جب معین اختر کو جنرل ضیا نے ملک کا ’اثاثہ‘ قرار دیا

دوسرے کامیڈینز کے برعکس معین اختر نے کبھی بازاری یا ذومعنی جملوں کا استعمال نہیں کیا۔ وہ شائستہ انداز گفتگو اور مہذبانہ حس مزاح سے چہروں پر مسکراہٹیں جگانے کا ہنر جانتے تھے۔

معین اختر ہر طبقے کے پسندیدہ مزاحیہ فنکار تھے (اے ایف پی)

(’کنگ آف کامیڈی‘ معین اختر کی 10ویں برسی پر خصوصی تحریر)

’میں واقعی کوئی بہت بڑا فنکار نہیں لیکن میں آج پہلی بار پرفارم کرنے جا رہا ہوں۔ اگر آپ کو پسند نہ آیا تو یقین جانیں میں ایک منٹ بھی سٹیج پر رکوں گا نہیں۔ آپ کی طرح میں بھی طالب علم ہوں، بس مجھے ایک موقع دیں۔‘

نجانے کیا سحر انگیز یہ الفاظ تھے جو اس 16 برس کے دبلے پتلے لڑکے نے ادا کیے کہ کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج کے آڈیٹوریم میں موجود شرارتی طالب علم تماشائیوں پر خاموشی چھا گئی۔

جو چند لمحے پہلے اس کے حلیے کا تمسخر اڑا رہے تھے، فقرے کس رہے تھے، طنزیہ جملے بول کر پورا ہال سر پر اٹھایا ہوا تھا، وہی یکدم یکسوئی کے ساتھ اسے سننے پر مجبور ہو گئے۔

نوجوان نے پاکستانی، بھارتی اور ہالی وڈ کے مشہور اداکاروں کی آوازوں کی نقالی شروع کی تو پورا آڈیٹوریم تالیوں سے گونج اٹھا۔ کوئی 45 منٹ تک اس لڑکے نے ایسا سماں باندھا کہ جو شور مچا رہے تھے، وہ اب اپنی ہی نگاہوں میں شرمندہ ہونے پر مجبور ہو گئے۔

یہ نوجوان فنکار کوئی اور نہیں معین اختر تھے جنہوں نے پہلی بار اتنے بڑے تماشائیوں کے سامنے اپنی جادوئی پرفارمنس چھ ستمبر 1966 کو پہلے یوم دفاع کے موقعے پر دی تھی۔

یہ معین اختر کی پہلی باقاعدہ پرفارمنس تھی لیکن اداکاری کے جراثیم تو ان کے اندر سکول کے زمانے سے ہی تھے۔ وہ مختلف اساتذہ کی نقلیں کرکے ہم جماعتوں کو لطف اندوز کیا کرتے تھے۔

فارسی اور اردو زبان کے استاد ضیاء الاسلام کی ایسی مہارت سے نقل اتراتے کہ ایک روز انہوں نے چھپ کر معین اختر کی یہ فنکاری دیکھ لی۔ لیکن صاحبِ ذوق تھے، انہوں نے ’مولا بخش ‘ سے پٹائی کرنے کے بجائے نوجوان کی حوصلہ افزائی کی۔ معین اختر کے مطابق یہ وہ پہلی پذیرائی تھی، جس نے ان کے اندر اداکاری کا شوق اجاگر کیا۔

لیکن والد محمد ابراہیم محبوب اتنے ہمدرد نہیں تھے، جب ان تک بیٹے کی یہ کارستانی پہنچی تو انہوں نے جم کر دھنائی کر دی۔ اس کی وجہ نفسیاتی تھی۔

ابراہیم خود بھی ایک زمانے میں اداکاری کے میدان میں ہنر آزما چکے تھے اور پروڈیوسر اور ہدایت کار ایس ایم یوسف کے ساتھ تقسیم ہندسے قبل مختلف تھیٹئرز کرنے کے بعد اس شوق سے کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے اور کسی صورت آمادہ نہیں تھے کہ بیٹا فن اداکاری میں قدم رکھے۔

گھر کے کمزور مالی حالات سے تنگ آ کر ہی معین اختر نے دو ٹوک لفظوں میں اعلان کردیا کہ وہ اداکاری کر کے گھر کا سہارا بنیں گے۔ صرف 13 برس کے ہی تھے کہ شکسپیئر کے ڈرامے ’دا مرچنٹ آف وینس‘ میں شائیلوک کا کردار نبھا کر دھوم مچا دی۔ اس کے بعد کراچی میں سجنے والے مختلف سٹیج شوز میں پرفارمنس دیتے رہے۔

پاکستان میں ٹی وی کا آغاز ہوا تو معین اختر نے یہاں بھی جوتیاں گھسانا شروع کر دیں۔ خوش قسمتی ہی کہیے کہ 1972 میں ضیا محی الدین کے شو میں پہلی بار موقع ملا تو چند منٹوں کی پرفارمنس ایسی دی کہ ضیا محی الدین نے گلے لگا لیا۔

معین اختر اعتراف کرتے تھے کہ ان کی پرفارمنس کو بہتر سے بہتر بنانے میں ضیا محی الدین کی رہنمائی حاصل رہی۔

آنے والے دنوں میں وہ ٹی وی کے کئی پروگراموں اور ڈراموں میں اپنی پرفارمنس دیتے رہے۔ خوبی یہ رہی کہ انہوں نے ملنے والی ہر پیش کش کے مطابق اپنے انداز کو بدلا، ضرورت کے مطابق کامیڈین بنے تو کبھی مختصر سی پرفارمنس دینے کے لیے مختلف شہرت یافتہ اداکاروں کی نقالی کرتے اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ معین اختر ٹی وی کی ضرورت بن گئے۔

پانچ دہائیوں پر پھیلے اپنے کیریئر کے دوران معین اختر کا ہر روپ ان کے پرستاروں کو چونکا گیا۔ وہ تھیئٹر آرٹسٹ، فلم سٹار، فنکار، میزبان اور گلوکار بن کر پرستاروں کی تعداد بڑھاتے چلے گئے۔

ٹی وی یا سربراہان مملکت کا کوئی بھی بڑا شو ہوتا تو معین اختر کی اس میں موجودگی لازمی تصور کی جاتی۔ ان کی پروقار شخصیت ایسی رہی، جن کے شگفتہ اور برجستہ جملوں کی کاٹ سے ہر کوئی محظوظ ہوتا۔

معین اختر کا کہنا تھا کہ انہوں کبھی بھی کسی بھی مرحلے پر گفتگو کے دوران لچر پن، بازاری یا ذومعنی جملوں کا استعمال نہیں کیا۔ وہ شائستہ انداز گفتگو اور مہذبانہ حس مزاح میں رہتے ہوئے دلچسپ اور مزاحیہ جملوں سے ہر کسی کے چہروں کو مہکانے کا ہنر جانتے۔

معین اختر کے مطابق انہوں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ اداکاری جو ان کا شوق تھا، وہ ان کا پیشہ بھی بن سکتا ہے۔

ان کا کہنا تو یہ بھی ہے ان کے اندر صحیح معنوں میں اداکاری کی تحریک کو جلا بخشنے والے ان کے استاد ضیا الاسلام ایک روز بندرروڈ پر ملے تو انہوں نے بڑے خوش ہو کر کہا کہ ’تم واقعی بہت اچھا کام کررہے ہو، کسی دن گھر آنا، بچے یقین نہیں کرتے کہ میں تمہارا استاد تھا۔‘

معین اخترکا کہنا تھا کہ والد نے زندگی کے ایک موڑ پران کی اداکار بننے کی ضد کو فخریہ انداز میں قبول کر ہی لیا۔ معین اختر اپنی زندگی کے دو واقعات کو بہت اہم قرار دیتے۔

ان کے مطابق جب وہ ایک بار اسلام آباد میں جنرل ضیاء الحق کے شو میں شرکت کرنے جا رہے تھے، تو والد نے اصرار کیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ چلیں گے۔ معین اختر نے بتایا کہ سکیورٹی پروٹوکول ہوتا ہے، ایسے وہ اچانک انہیں نہیں لے جا سکتے، جس پر والد نے برجستہ اور بے ساختہ کہا کہ ’بھلا تمہیں کون روکے گا؟‘

معین اختر کے مطابق یہ الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے تھے کہ والد نے تسلیم کر لیا تھا کہ معین اختر بلاشبہ شہرت یافتہ فنکار ہیں، جن کی عام سے خواص تک بخوبی شناسائی ہے۔

اسی طرح دبئی میں ہونے والے دلیپ کمار کے شو میں شہنشاہ جذبات نے معین اختر کے لیے یہ تعریفی کلمات ادا کیے کہ ’معین اختر کا نام سنا تھا اور ان کی خداداد ذہانت اور شہرت سے واقف ہوں۔ جب یہ معلوم ہوا کہ میرا انٹرویو معین اختر لیں گے تواِسے اپنے لیے اعزاز سمجھا۔‘

معین اختر کے مطابق یہ تاثرات اس شخصیت کے تھے جنہیں وہ زندگی بھر اپنا آئیڈل تصور کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معین اختر کے کیریئر میں طویل دورانیے کا ڈراما ’روزی‘ ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ اسی طرح انور مقصود کے ساتھ مختلف پروگراموں کو بھی غیر معمولی پذیرائی ملی۔ کامیڈی سے بھرے مختلف ڈراموں میں معین اختر کی اداکاری کا معیار عروج پر رہا۔

عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال کے لیے چندہ مہم کے سلسلے میں ہونے والے ملکی اور غیر ملکی پروگراموں میں بھی معین اختر کی شرکت یقینی ہوتی۔

پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز یافتہ معین اختر کا کہنا تھا کہ جب اردن کے بادشاہ حسین بن طلال کے سامنے ایک شو کی میزبانی کی تو اس تقریب میں جنرل ضیاء الحق اور اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو بھی شریک تھے۔

معین اختر نے لکھے ہوئے سکرپٹ سے ہٹ کر کہنا شروع کیا کہ ’جب میں بچپن میں کتابیں پڑھتا تھا تو اس میں کسی بھی کہانی کے آغاز میں لکھا ہوتا تھا کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا اور آج اپنے سامنے حقیقی بادشاہ کو دیکھ کر محسوس ہورہا ہے کہ میرا خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔‘

اردن کے بادشاہ ہی نہیں محفل میں شریک ہر مہمان ان کے اس جملے پر مسکرائے بغیر نہ رہا۔ اردنی بادشاہ نے جنرل ضیا الحق سے معین اختر کی تعریف کی تو انہوں نے برجستہ کہا ’معین ہمارے ملک کا اثاثہ ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی فن