عجیب و غریب شکلیں بنانا اور جسم کو الٹے سیدھے انداز میں مٹکانا رنگیلا کی اداکاری کا طرہ امتیاز تھا اور کتنی عجیب بات ہے کہ انہی خوبیوں کی بنا پر وہ کئی دہائیوں تک پاکستانی فلم نگری پر راج کرتے رہے۔
بالخصوص منور ظریف اور رفیع خاور عرف ننھا کی وفات کے بعد تو وہ تن تنہا ہی فن مزاح کے شہ سوار تھے۔ کوئی بھی فلم بنا رہا ہو تو کہانی کے بوجھل مناظر کو وقتی طور پر دور کرنے کے لیے رنگیلا ہی کا انتخاب کیا جاتا۔ دور تو ایسا بھی رہا جب ہیرو اور ہیروئن سے زیادہ رنگیلا کو اہمیت دی جاتی۔ جبھی تو ہر اداکار، یہ مقام اور رتبہ پانے پر رنگیلا پر رشک کرتا۔ رنگیلا کو پاکستانی جیری لوئیس کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ہالی وڈ کامیڈین اسٹار کی طرح انہوں نے بھی جسمانی حرکات اور چہرے کو بگاڑ کر مکالمات کی ادائیگی سے غیر معمولی شہرت پائی۔
پارا چنار میں آنکھ کھولنے والے محمد سعید خان عرف رنگیلا کی زندگی کا سفر دکھوں، تکلیفوں اور پریشانیوں میں گھرا رہا۔ صرف ایک سال کی عمر میں سر پر سے ماں اور باپ کا سایہ اٹھ جانے کے بعد پشاور کا رخ کیا تو ساتھ بہن تھی۔ محفوظ مقام اور بہتر مستقبل کی تگ و دو میں زندگی نے کئی آزمائشوں کے سامنے لاکھڑا کیا۔ تعلیم کیا حاصل کرتے، دو وقت کی روٹی کی جدوجہد شروع کردی۔ محنت مزدوری کرکے اپنی اور بہن کی زندگی میں بہار لانے کی جستجو رہتی۔ ڈرامائی موڑ تو اُس وقت آیا جب دلیپ کمار کی فلم سینما میں دیکھی تو جیسے وہ شہنشاہ جذبات کے سحر میں کھو سے گئے۔
فیصلہ کیا کہ وہ بھی ایسا ہی مقام اور شہرت پائیں گے۔ جبھی پشاور سے لاہور کا سفر طے کرنے کا ارادہ کیا۔ خالی جیب پیروں کی زنجیر تو بنی لیکن خود کو اس سے آزاد کرنے کی ٹھان لی تھی۔ گو کہ رنگیلا نے پہلی بار جس فلم میں اداکاری دکھائی وہ 1958 میں آئی، لیکن ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کا اصل امتحان تو اُس وقت ہوا جب وہ پشاور سے لاہور جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوئے تھے اور تب ٹکٹ چیکر آیا تو ہزار رکعت کی نیت باندھ کر نماز پڑھنے میں مصروف ہوگئے۔ تھک ہار کر ٹکٹ چیکر ناکام لوٹنے لگا تو ٹرین میں سوار، ادھیڑ عمر کی خاتون نے رنگیلا کے ٹکٹ کی رقم دی۔ جو ان کی اس غیر معمولی اداکاری کی پہلی پرستار بنیں۔
رنگیلا شروع سے ہی اداکاری کرنا چاہتے تھے لیکن صرف ایک موقعے کی تلاش میں تھے۔ لاہور آ کر پینٹر آزاد کے ساتھ فلمی پوسٹر بنانے شروع کیے تو نگار خانوں تک رسائی ملنے لگی۔ ہر انسان کی طرح وہ بھی خود کو دنیا کا پرکشش اور خوبصورت انسان سمجھنے کی خوش فہمی کا شکار تھے، جبھی مزید دل کشں نظر آنے کے لیے تن سازی (باڈی بلڈنگ) کا آغاز کیا۔ لیکن یہاں بھی وہ مذاق ہی بن کر رہ گئے۔ تن سازی کے مقابلے میں شرکت کرنے سٹیج پر آئے، باڈی بلڈنگ کے پوز دیے تو حاضرین ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رنگیلا کہتے ہیں کہ وہ مختلف انداز کے دوران چہرے کے تاثرات کو بھی تبدیل کر رہے تھے، لیکن تماشائی ان پر جملے کستے اور قہقہے مار کر مسکراتے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب رنگیلا نے سوچا کہ وہ فلموں میں کام کرنے کی لگن اور جستجو کو اور زیادہ تیز کریں اور ہیرو بننے کی بجائے کامیڈین کے طور پر اپنی پہچان قائم کریں۔
خوش قسمتی کا دروازہ ان پر بہت جلد ہی کھل گیا۔ ہدایت کار ایم جے رانا کی ’جٹی‘ کا کامیڈین مسلسل غیر حاضر رہا تو اس معمولی سے کردار کے لیے رنگیلا کو پیش کش ہوئی، جسے رد کرنا انہوں نے ہاتھ آئے موقعے کو ضائع کر دینے کے مترادف سمجھا۔
بدقسمتی سے یہ فلم پردۂ سیمیں کی زینت تو نہ بن سکی لیکن یہ ضرور ہے کہ رنگیلا کی مختصر لیکن جاندار اداکاری کی دھوم مچ گئی۔ اسی دوران رنگیلا نے ڈکشنری سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر لفظ ’رنگیلا‘ منتخب کیا اور اپنی شناخت اب اس نام سے کرانے لگے۔ رنگیلا نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس دور میں پنجابی زبان کی زیاد ہ تر فلمیں تخلیق کی جاتیں، تو پارا چنار کے اس پٹھان نے باقاعدہ پنجابی زبان سیکھی اور خود کو اسی ماحول میں ڈھالنے کے لیے ایسے افراد کی سنگت میں زیادہ وقت گزارا جو ٹھیٹ پنجابی بولتے۔
اس دوران رنگیلا کو ’داتا،‘ ’نوراں،‘ ’چوڑیاں‘ اور ’موج میلہ‘ میں چھوٹے موٹے مزاحیہ کردار ملتے رہے۔ لیکن وہ اب تک مستند مزاحیہ اداکاروں کی فہرست میں جگہ بنانے میں ناکام رہے۔ 1963میں ’داغ‘ اور ’ہتھ جوڑی‘ کی کامیابی اور رنگیلا کی بے ساختہ مزاحیہ اداکاری نے جیسے کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ وہ بھی ہر فن مولا مزاحیہ اداکاروں میں شمار ہونے لگے۔
رنگیلا کے مطابق انہوں نے اس وقت کے مزاحیہ اداکاروں کا بغور مشاہدہ کیا، جن میں نذر، ظریف اور آصف جاہ کی کامیابی کا راز کاٹ دار اور مزاحیہ جملوں کی برجستہ ادائیگی تھا۔ رنگیلا نے ان سے دو قدم آگے بڑھ کر اپنے چہرے کے الٹے سیدھے تاثرات اور جسم کو عجیب و غریب انداز میں ڈھال کر خود کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز بنایا۔ اسے خوش قسمتی ہی کہیے کہ رنگیلا کو کیریئر کے اس موڑ پر منور ظریف کا ساتھ مل گیا اور دونوں نے ایسی جوڑی بنائی جو ہر فلم ساز کی اولین تصور کی گئی۔ بلکہ کئی فلمیں تو ایسی ہیں جن میں یہی دو کامیڈین بطور ہیرو جلوہ گر ہوئے۔
رنگیلا نے کم و بیش ساڑھے چھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ ان میں 244 اردو، 395 پنجابی اور 19 فلمیں پشتو زبان کی بھی تھیں۔ بطور پروڈیوسر اور ہدایت کار بھی ان کی صلاحتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ 1973 میں جب انہوں نے سنجیدہ موضوع کے گرد گھومتی ’دیا اور طوفان‘ کی ہدایات دینے کا اعلان کیا تو بہت سوں نے ان کا مذاق اڑایا۔
رنگیلا کی خواہش تھی کہ فلم میں حبیب کام کریں، لیکن انہوں نے اناڑی ہدایت کار ہونے کے خدشے کے پیش نظر صاف انکار کر دیا۔ کچھ ایسا ہی موسیقاروں اور نغمہ نگاروں نے بھی رویہ اختیار کیا۔ حد تو یہ ہو گئی کہ فلم ساز بھی اس تخلیق کی تقسیم کاری میں دلچسپی نہیں دکھا رہے تھے۔ ایسی صورت حال میں رنگیلا نے غیر معروف موسیقار کمال احمد کو منتخب کیا، جنہوں نے دلوں کے تار چھیڑ دینے والی دھنیں بنائیں، جب کہ رنگیلا کی ہدایت کاری کا معیار بھی منجھے ہوئے تخلیق کار کی طرح رہا۔
دلچسپ صورت حال تو اس وقت ہوئی جب رنگیلا نے بھی گانے کی ضد پکڑ لی۔ موسیقار کمال احمد بھی پریشان تھے، انکار کی صورت میں فلم سے محروم ہو سکتے تھے، لیکن انہوں نے ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رنگیلا کے سامنے یہ شرط رکھی کہ وہ خود یہ گیت تیار کریں گے۔ رنگیلا کی حامی کے بعد یہ گیت ’گا میرے منوا گاتا جا رے‘ تیار ہوا جسے انہوں نے گایا لیکن فلم میں اعجاز پر عکس بند کیا گیا۔
یہ گانا اُس وقت سے اب تک اپنی مقبولیت کھو نہ سکا۔ یوں بطور گلوکار بھی رنگیلا نے خود کو منوا لیا۔ اس گیت کے بعد کامیڈین نے کئی اور گیت بھی گائے۔ رنگیلا کی ’دیا اور طوفان‘ ہاؤس فل رہی، اور ہفتوں تک سینما گھروں میں لگی رہی۔ جو ناقدین ان کو مسخرا ہونے کا طعنہ دے کر ان کا مذاق اڑاتے، ان پر طنز کرتے، اب وہ بھی ان کی فلموں میں کام کرنے کے لیے بے چین رہتے۔ اس فلم کے بعد رنگیلا نے ’رنگیلا‘ ’دل اور دنیا‘ اور ’دو رنگیلے‘ بنا کر خوب شہرت سمیٹی۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ہر کمال کو زوال ہے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ رنگیلا کی بنائی ہوئی بیشتر فلمیں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ ان میں ’میری محبت ترے حوالے،‘ ’کبڑا عاشق،‘ ’صبح کا تارا‘ اور ’عورت راج‘ نمایاں ہیں۔ ڈھلتی عمر اور لوگوں کا مزاج اور ذوق بدلنے کی وجہ سے وہ یاد ماضی بنتے رہے۔ چار دہائیوں تک راج کرنے والا یہ باصلاحیت فنکار عمر کے آخری حصے میں سٹیج ڈراموں میں بھی جلوہ گر ہوا۔
شکوہ بس یہی رہا کہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد کئی احباب نے انہیں واقعی یاد ماضی بنا کر رکھ دیا۔