلام زبان زد عام ہوئے۔
یہ ڈراما ان تخلیقات میں شمار ہوتا تھا جن کے نشر ہونے کے دوران سڑکیں سنسان ہو جاتیں۔ ’سونا چاندی‘ کی پسندیدگی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک سال تک کامیابی کے ساتھ نشر ہوتا رہا۔ کسی بھی کھیل میں نہ کہانی کمزور لگی، نہ کردار اور نہ ڈائریکشن۔ ہر کھیل میں نئی کہانی نئے کرداروں کے ساتھ ہوتی، اسی طرح سٹاک کرداروں کے ذریعے ڈرامائی نشیب و فراز کہانی کو آگے بڑھاتے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ’سونا چاندی‘ کی شہرت اور مقبولیت عروج پر ہی رہی۔
حامد رانا ’سونا چاندی‘ کو ٹیم ورک کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کئی فنکار اس وقت ایسے تھے، جن کی خواہش ہوتی کہ وہ اس مشہور ترین ڈرامے کا حصہ بنیں۔ اس مقصد کے لیے ان کا کردار ڈیزائن کیا جاتا جس میں دلچسپی کا پہلو نمایاں رہتا۔ بہت سارے کردار عام سے ہوتے۔ جبھی ناظرین انہیں دیکھتے تو انہیں کہیں نہ کہیں ان کرداروں میں اپنی جھلک نظر آتی۔ فنکاروں کے درمیان زبردست ذہنی ہم آہنگی تھی اور یہاں تک ہوتا کہ ایک فنکار دوسرے کو اس کے کردار میں نیا پن اور جدت اور انفرادیت لانے کے لیے بڑھ چڑھ کر مشورہ دیتا۔‘
ڈراما نگار منو بھائی ڈرامے کی عکس بندی کے دوران خود سیٹ پر ہوتے۔ اکثر یہ بھی ہوتا کہ وہ اسی وقت کسی بھی کردار کے لب و لہجے کی ادائیگی کس نوعیت کی ہو، کیا تکیہ کلام ہو، یہ کام کی بات اسی وقت بتائی جاتی، تھوڑی بہت ریہرسل کے بعد متعلقہ کردار اور نکھر کر سکرین پر جلوہ گر ہوتا ۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ وقفے کے دوران کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر کہانی کو اگلا موڑ دینے پر غور ہوا۔
بعض دفعہ یہ تک ہوا کہ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے نرم گرم چٹ پٹی گفتگو کو بھی سکرپٹ کا حصہ بنا دیا گیتا۔ منو بھائی اس ہنر سے بخوبی واقف تھے کہ ناظرین ٹی وی سکرین پر کیا دیکھنا چاہتے ہیں، جبھی ان کے جملوں میں شگفتگی کا عنصر نمایاں ہوتا۔ اخلاق یا معیار سے گرا ہوا کوئی جملہ یا منظر ’سونا چاندی‘ میں کہیں بھی نہیں نظر آتا۔
حامد رانا کے مطابق نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو اسلام ۤآباد میں ہوئی ایک تقریب کے دوران ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یہ کہہ کر انہیں حیران کر دیا کہ جب وہ اداس ہوتے ہیں تو ’سونا چاندی‘ دیکھ کر ہی اس اداسی کو دور کرتے ہیں۔
حامد رانا کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ سابق صدر ضیاء الحق کی صاحبزادی زین بھی ’سونا چاندی‘ کی پرستار تھیں۔ ان سے پوری ٹیم کی ملاقات طے تھی لیکن ضیاء الحق کے طیارہ حادثے کی وجہ سے یہ ملاقات نہ ہوسکی۔
سونا چاندی کا دوسرا سیزن کیوں نہیں ہو سکا، اس حوالے سے حامد رانا کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ شیبا حسن یہ کردار ادا کرتے کرتے اکتاہٹ کا شکار ہو گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس ڈرامے میں مزید کام کرنے سے معذرت کر لی۔ ’سونا چاندی‘ کی اسی مقبولیت کو ’کیش‘ کرنے کی غرض سے حامد رانا اور شیبا حسن کو فلم کی بھی پیش کش ہوئی لیکن شیبا حسن نے فلمی ماحول کو اپنے لیے اجنبی اور غیر مانوس خیال کرتے ہوئے انکار کر دیا حالانکہ حامد رانا اس فلم میں کام کرنے کو تیار تھے۔
1983 میں ریلیز ہونے والی علی اعجاز اور ننھا کی فلم ’سونا چاندی‘ کا ٹائٹل اسی ڈرامے سے متاثر ہو کر رکھا گیا۔
سونا چاندی‘ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی، جس کے لیے حامد رانا اور شیبا حسن نے امریکہ اور یورپی ممالک میں ہونے والے سٹیج شوز میں بھی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ’سونا چاندی‘ کی اس شہرت کے پیش نظر منو بھائی نے جب ڈراما سیریل ’ابا بیل‘ لکھا تو ایک بار پھر سونا چاندی کی اس جوڑی کو نئے نام ’مندری اور نگینہ‘ دے کر اس تخلیق میں پیش کیا۔
درحقیقت ’سونا چاندی‘ ایک کلاسک ڈراما تصور کیا گیا جس کی کامیابی کا سہرہ جہاں منو بھائی کو جاتا ہے وہیں راشد ڈار اور اس کے مرکزی کردار ادا کرنے والے حامد رانا اور شیبا حسن کو بھی، جنہوں نے اپنی برجستہ اور بے ساختہ اداکاری کے ذریعے اسے بے مثال بنا دیا۔
آج بھی اس کا کہیں ٹائٹل میوزک بجتا ہے تو خود بخود ذہن میں ’سونا چاندی‘ کے کردار روشن ہونے لگتے ہیں۔