وادیِ سندھ کی تہذیب کا شمار دنیا کی چار قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے جس کی دریافت کا سہرا سر جان مارشل کے سر ہے، جنہیں 1902 میں وائسرائے لارڈ کرزن کے دور میں انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر جنرل بنایا گیا اس وقت سر جان مارشل کی عمر محض 26 سال تھی۔
جان مارشل کے گندھارا تہذیب سے لگاؤ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی 32 سالہ نوکری میں سے 20 سال صرف گندھارا میں صرف کر دیے۔
1880 میں جب راولپنڈی سے پشاور تک ریلوے لائن بچھائی گئی تو ایک ریلوے جنکشن شاہ ڈھیری تھا جہاں سے دوسری لائن حویلیاں کو جاتی تھی۔ آج اس شاہ ڈھیری کو دنیا ٹیکسلا کے نام سے جانتی ہے۔ جب سرجان مارشل یہاں کھدائیاں کر رہے تھے تو انہیں ایک کتبہ ملا جس پر’ٹکشا شیلا‘ لکھا ہو اتھا۔ جس کے معنی تراشیدہ پتھروں کا شہر یا ٹکشا کی چٹان ہے۔ ہندو بھارتا کے چھوٹے بھائی راما کو وشنو کا اوتار مانتے ہیں۔ راما نے ہی رزمیہ داستان رامائن لکھی تھی۔ ایک روایت کے مطابق بھارتا کے بیٹے ٹکشا کے نام پر اس شہر کی بنیاد پڑی اور مہابھارت پہلی مرتبہ ٹیکسلا میں ہی پڑھی گئی۔ بدھ مت کی کہانیوں پر مشتمل کتاب ’جاتک کہانیاں‘ کے مطابق ٹیکسلا گندھارا کا دارالحکومت تھا۔
سر جان مارشل نے شاہ ڈھیری کو نہ صرف ٹیکسلا کا نام لوٹایا بلکہ دنیا کو ٹیکسلا کی تہذیب و تمدن سے روشناس بھی کروایا۔ جب وہ ریٹائر ہو کر برطانیہ واپس چلے گئے تو انہوں نے ٹیکسلا پر اپنا تحقیقی کام جاری رکھا اور تین جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی جسے دنیا ٹیکسلاکی بائبل کہتی ہے۔ سر جان مارشل نے ٹیکسلا میوزیم کی عمارت اپنی نگرانی میں بنوائی اور میوزیم سے متصل ریسٹ ہاؤس بھی بنوایا جس میں وہ طویل عرصہ مقیم رہے۔ انہیں یہاں کھدائیوں اور تحقیقی کام کے سلسلے میں جس شخص کی معاونت رہی وہ ان کے اسسٹنٹ احمد دین صدیقی تھے، جنہیں حکومت ِبرطانیہ نے ان کی گرانقدر خدمات کے عوض 1929 میں خان صاحب کا خطاب دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے ڈی صدیقی پانچ مئی 1892 کو ساہو والا سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ بی اے کرنے کے بعد 1914 میں انہیں انڈین آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں سر جان مارشل کے ڈرافٹس مین کے طور پر ملازمت ملی اور 1916 میں انہیں ٹیکسلا میں ایکسکویشن اسسٹنٹ کے طور پر تعینات کر دیا گیا۔ بعد ازاں سرجان مارشل کی طرح وہ بھی ٹیکسلا میں ہی بس گئے۔ ان کا گھر ریلوے سٹیشن اور میوزیم کے قریب ہی ہے جہاں اب ان کے پوتے پڑپوتے رہتے ہیں۔
سرجان مارشل ٹیکسلا سے کس قدر محبت کرتے تھے، اس کا اندازہ اے ڈی صدیقی کے نام لکھے ہوئے ان کے خطوط سے ہوتا ہے۔ وہ 1934 میں ریٹائر ہونے کے بعد انگلستان واپس چلے گئے تھے مگر وہ اے ڈی صدیقی کو باقاعدگی سے خط لکھا کرتے تھے۔ یہ خط ان کے خاندان نے اب بھی محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں:
’ٹیکسلا کے بارے میں دنیا میں شاید ہی کوئی ماہر آثار قدیمہ مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو۔ ٹیکسلا میں گزرے ہوئے شب وروز، یہاں چیڑ کے درختوں سے چھن کر آنے والی ہوا، مری سے لے کر ٹیکسلااور دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی پہاڑیاں مجھے یونان کی یاد دلاتی ہیں۔‘
ایسے لگتا ہے کہ انگلستان میں رہتے ہوئے ٹیکسلا کی یادیں انہیں بہت ستاتی تھیں اور ساتھ ہی وہ ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے مسلمانوں کے مستقبل پر بھی فکر مند تھے۔ ایک خط میں وہ اس طرح رقمطراز ہیں:
’میرے پیارے صدیقی، کاش میں ٹیکسلا دوبارہ آ کر اس کی نرم گرم دھوپ اور یہاں پر پھیلی ہوئی خوشبوؤں سے مستفید ہو سکتا۔ انگلینڈ میں سخت سردی ہے مگر پھر بھی زندگی رواں دواں ہے۔ میں انڈیا جسے عنقریب آزادی ملنے والی ہے، کے بارے میں پُر امید ہوں کہ یہاں کے مسلمانوں کو ہندوؤں کی دست برد سے محفوظ رکھنے کا کوئی نہ کوئی انتظام کیا جائے گا۔‘
13 دسمبر 1947 کو لکھے گئے ایک خط میں وہ یہاں ہونے والے فسادات اور اس میں اپنے دوستوں اور آثار قدیمہ کے بارے میں متفکر تھے:
’مجھے آپ اور دیگر دوستوں کی خیریت کے بارے میں فکر لاحق ہے۔ جلد از جلد اپنی خیریت سے مطلع فرمائیں۔ اگرچہ آپ مسلم علاقے میں ہیں لیکن آزادی کے دنوں میں ہونے والے فسادات اور لوٹ مار کے بارے میں ملنے والی خبروں کی وجہ سے مجھے آپ سب کے بارے میں پریشانی رہی ہے۔ کیا میوزیم اور دیگر نوادرات کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا؟ میرے سابق دفاتر کا کیا حال ہے؟ پاکستان اور انڈیا میں (میں انڈیا کے نام کو پسند نہیں کرتا کیونکہ یہ تاریخی طور پر صحیح نہیں ہے) جب ہم نے حکمرانی کی تو وہاں کے لوگوں کو امن اور خوشحالی کی ضمانت دی۔ پاکستان میں جو کوئی بھی آرکیالوجی کا سربراہ ہے اسے لازماً آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘
سرجان مارشل انڈیا کے نام کو کیوں پسند نہیں کرتے تھے؟ اس بارے میں سینٹر فار کلچر اینڈ ڈویلپمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ کہتے ہیں کہ ہندوستان کو یونانیوں نے دریائے سندھ کی نسبت سے انڈیا کا نام دیا تھا۔ سر جان مارشل نے موہنجو داڑو، ہڑپہ اور گندھارا کی تہذیبوں کو جب یہاں دریافت کیا تو اسے بھی انڈس تہذیب کا نام دیا گیا۔ یہ علاقے چونکہ پاکستان میں رہ گئے تھے۔ اس لیے ان کا خیال تھا کہ بھارت کو انڈیا کا نام نہیں دیا جانا چاہیے کیونکہ انڈس تہذیب کے علاقے تو پاکستان میں شامل تھے۔
ٹیکسلا سرجان مارشل کی روح میں رچ بس گیا تھا اس کی وجہ یہاں کی فضا تھی یا ان کی اے ڈی صدیقی سے محبت، ایک خط میں وہ لکھتے ہیں:
’ٹیکسلا کے بارے میں میری یاداشتیں میری زندگی کا سب سے خوبصورت سرمایہ ہیں۔ یہ خوشیاں مجھے آپ اور دیگر دوستوں کی وجہ سے نصیب ہوئیں۔ میرے لیے اس سے زیادہ خوشگوار کوئی لمحہ نہیں ہو سکتا کہ میں ٹیکسلا میں آپ کے ساتھ ایک ایسی صبح گزاروں جس میں ابھی گھاس پر شبنم تازہ ہو اور فضا میں گلابوں کی مہک پھیلی ہوئی ہو اور ہم اس ماحول میں مست ہوں۔ اگرچہ میرے پاس اب زندگی بہت مختصر رہ گئی ہے۔ تاہم میری خواہش ہے کہ اگلی زندگی میں ہم، آپ اور لارڈ کرزن اکٹھے ہوں۔‘
سر جان مارشل کشمیر کے مسئلے پر بھی پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے تھے۔ 14 دسمبر 1949 کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’مجھے پاکستان اور انڈیا میں کشمیر پر کشیدگی کا افسوس ہے۔ اس معاملے پر میری ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہیں اور مجھےامید ہے کہ بالآخر اس کا اختتام پاکستان کے حق میں ہو گا۔ میری دعا ہے کہ کشمیر پر جنگ نہ ہو کیونکہ یہ پاکستان کے لیے کسی المیے سے کم نہیں ہو گی۔ ہم نے یورپ میں بہت جنگیں لڑی ہیں۔ ہم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ جنگیں کتنی ہولناک ہوتی ہیں۔‘
اپنی آخری زندگی میں جب وہ بہت لاچار ہو چکے تھے مگر پھر بھی ٹیکسلا میں اے ڈی صدیقی کو خط لکھتے رہے:
14 دسمبر 1953
’ٹیکسلا میں آ پ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات میرا سرمایہ ہیں۔ میرا جی کرتا ہے کہ میں آپ ٹیکسلا میں آپ لوگوں سے آن ملوں لیکن میری صحت تو اب لندن تک جانے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ میرے لیے اب خط لکھنا بھی مشکل ہے۔‘
اے ڈی صدیقی پاکستان بننے کے بعد ٹیکسلا میوزیم کے پہلے انچارج تھے۔ ٹیکسلا پر سر جان مارشل کی تمام تحقیقی کام میں وہ ان کی معاونت کرتے رہے یہی وجہ تھی جب سر جان مارشل کی ٹیکسلا پر کتاب چھپی کو تو انہوں نے حکومتِ پاکستان سے گزارش کی کہ وہ یہ کتاب ان کی جانب سے اے ڈی صدیقی کو پیش کرے۔ ٹیکسلا ٹائم کے مصنف انجینیئر مالک اشتر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سر جان مارشل نے انڈین آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے پورے ہندوستان میں کام کیا مگر ان کا دل ٹیکسلا میں ہی لگا۔ ٹیکسلا سے وہ کیوں محبت کرتے تھے؟
اس کی ایک وجہ ٹیکسلا کے یونانی روابط بھی تھے چونکہ انڈیا آنے سے پہلے وہ یونان اور ترکی میں کام کر چکے تھے اس لیے انہیں ٹیکسلا میں بھی یونان ہی نظر آتا تھا۔ ان کے معتمد خاص اے ڈی صدیقی بھی یہاں کے ہی ہو کر رہ گئے انہوں نے یہاں ایک سکول بھی بنایا اور دیگر رفاعی کام بھی کیے۔ سرجان مارشل اور اے ڈی صدیقی کا تعلق صرف باس اور نائب کا نہیں تھا بلکہ آخری دم تک ٹیکسلا آنے والے خطوط یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اگرچہ انگلستان چلے گئے تھے مگر ان کی روح یہیں کہیں رہ گئی تھی۔