مقامی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سابق قبائلی اضلاع میں فوج اور صوبائی حکومت دوسرے ترقیاتی کاموں کی نسبت مسجدوں میں رنگ و روغن کروانے اور سولر پینل لگوانے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے، جس کے تحت ایک ارب 36 کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
سول سیکرٹریٹ پشاور کے مطابق اب تک 300 مساجد میں سولر سسٹم مکمل ہوچکا ہے جس پر 18.3 کروڑ روپے لاگت آئی ہے اور مزید 600 مساجد میں کام جاری ہے، جس پر 45 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے مسجدوں میں شمسی توانائی کے سسٹم لگانے سے پہلے فوج نے بھی 400 مسجدوں میں رنگ و روغن کروایا تھا اور سولر پینل لگائے تھے۔
ایڈیشنل سیکرٹری انڈسٹری ظفر الاسلام خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سولر سسٹم لگانے کے علاوہ ہر ضلعے کے سب ڈویژن میں 13 سمارٹ سولر گرڈز لگانے کی منظوری ہو چکی ہے، جس پر 72.9 کروڑ روپے خرچ آئے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’اسلام آباد سے ایک تجویز آئی تھی کہ کون سا ایسا کام ہو گا جس کے کرنے پر لوگوں فوری طور پر محسوس کریں کہ واقعی کچھ کام ہوا ہے، جس پر یہاں ایک میٹنگ ہوئی، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ قبائلی اضلاع کے تمام شہریوں کا مسجدوں سے زیادہ لگاؤ ہے اور چھوٹے بڑے سب مسجدوں میں نماز ادا کرنے جاتے ہیں، اس لیے یہ کام لوگ فوری طور پر محسوس کریں گے۔ یہ تجویز مرکز کوپسند آئی اور بجٹ کی منظوری دے دی گئی۔‘
اس حوالے سے وانا سے تعلق رکھنے والے امیر حمزہ کا کہنا ہے کہ ’مسجد ایک ایسی جگہ ہے جہاں گاؤں کے چھوٹے بڑے پانچ وقت نماز کے لیے حاضر ہوتے ہیں، جس میں ایک معمولی سا کام بھی ہر ایک کو دکھائی دیتا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’صوبائی حکومت سولر سسٹم اس لیے لگا رہی ہے کہ گاؤں کے چھوٹے بڑے ان کی تعریف کر سکیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا کارنامہ ہے کہ اب مسجد میں روشنی دیکھنے کو ملی ہے۔‘
مولانا نور حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسجدوں میں رنگ و روغن اور سولر سسٹم لگانے سے مذہبی طبقے اس سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ اب مسجدوں میں بھی لوگ پی ٹی آئی کی تعریف کرنے لگیں گے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے لوگ دوسرے علاقوں کے لوگوں کے نسبت زیادہ مذہبی ہیں اور دین کے معمولی سی کام کرنے پر متاثر ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وانا میں ایسے مساجد میں بھی سولر سسٹم لگا دیے گئے ہیں، جہاں ان کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ’وانا کے دور دراز پہاڑی علاقے بہت زیادہ پسماندہ ہیں جہاں نہ پانی کی سہولت ہے اور نہ ہی زندگی کی کوئی اور سہولت میسر ہے۔ اگر یہ سسٹم وہاں لگا دیے جاتے ہیں تو غریبوں کو پانی مل جاتا جس کا زیادہ ثواب ملتا۔‘
نورحسن کے مطابق مسجدوں میں رنگ و روغن اور سولر سسٹم لگانے کے لیے نہ کوئی مطالبہ ہوا ہے اور نہ ہی کوئی احتجاج سامنے آیا ہے مگر حکومت کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں اور جو لوگ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرہے ہیں ان کی آواز کوئی بھی نہیں سن رہا ہے۔
واضح رہے کہ قبائلی اضلاع میں کوئی بھی مسجد حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہیں، البتہ 11 سو کے قریب مدارس میں سے محکمہ تعلیم کے مطابق 584 مدرسے رجسٹرڈ ہیں، جس میں 273 لڑکوں، 121 لڑکیوں جبکہ 190 مخلوط مدرسے شامل ہیں۔
ملک کے دوسرے دیہی علاقوں کی طرح سابق قبائلی اضلاع میں بھی مسجد صرف نماز کے لیے استعمال نہیں ہوتی بلکہ مسجد کا لاؤڈ سپیکر گاؤں کے اجتماعی کاموں، فاتحہ خوانی اور اہم خبروں سے آگاہی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومتوں نے پولیو مہم اور کرونا سے آگاہی کی مہم کے لیے بھی مسجدوں کو خوب استعمال کیا ہے۔