450 قبل مسیح کا ایک منظر ہے۔ جگہ ہے آج کے اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 میں بدھا کے غار۔ یہاں ایک مکالمہ ہو رہا ہے جو پانینی اور ایک سادھو کے مابین ہے۔ پانینی، حصول علم کے بعد 'چاریکار'کر چکا ہے۔ ہندوستان کا چپہ چپہ گھوم کر اس نے 'گن پاٹھ ' اور 'اشٹ ادھیائے' نامی کتابیں لکھ کر سنسکرت کے پہلے گرامر دان ہونے کا شرف حاصل کر رکھا ہے۔
سادھو: تم یہاں قریب (چھوٹا لاہور) کے ہو، مگدھ کی راج دھانی تمہارے علم پر اپنی مہر ثبت کر چکی ہے۔ اب اور کیا شے ہے جو تمہیں اضطراب میں رکھے ہوئے ہے؟
پانینی:علم کوئی نروان نہیں ہوتا جو حقیقت پا لینے کے بعد تمہاری طرح ان غاروں میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا ہے۔ علم تو مسلسل کھوج مانگتا ہے، تمہارا وجدان خدا تک پہنچ کر رک جاتا ہے اور ہم لوگ مسلسل سفر میں رہتے ہیں۔
سادھو: ہمارے لیے ان غاروں کی اہمیت اتنی ہی ہے کہ یہ ہمیں سردی اور گرمی سے بچاتی ہیں، یہاں پینے کو پانی ہے، پرندوں کے نغمے ہیں اور خدا کی زبان میں باتیں کرتی ہوا ہے۔
پانینی: کیا خدا بھی کسی زبان میں بات کرتا ہے؟
سادھو: نہیں، خدا اپنے مظاہر سے بات کرتا ہے اور جس پر کھلتا ہے اس کی زبان میں سے لکنت ختم کر کے علم پھونک دیتا ہے۔ ہمیں علم وجدان سے ملا ہے اور تمہیں چاریکار سے ملا ہے۔ ہم اپنے اندر کے سفر میں ہیں اور تم باہر کے سفر میں ہو۔ ہمارا علم دلوں کے ذریعے منتقل ہوتا رہے گا اور تمہارا علم کتابوں سے، ہو سکتا ہے کتابی کیڑا یا نفرت کی کوئی آگ تمہارے علم کو راکھ بنا دے لیکن ہمیں نہ کیڑے کھا سکتے ہیں نہ کوئی آگ جلا سکتی ہے۔
پانینی: اگر میری کتابوں کے بارے میں تمہیں اتنا علم ہے تو ذرا اِن غاروں کے بارے میں بھی بتاؤ کہ یہاں اس سے پہلے کیا تھا؟
سادھو: جب صرف خدا تھا اور زمین پر پانی تھا تو یہاں بلند و بالا پہاڑوں سے گرنے والے پانی نے ایک جھیل بنا دی تھی یہ جھیل ایک وسیع سمندر سے ملی ہوئی تھی یہاں پانی اس زور سے گرتا تھا کہ ہر وقت جھاگ کے مرغولے اڑتے تھے جب سمندر کروڑوں سال پہلے یہاں سے اتر گیا تو جھاگ کے مرغولوں نے ان غاروں کی شکل اختیار کر لی۔ انسان جب زمین پر آیا تو یہ غار اس کا پہلا مسکن تھے۔ وہ ان غاروں میں رہتا، اپنے لیے خوراک تلاش کرتا اور پھر انہی غاروں میں چھپ جاتا۔ لاکھوں سال بعد جب اس کے اندر کی بھوک اور خوف کچھ کم ہوا تو اس نے کھوج کرید کا سفر شروع کیا۔
پانینی: اس کا مطلب ہے کہ تم سے پہلے بھی یہاں خدا کی کھوج میں بہت لوگ آئے ہوں گے؟
سادھو: میں اگر یہ کہوں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں زمین پر انسان اور خدا کا پہلا مکالمہ ہوا تو کیا تم یقین کر لو گے؟
پانینی: یہ تمہارا علم ہے جو شک سے شروع ہو کر یقین تک پہنچتا ہے لیکن میرا علم تو ہمیشہ مجھے شک میں ہی رکھتا ہے۔
سادھو: پھر تم اپنی راہ لو، تمہارے اور میرے جیسے نجانے کتنے ہی لوگ ان راہوں کی خاک ہو گئے، سب کچھ خاک ہی تو ہے۔
اس مکالمے کے تقریباً اڑھائی ہزار سال بعد میں اسی مقام پر کھڑا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارا علم آج بھی اڑھائی ہزار سال پہلے والے مقام پر کھڑا ہے۔ اسلام آباد کی بلند وبالا عمارتوں سے گزرتے ہوئے شاہ اللہ دتہ کے قدیمی گاؤں میں یہ غاریں اس مقام پر واقع ہیں جہاں مارگلہ ہلز کی دوسری جانب ٹیکسلا کے کھنڈرات بکھرے پڑے ہیں۔ ان غاروں سے عین اوپر بن فقیراں میں محکمہ آثار قدیمہ نے اسلام آباد کی حدود میں پہلا سٹوپہ بھی دریافت کیا ہے جبکہ محمود غزنوی دور کی ایک مسجد کے کھنڈرات بھی اس کے قریب موجود ہیں۔
سینٹر فار کلچر اینڈ ڈویلپمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ کا کہنا ہے کہ یہ غاریں پتھر کے درمیانی عہد کی ہیں جو ہندوستان سے وسطی ایشیا، یورپ اور چین جانے اور آنے والے راستے پر واقع ہیں۔ ٹیکسلا سے ہندوستان جانے کا راستہ انہی غاروں کے ساتھ سے گزرتا تھا اس لیے ان کی صرف مذہبی نہیں بلکہ ایک تزویراتی حیثیت بھی ہے.
ہندو، بدھ مت، جین مت، سکھ اور مسلمان ہر دور میں ان غاروں کی اپنی مذہبی حیثیت رہی ہے لیکن بعد میں جب سولہویں صدی میں راولپنڈی کا ٹاؤن وجود میں آیا تو حسن ابدال سے براہ راست جی ٹی روڈ راولپنڈی لایا گیا جس سے شاہ اللہ دتہ کی غاروں کے ساتھ سے گزرنے والا راستہ رفتہ رفتہ متروک ہو گیا۔ اب وہاں گھنا جنگل دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ صدیوں تک یہاں سے بڑے بڑے کاروان گزر کر ہندوستان جاتے رہے۔
یہیں ساتھ ہی کینتھلا گاؤں میں ایک قدیم باؤلی بھی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے شیر شاہ سوری نے بنوایا تھا۔ انگریز دور کے محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق اس جگہ کو ڈیرہ گڑیالہ کہا گیا ہے جس کا مالک ناگا مہنت شمداس تھا جو ڈیرہ باوا بھگڑ داس کا گدی نشین تھا۔
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے کیوریٹر اور انچارج عامر یٰسین نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ سائنس کی زبان میں یہ غار جس پتھر سے بنے ہیں اسے ٹفہ کہا جاتا ہے جو لائم سٹون کی ایک قسم ہے۔ یہ سمندر کے نیچے بنتی ہیں ۔ان کی عمر ساڑھے پانچ کروڑ سال تک ہو سکتی ہے۔
ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف ایشئن سولائزیشن قائداعظم یونیورسٹی کے جرنل آف ایشئن سولائزیشنز کے 2010 کے شمارے میں لکھا ہے کہ کنجور کے پتھروں کی بنی ان غاروں کی لمبائی 40 میٹر ،چوڑائی 60 میٹر اور اونچائی 8 میٹر ہے۔
مشرق کی سمت جو غار ہے اس کی دیواروں پر کچھ تصویریں بھی نقش تھیں مگر بعد میں ان پر چونا پھیر دیا گیا۔ ان میں سے ایک تصویر ہندؤوں کے دیوتا شیو کی ہے جو اب بھی موجود ہے۔ یہ غار اندر سے دو منزلہ ہے، جس کی دیواروں پر مٹی کا لیپ بھی کیا گیا تھا اور شاید ان پر چونا بھی کیا گیا تھا مگر یہاں اندر جو آگ لگائی جاتی رہی اس کی وجہ سے دیواریں اب کالی سیاہ ہو چکی ہیں۔
غار نمبر دو کے اندر ایک میٹر کا پلیٹ فارم بھی ہے جو شاید عبادت کے لیے استعمال ہوتا ہو گا کیونکہ قیام پاکستان کے وقت شاہ اللہ دتہ میں ہندو خاندان بستے تھے جو یہاں آ کر اپنی عبادات کرتے تھے۔ ان غاروں میں برگد کا ایک قدیم درخت بھی ہے جس کے ساتھ سے ایک چشمہ بھی نکلتا ہے جس کا پانی متبرک سمجھا جاتا ہے۔ یہی پانی غاروں کے ساتھ واقع ایک باغ کو بھی سیراب کرتا ہے جسے سادھو کا باغ کہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ باغ بھی قدیم بتایا جاتا ہے جہاں کبھی انواع و اقسام کے درخت ہوا کرتے تھے مگر تقسیم کے بعد اس کے مالکان کیا گئے کہ چمن ہی ویران ہو گیا۔ شاہ اللہ دتہ میں وہ زمینیں جو ہندو اور سکھ چھوڑ کر گئے ان کا شمار تو نہیں لیکن ان غاروں اور باغ سے متصل 856 کنال زمین وقف متروکہ املاک کی ملکیت تھی جس میں سے اب صرف آٹھ کنال کا قبضہ ہی محکمے کے پاس ہے باقی جگہ پر قبضہ گروپ ہاتھ صاف کر چکے ہیں۔
مغل دور میں جب ہندوستان عرب اور وسط ایشیاء سے آنے والے صوفیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا تو اسی دور میں شاہ اللہ دتہ نامی بزرگ نے اس باغ میں قیام کیا یہیں ان کا مزار بھی ہے۔ اس سے پہلے جو جگہ سادھوؤں، بھکشوؤں، یا جوگیوں سے منسوب تھی وہ آج ایک صوفی شاہ اللہ دتہ سے منسوب ہے۔
اشوک کے دور میں جب ٹیکسلا کی تہذیب اپنے جوبن پر تھی ،ایک ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے وادئ ٹیکسلا کے مختلف شہروں کی اس زمانے میں وہی حیثیت تھی جو آج کے نیویارک ،لندن یا پیرس کی ہے ۔ٹیکسلا سے گزرنے والاہر قافلہ ان غاروں سے ہو کر گزرتا تھا یہاں کے چشموں سے پیاس بجھاتا تھا اور اگلا پڑاؤ منکیالہ میں کرتا تھا جہاں ٹیکسلا کی طرح کے شاندار سٹوپے تھے ۔
ٹیکسلا ٹائم کے مصنف انجینئر مالک اشتر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنڈت اور سادھو ان غاروں میں نفس کشی اور مراقبے کی مشقیں کرتے تھے جن کے پیروکار بھی ان کی خدمت میں موجود رہتے یہ اپنا سر منڈواتے لیکن بائیں جانب ایک لٹ چھوڑ دیتے تھے ،گیروے رنگ کی چادر لپیٹے جب یہ قریب کی بستیوں کا رخ کرتے تو چیلے چانٹے آشیر باد حاصل کرنے کے لیے ان کے گرد جمع ہو جاتے ۔سترویں صدی میں جب بری امام یہاں آئے تو ان کے پیروکاروں نے بھی انہی سادھوؤں کا حلیہ اپنایا ۔
ان غاروں میں آج ویرانی بال کھولے نوحہ کناں ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کے بقول رات کو یہاں سے خوف ناک آوازیں آتی ہیں ۔سائے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔2011 میں سی ڈی اے نے سادھو کے باغ کی بحالی کا منصوبہ شروع کیا جو مکمل نہ ہو سکا ۔گزشتہ سال سے وفاقی حکومت ان غاروں اور بن فقیراں کے سٹوپے کی بحالی کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
غاروں کے بالکل ساتھ ہی کاروباری سرگرمیاں بھی شروع ہو چکی ہیں جبکہ قبضہ مافیا کی پلاٹنگ سے ان غاروں کو شدید خطرات بھی لا حق ہیں ۔حالانکہ آثار قدیمہ کے تحفظ کے قانون مجریہ 1975 کے تحت ان غاروں کے دو سو فٹ تک کسی بھی قسم کی تعمیرات ممنوع ہیں اور خلاف ورزی پر تین سال تک سزا ہو سکتی ہے۔
وفاقی حکومت کے پاس اٹھارویں ترمیم کے بعد پورے پاکستان میں ان غاروں سمیت چار مقامات ہی رہ گئے ہیں جن کی دیکھ بھال اس کی ذمہ داری ہے دیگر تین مقامات میں بن فقیراں کا سٹوپہ ، پھروالہ اور روات کے قلعے شامل ہیں ۔ مگر وفاق ان چار تاریخی مقامات پر ابھی تک کوئی قابل ذکر کام نہیں کر سکا۔
یہ غاریں پانینی ، سکندر اعظم ، چندر گپت موریہ ، اشوک ِ اعظم ، کو ٹلیہ چانکیہ ، سمیت کتنی ہی نامور ہستیوں کی گواہ ہیں ۔ بعض ہندو مؤرخین یہ قیاس بھی کرتے ہیں کہ شیو اور ان کی بیوی سیتا نے بھی راج کٹاس جاتے ہوئے یہی راستہ اختیار کیا تھا۔داتا صاحب اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جیسے صوفیا نے بھی شاید کوئی پل یہاں گزارا ہو گا ۔مگر یہ سب گزرے ہوئے کل ہیں جن سے شاید یہاں کے لوگوں کو اب کوئی رغبت نہیں رہی ۔ان کی دلچسپیاں ان پہاڑوں کو کاٹ کر اپنے محل بنانے میں ہیں حالانکہ یہیں قریب دنیا کی ایک بڑی تہذیب اپنے محلوں سمیت دفن ہے