بلوچستان کے شمالی علاقے کوئٹہ سے پانچ سو سے زائد کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع موسیٰ خیل کی تحصیل جہاں قدرت کی صناعی کاشاہکار ہے۔ وہاں اس کی انفرادیت یہاں کے لوگوں کی بولی جانے والی زبان سے بھی ہے۔
یہاں پر ایک پشتون قبائل سے تعلق رکھنے والی قوم آباد ہے جو جعفر کہلاتی ہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ یہ لوگ پشتو زبان میں نہیں بلکہ اپنی تخلیق کردہ ’جعفرکی‘ میں بات کرتے ہیں۔
یہ زبان آس پاس کے پشتون، بلوچ، سرائیکی، کھیترانی بولنے والے قوموں کی زبان سے مختلف ہے۔
اس علاقے کی اہمیت کی ایک وجہ یہاں کا علاقہ درگ بھی ہے جو ایک قدیم اور تاریخی علاقہ ہے۔ جعفر قبیلے پر پہلی دفعہ تحقیقی کتاب لکھنے والے محقق محمد اقبال مندوانی جعفر کا کہنا ہے کہ درگ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹیلے کے ہیں۔ اقبال کی تحقیق کے مطابق یہاں کے قدیم باسی ہندو تھے۔ بعد میں یہ جگہ کسی حادثے کی وجہ سے تباہ ہو گئی۔ ٹیلے پر کھدائی کے دوران کسی آبادی کے آثار ملے ہیں۔
اقبال نے ’جعفر شجرہ نسب اور جعفر پٹھان کا تحقیقی جائزہ‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ درگ اصل میں درگ درہ کے نام پر ہے۔ جعفرکی میں اس کے معنی ویران جگہ یا ویران میدان کے ہیں۔ جو درست نہیں ہے۔
اقبال نے اپنی کتاب میں پشتون قوم کے شجرۂ نسب پر تحقیق کر کے بتایا ہے کہ یہ درست نہیں کہ پشتونوں کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ ان کا بنیادی ماخذ ہو سکتا ہے، لیکن یہ ایک مخلوط قوم ہے۔ دنیا میں ایسی کوئی قوم نہیں جو نسلی طور پر ایک ہو کیوں کہ سب میں انضمامی عوامل کارفرما ہیں۔
جعفرکی زبان کی تاریخ
جعفر قوم کی 45 فیصد آبادی جعفرکی زبان بولتی ہے۔ یہ ایک مخلوط زبان ہے جس میں اردو، کھیترانی، سندھی، ہندی، سرائیکی، ترکی، فارسی، پشتو، جتکی، بلوچی، پنجابی اور ہندکو کے الفاظ پائے جاتےہیں۔
اقبال کے بقول: ’بنیادی پر اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ جب یہاں پر سنسکرت بولی جاتی تھی تو اس کا سامنا پشتو زبان سے ہوا۔ اس علاقے میں جگہوں کے جو پرانے نام ہیں اور جعفرکی میں استعمال ہوتے ہیں، ان کی اکثریت کا ماخذ سنسکرت ہے اور یہ نام ابھی تک استعمال ہورہے ہیں۔
اقبال نے بتایا کہ آج بھی جعفرکی میں استعمال ہونے والے بعض الفاظ سنسکرت کے ہیں۔ مثال کے طور پر ’ان‘ سنسکرت میں اناج کو کہا جاتا ہے اور جعفرکی میں بھی یہی لفظ پایا جاتا ہے۔ ’چھوڑ‘ جس کے معنی رخ کے ہیں۔ اسی طرح سے سیم: حد، بھہ: آگ، تڈ: زور، گئو: گائے، کیارا: غمزدہ جیسے الفاظ جعفرکی میں استعمال ہوتے ہیں۔
دوسرا اس زبان پر سندھی کا زیادہ اثر بھی ہے۔ کیوں کہ یہاں پر موجود ہندوؤں کے رابطے سندھیوں سے ہو سکتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں کے ہندو کچھ ہندوستان اور کچھ روہڑی سندھ چلے گئے۔
اقبال نے بتایا کہ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو سندھ کی سرزمین ملتان اور اس علاقے تک تھی جو بعد میں محدود ہوتی چلی گئی، اس کے باعث اس زبان اور یہاں پر موجود کھیترانی پر اس کے اثرات موجود ہیں۔
سندھیوں کا رابطہ دوسرے قبائل کے درمیان آنے کے بعد منقع ہو گیا جیسے جعفر اور سندھیوں کے درمیان بزدار قبیلہ آ گیا۔ جعفر قوم نے اس کے بعد اپنی زبان بنائی جو آس پاس بولی جانے والی پشتو، بلوچی، سرائیکی، کھیترانی سب سے مختلف ہے۔
جعفر قوم کی آمد
اقبال نے بتایا کہ تاریخ میں جھانکنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جعفر کے والد کا نام میانڑا میانہ تھا جو کوہ سلیمان کے سلسلے تخت سلیمان میں رہتے تھے۔ وہاں سے وہ جنوبی مشرقی ڈھلانوں سے ہوتے ہوئے موجودہ قیصرانی قبیلہ کے علاقے میں آ گئے۔
انہوں نے بتایاکہ یہ سولہویں صدی کی بات ہے اس کے بعد یہ لوگ آگے بڑھتے گئے اور کوٹ قیصرانی کے علاقے چھتروٹہ پہنچے۔ اس جگہ میں ان کی موجودگی کے حوالے سے بعض تاریخی معاہدات کی دستاویزات بھی میرے پاس موجود ہیں۔
اقبال نے بتایا کہ جیسے انگریز مورخین اور دیگر تاریخ دانوں نےلکھا ہےکہ جعفر قبیلہ چونکہ پرامن رہا ہے اور اسی وجہ سے اس کو ہمسایہ جارح قوموں کی طرف سے جنگوں کی طرف دھکیلا جاتا رہا ہے، جس کے بعد اس کے علاقے ان قوموں نے قبضے میں کرلیے جو آج تک واپس نہیں ہوئے۔
جعفر قوم اس وقت درگ، کرکنہ، گڑگوجی اور نتھ کے علاقے میں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بلوچستان کے دوسرے علاقوں لورالائی، کوئٹہ میں موجود ہیں۔
لہجے اور زبان کا فرق
اقبال نے بتایا کہ جعفرکی لہجہ نہیں بلکہ الگ زبان ہے۔ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پشتو زبان ہے، جو بلوچستان میں مختلف اور خیبر پختونخوا میں دوسرے لہجے کے ساتھ بولی جاتی ہے۔
اسی طرح پنجابی اور سرائیکی ہے، جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں لیکن ان کو الگ زبان سمجھا جاتا ہے۔ جعفرکی کو پشتو بولنے والے بالکل نہیں سمجھتے ہیں۔ سوائے ان قبائل کے جو جعفر قبائل کے علاقے کے قریب رہتے ہیں، جن کو اس قوم سے واسطہ نہیں پڑا ان کے لیے یہ اجنبی زبان ہے۔
جعفرکی زبان میں شاعری
اقبال نے بتایا کہ ’بدقسمتی سے جعفرکی زبان کو ابھی تک تحریر نہیں ہوئی، کیوں کہ اس کے حروف تہجی نہیں بنے ہیں لیکن اس میں زبانی شاعری ہو رہی ہے۔ میں نے خود شاعری کی ہے۔ چونکہ شاعری علم عروض کے مطابق ہوتی ہے، اس لیے مجھے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔ تاہم جعفرکی میں لکھتےہوئے بعض اوقات ہم لفظ نہ ملنے پر اس کے ملتا جلتا لفظ استعمال کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’جعفروں کی زبان بدلی تو انہوں نے پٹھان ہوتےہوئے بھی لاحقہ آنی کا استعمال شروع کیا جو بلوچستان میں رائج ہے۔ آنی لاحقہ سے عمرانی اور خدرانی کو دیکھا جائےتو قلات اور نصیرآباد میں یہ دو بڑے قبیلے بلوچ قوم کے ہیں، لیکن ان کا جعفر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
البتہ یہ ماننا لازمی ہے کہ جعفروں کی ثقافت الگ ہوتے ہوئے بھی اس میں بلوچی رنگ کی بو ملتی ہے۔‘
اقبال اپنی کتاب میں ایک انگریز تاریخ دان سی ایف منچن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس نے اپنی کتاب میں جعفرکی میں بولی جانے والے دنوں کے نام لکھے ہیں جو تقریباً 107 سال قبل کے ہیں۔ ان میں جمعہ کا دوسرا نام ادیرا ختم ہو چکا ہے۔ سکنی سکھنڑیں میں دھرائی دراہی میں سنوار سووارمیں تبدیل ہو چکا ہے۔
جبکہ باقی اسی طرح چل رہے ہیں۔ جمعہ اسلامی نام ہے۔ دراہی کا مطلب ملاقات کرنا یا خفیہ ملاقات کو جانا وقت دینا کے ہیں۔ سووار(تیسرادن) انگارہ (سرخ یا منحوس دن) کو کہتے ہیں۔
قیامت اس دن آئے گی جب جعفر مہمان نوازی ختم کر دیں گے
اقبال کے بقول: جعفر قوم میں بھی موسیقی کا شوق ہے اور انگریز تاریخ دان منچن کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ موسیٰ خیل ضلع میں فن موسیقی کی ابتدا جعفر وطن سے ہوئی۔
جعفر قوم بھی مہمان نواز ہے اور اپنی آزاد مہمان نوازی کے حوالے سے مشہور ہے۔ جس کا تذکرہ سر فریڈ فرائیر نے بھی کیا ہے جو ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’جعفر اپنی آزاد مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں اور یہاں ایک ضرب المثل مستعمل ہے کہ قیامت اس دن آئی گی جب جعفر اپنی مہمان نوازی ختم کر دیں گے۔‘
شادی بیاہ کی رسمیں
جعفر قوم کی شادی بیاہ کی رسمیں بھی دوسری قوموں کی طرح ہیں تاہم کسی عورت کے بیوہ ہونے پر اس کی دوسری شادی پہلے سے شادی شدہ مرد سے ہوتی ہے۔ جبکہ ایک جعفر قبیلے کا ایک فرقہ خواجگان جو تونسہ میں ہیں ان میں ایک غیر اسلامی رسم ہے کہ بیوہ کودوسری شادی نہیں کرنے دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ اپنی بیٹی کو خاندان سے باہر بیاہنے کو بھی معیوب سمجھتے ہیں۔
جعفر قبیلہ میں ایک بڑی آبادی مختلف ایام میں شادی کو ٹھیک نہیں سمجھتے ہیں خاص طور پر محرم اور ماہ صفر اور ربیع الاول کے پہلے عشرہ میں جبکہ سید برادری کچھ اور ایام میں بھی شادی سے احتراز کرتے ہیں۔ کتاب سے اقتباس
جعفر قوم میں بچی پیدائش کو عموماً اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن بیٹےکی پیدائش پر کچھ عجیب سماں ہوتا ہے۔ بیٹے کی پیدائش پر رشتہ دارگھر آکر بندوق کے تین تین فائر کرتے ہیں۔ زیادہ اور کم فائر کو بھی بدشگونی کے سمجھا جاتا ہے۔ فائر سے قبل بندوق کا سر پانی سے ہلکا دھولیاجاتا ہے۔ یہ پانی بچے کو پلایا جاتا ہے۔ کتاب سے اقتباس
گو کہ اقبال نے جعفرقوم کی تاریخ کےحوالے سے کتاب لکھ کر ابتدائی کام تو کرلیا ہے۔ تاہم اس قوم کی زبان جعفرکی پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے جو اس کے تخلیق اور پشتو اور دوسری زبانوں سے اس کے الگ ہونےکے بارے میں بتاسکے۔