45 سالہ محمد خان تھر کے علاقے کلوئی کے رہائشی ہیں جو آج کل اپنی خاندانی زمین پر سرسوں، گندم اور لوسن کاشت کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے وہ اور ان کے گھر کے دیگر مرد کیکر کی لکڑیاں جمع کر کے اینٹوں کے بھٹوں کو بیچتے یا پھر دوسرے شہرمیں جا کر محنت مزدوری کرتے تھے لیکن اب انہیں گھر بار چھوڑ کر نہیں جانا پڑتا۔
دنیا کے ساتویں بڑے صحرا تھر کا نام آتے ہی ہم سب کے ذہنوں میں ایک طرف دور تک پھیلی ہوئی ریت، جھلسا دینے والی دھوپ، کیکر کے درخت اور اونٹ آتے ہیں۔ قحط، غربت اور غذائی قلت سے بچوں کی اموات بھی تھر کو اخباروں اور چینلوں کی شہ سرخیوں میں لے آتے ہیں۔
سات تحصیلوں پر مشتمل تھر پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق اس کا رقبہ دو لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی 15 لاکھ ہے۔ سب سے بڑی تحصیل چھاچ ہرو ہے جس کی آبادی ساڑھے تین لاکھ ہے، جبکہ دوسرے نمبر پر سوا لاکھ آبادی والی کلوئی تحصیل ہے۔
بارش کے انتظار میں آسمان کو تکتی نگاہیں
تھر میں پانی جیسی بنیادی ضرورت جب پینے کے لیے دستیاب نہ ہو تو کاشت کاری کیوں کر ہو سکتی ہے؟ یہاں اکثر علاقوں میں زیر زمین پانی انتہائی نیچے اور کھارا ہے اور پینے کے قابل نہیں، اس لیے پانی کا سارا دارو مدار موسمی بارشوں پر ہی ہے۔ تھر میں ہونے والی بارش سے کاشت کاروں کی زندگیاں چلتی ہیں، کیونکہ بارش ہے تو پینے کا پانی ہے، فصل ہے، اورجانوروں کے لیے چارا بھی۔
لیکن صحرا تھر کے باسییوں کے لیے بادل اور بارش کا انتظار طویل ہو جاتا ہے۔ یہاں بارش صرف 25 ملی میٹر تک ریکارڈ کی گئی ہے، اور اگر مون سون میں بارش نہ ہو تو مویشی مرنے لگتے ہیں۔ مقامی باشندوں کو لامحالہ مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔
تھر کی 80 فیصد آبادی گلہ بانی بانی اور لائیو سٹاک کے شعبے سے منسلک ہے، جو پاکستان کی لائیو سٹاک صنعت کا ڈیڑھ فیصد حصہ بنتا ہے۔ کلوئی کے مقامی محمد سلیم جونیجو بتاتے ہیں کہ یہاں بارش ہو گئی تو ہریالی ہے اور نہیں تو قحط سالی۔ اور خشک موسم عموما مئی سے شروع ہو کر اگست تک جاتا ہے۔
اگر موسم سختی دکھانے لگے توہم ان مہنیوں میں نقل مکانی کر جاتے ہیں۔
سولر پینل سے چلنے والا موٹر پمپ پروجیکٹ
چار بچوں کے باپ محمد خان پہلے مقامی لوگوں کی طرح مون سون کی بارشوں میں آبائی زمین پر کاشت کرتے تھے۔ پچھلے سال ان کی زمین پر ’سولر پینل موٹر پمپ‘ کے آزمائشی پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔ دعا فاؤنڈیشن کے تعاون سے لگنے والے12 سولر پینل شیٹس پر مشتمل اس پروجیکٹ سے پانی کی تین موٹریں چل رہی ہیں۔
زیر زمین پانی کا ذائقہ میٹھا ہے۔ پانی کے ذخیرے کے لیے بڑا ٹینک بنایا گیا ہے۔
پانی کی دستیابی سے محمد خان اور ان کے خاندان کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ ان کا خاندان 22 افراد پرمشتمل ہے۔ تایا چچا سب مل کر اپنی آبائی زمین پر کاشت کر رہے ہیں۔ گھر کی خواتین اور بچے بھی ہاتھ بٹاتے ہیں، جس سے آس پاس کے گھروں اور ان کی فصلوں کو پانی دیا جا رہا ہے۔
اس بار خاندان کو کاشتکاری کے لیے بارش کا انتظار نہیں کرنا پڑا، بلکہ فصل کے لیے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہے، ورنہ پہلے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ زمین سوکھی پڑی تھی۔
محمد خان نے پھولی ہوئی سرسوں دکھاتے ہوئے بتایا کہ ’یہاں ستمبر 2020 میں سرسوں اور گندم کی بوائی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی ہم نے پالک اور اپنے جانوروں کے لیے لوسن بھی کاشت کیا ہے۔ اس کے علاوہ دو سو کے قریب بیر کے درخت بھی لگائے ہیں۔ اور کناروں پر کھجور بھی لگانے کا ارادہ ہے۔
آپ دیکھ لیں سرسوں اور گندم کی فصل تیار کھڑی ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ ہمیں اس سے اچھی آمدن ہو گی۔ اب گھر میں آٹے کی کوئی قلت نہیں ہو گی۔‘
نبیتہ اور بچیاں اچھے کل کی امید لگائے بیٹھے ہیں
وفاق المدارس فیصل آباد سے ماسٹر کرنے والے محمد خان کی بیگم نبیتہ پڑھی لکھی نہیں ہیں لیکن ان کے بچے سکول جا رہے ہیں۔ نبیتہ اور خاندان کی دوسری بچیاں بھی ان کے ساتھ کھیت پر کام کرتی ہیں۔ محمد خان اور ان کے خاندان کے احاطے میں ہمارا استقبال گھر کے بزرگوں، خواتین، بچوں اور گائے بھینس، بھیڑ، بکری، مرغی اور اونٹ سے ہوا۔ تھر کے ہر گھر میں ہی مویشی مکینوں کی طرح ہی اہم سمجھے جاتے ہیں۔
دیگر تھری گھروں کی طرح ان کے گھر پر بھی غربت کے سائے ہیں۔ ان کے گھر میں داخل ہوں تو وہی تھر کی پہچان والے کچی مٹی کے ایک اور دو کمروں کے ٹھنڈے گھر۔ جہاں سجاوٹ کے لیے رنگ برنگی پنیوں اور کاغذ کی کترنوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کیا تھر کی غذائی قلت کو دور کیا جا سکے گا؟
محمد خان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ غذائی قلت سے بچوں کی اموات ہونا یہاں عام بات ہے۔ ماؤں کو ان کی ضرورت کے مطابق کھانے پینے کو نہیں ملتا ہے جس سے کمزور بچے پیدا ہوتے ہیں۔
بھوک کے عالمی اشاریہ 2017 کے مطابق، بھوک اور افلاس میں پاکستان کا نمبر 116واں ہے۔ صوبہ سندھ غذائی قلت اور خشک سالی میں سب سے آگے ہے اور شدید متاثرہ علاقہ صحرائے تھر ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام 2020 کے مطابق پاکستان کے 30 لاکھ سے زیادہ لوگ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ موسمی تغیر کی بات کریں تو گلوبل کلائیمٹ رسک انڈیکس نے پاکستان کو پانچویں نمبر پر رکھا ہے۔ یہ چند نمبر ہمیں پاکستان کی غذائی قلت اور موسمی تبدیلیوں کی شدت بتا دیتے ہیں۔
لیکن اگر تھر میں شمسی توانائی کا استعمال بڑھایا جائے تو فوڈ سیکورٹی جیسے اہم مسئلے سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔ آر او پلانٹ ہوں یا شمسی توانائی دونوں سے ہی تھر سے قحط کا شکار صحرا تھر کی تصویر بدل سکتے ہیں۔
پینے کا پانی تھر کا سب سے بڑا مسئلہ
محمد خان کے خاندانی زمین سے نکلنے والا پانی کی آلودگی کا درجہ دو ہزار ہے۔ عالمی معیار کے مطابق، 300/500 درجے تک کا پانی پینے کے لیے مناسب ہے۔
دعا فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر فیاض عالم پانی کے معیار کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’پانی کا باقاعدہ ٹیسٹ کرایا گیا ہے۔ یہ پانی پینے کے لیے مناسب تو نہیں، ہاں اسے گھریلو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ جبکہ تھر پارکر کے لوگ ڈھائی ہزار تک کے پانی کو پینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ کوئی دوسرا ذریعہ ہی نہیں۔
علاقوں میں جہاں زیر زمین پانی بہت کڑوا ہے، وہاں سندھ حکومت نے آر او پلانٹ لگائے ہیں۔ البتہ مٹھی میں ایک ارب روپے خرچ کر کے جو بہت بڑا آر او پلانٹ لگایا گیا تھا وہ بند پڑا ہے کیونکہ اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جا رہی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ علاقوں میں دریائے سندھ کا پانی بھی 15 دن یا ایک ماہ کے بعد فراہم کیا جاتا ہے۔ عمرکوٹ سے آگے تحصیل ڈاہلی تک آرمی کی زیرنگرانی میٹھے پانی کی لائن موجود ہے جس پر ہر دس کلومیٹر کے فاصلے پر واٹر پوائنٹ بنا ہوا ہے۔ واٹر پوائنٹس سے لوگ دریا کا پانی پینے کے لیے بھر کر لے جاتے ہیں۔
لوگ دور دور سے یہ پانی بھرنے کے لیے صبح سے قطاریں لگاتے ہیں۔ یعنی میٹھا اور پینے کا پانی تھری شہری کی رسائی میں مشکل اور محنت طلب ہے۔
کئی سالوں بعد پچھلے سال ہونے والی بارش سے تھر کی ہریالی میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن یہاں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ اس لیے موسلادھار بارش کا میٹھا پانی بہہ کر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
اس لیے شمسی توانائی کی مدد سے میٹھے پانی تک باآسانی رسائی اور ان سے اپنی فصلوں کی آبیاری کرنا، تھر کی باسیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ محمد خان نے سرسوں کی فصل سے خود رو جھاڑیاں نکالتے ہوئے بتایا کہ ’پہلے اس زمین پر کاشتکاری نہیں ہو رہی تھی۔ اکثر تھر میں بارشیں وقت پر نہیں ہوتیں۔
اگر اچھی بارش ہو گئی تو ہم باجرہ یا جوار اگا دیتے تھے۔ ہماری اس زمین پر پہلی بار کاشتکاری کی گئی ہے اور ہم اسے آگے بھی جاری رکھیں گے۔
’ہم چاہتے ہیں کہ یہ پروجیکٹ 10-20 سال تک چلتا رہے۔ اگر کوئی مرمت کا کام آئے گا تو ہم خود اس پر پیسہ لگا لیں گے۔ ابھی پانی کی پائپ لائن گھروں تک نہیں پہنچی ہے۔ عورتیں یہاں سے پانی بھر کر لے جاتی ہیں۔ پہلے پانی کے لیے بہت دور جانا پڑتا تھا۔
’ہم دعا فاؤنڈیشن سے درخواست کریں گے کہ گھر تک پانی کے لیے ٹنکی بنا دیں تاکہ پورے گاوں کو میٹھے پانی کی سہولت مل جائے۔ ان کے گاوں کی کل آبادی کم و پیش ایک ہزار لوگوں پر مشتمل ہے۔‘
اس غربت میں بھی مہمان نوازی کی عادت نہیں گئی
محمد خان اور نبیتہ کے دن ابھی نہیں بدلے، لیکن اچھا وقت آنے کی امید ضرور پیدا ہو گئی ہے۔ وہ تھر کے دوسرے لوگوں کی طرح اتنے فراخ دل ہیں کہ اس تنگ دستی میں بھی گھر آئی خواتین کو بکسے میں سنبھال کر رکھی گئی اوڑھنیوں کا تحفہ دیے بغیر جانے نہیں دیتے۔
انہیں امید ہے کہ اس سال ہونے والی آمدن سے ان کے پورے خاندان کی زندگیاں بدل جائیں گی۔ وہ اس پانی کی رسائی صرف اپنے خاندان تک محدود نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ ان کے گاؤں میں پانی کی ٹنکی بنا دی جائے تاکہ آگے پیچھے کے کئی گاوں میٹھے پانی سے فیض حاصل کر سکیں۔