اسرائیلی فوج نے غزہ پر حالیہ حملے کے دوران حماس کے فوجی کمانڈر محمد ضیف کو قتل کرنے کی دو بار کوشش کی مگر دونوں بار ناکام رہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ہدائی زلبرمین نے منگل کی رات میڈیا کو بتایا کہ اسرائیلی فوج نے محمد ضیف پر گذشتہ ڈیڑھ ہفتے کے دوران دو بار حملہ کیا مگر وہ بچ نکلے۔
تاہم دوسری جانب حماس کے ذرائع نے کہا ہے کہ یہ اسرائیل کی جانب سے ’نفسیاتی جنگ‘ کا حصہ ہے۔
اسرائیل ٹائمز نے غزہ کے صحافی ابراہیم المدہون، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حماس سے خاصے قریب ہیں، کے حوالے سے لکھا ہے کہ محمد ضیف ’مکمل کنٹرول کے ساتھ لڑائی کی قیادت کر رہے ہیں۔ مبینہ قتل کی خبر نشر کرنے کا مقصد نفسیاتی جنگ ہے۔‘
اگر اس خبر کی آزاد ذرائع سے تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ پہلی بار نہیں ہو گا کہ اسرائیل نے محمد ضیف کو نشانہ بنایا ہے۔ حماس کے فوجی کمانڈر محمد ضیف پچھلے 25 برس سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر موجود ہیں، اور اطلاعات کے مطابق اس سے قبل کم از کم پانچ بار ان کی جان لینے کی کوشش کی جا چکی ہے اور وہ بار بار زخمی ہوتے رہے ہیں مگر ہر بار بچ نکلتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد ضیف کون ہیں؟
محمد ضیف عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر ہیں جو حماس کا ملٹری ونگ ہے۔ قسام بریگیڈ کو امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ اسرائیلی شہریوں پر ہونے والے کئی حملوں کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے اس لیے انہیں عام طور پر اسرائیل کا ’دشمن نمبر ایک‘ سمجھا جاتا ہے۔
محمد ضیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دیسی ساختہ بم بنانے کے ماہر اور عمدہ عسکری صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق محمد ضیف نے بم سازی کا فن حماس کے رہنما یحییٰ عیاش سے سیکھا تھا جو بم بنانے کے ماہر تھے اور ’انجینیئر‘ کے نام سے مشہور تھے اور مبینہ طور پر فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے خودکش حملوں کے ماسٹر مائنڈ تھے۔
محمد ضیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غزہ کے نیچے سرنگوں کے وسیع جال کے نگران بھی وہی ہیں۔
ان کا اصل نام محمد ذیاب ابراہیم المصری ہے، مگر چونکہ ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں، اس لیے وہ ضیف کے نام سے مشہور ہو گئے جس کا عربی میں مطلب ’مہمان‘ ہے۔ وہ 1965 میں خان یونس میں پیدا ہوئے تھے، البتہ بعض دوسرے ذرائع کے مطابق ان کی پیدائش کا سال 1960 ہے۔
محمد ضیف نے کالج میں سائنس کی تعلیم حاصل کی اور 1987 میں حماس میں شامل ہو گئے۔ 2002 میں وہ اسرائیل کے ہاتھوں صلاح شحادة کے قتل کے بعد القسام بریگیڈ کے سربراہ بن گئے۔
محمد ضیف کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں اور ان کی شخصیت کے گرد اسرار کے تانے بانے بنے ہوئے ہیں۔ وہ خود میڈیا پر ظاہر نہیں ہوتے اور ان کے بیانات ترجمانوں کے ذریعے منظرِ عام پر آتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنے جاسوسوں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے مسلسل ان کی تاک میں رہتا ہے اور متعدد بار انہیں جان سے مارنے کی کوشش کر چکا ہے۔
فرانس 24 کے مطابق ان کے صرف تین ٹیلی ویژن انٹرویو موجود ہیں جن میں ان کا چہرہ اندھیرے میں ہے۔ محمد ضیف کی کوئی حالیہ تصویر بھی نہیں ملتی اور ان کی آخری مصدقہ تصویر 1989 کی ہے جب ان کی عمر 24 برس تھی۔ جب اسرائیلی حملے میں ان کے اہلِ خانہ کا انتقال ہوا تو وہ جنازے میں بھی شریک نہیں ہوئے، تاہم بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق وہ شریک ہوئے تھے مگر کسی نے انہیں پہچانا نہیں۔
فرانس 24 کے مطابق محمد ضیف کے سسر نے بھی اعتراف کیا کہ ان کی اپنے داماد سے صرف ایک بار 2007 میں ملاقات ہوئی تھی جب وہ رشتہ مانگنے ان کے پاس آئے تھے۔
قتل کرنے کی بار بار کوششیں
فلسطینی ویب سائٹ ’السرب‘ کے مطابق فلسطینی حکام نے 2000 میں محمد ضیف کو گرفتار کر لیا تھا مگر 2001 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔
اس کے بعد 2002 میں ان کی گاڑی پر اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے حملہ کیا جس میں ان کے دو ساتھی مارے گئے مگر ضیف بچ نکلے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق ان کے سر پر چوٹیں آئی تھیں جن سے ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔
اس کے بعد 2014 میں اسرائیل نے ان کے گھر پر بمباری کر کے اسے زمین بوس کر دیا، جس سے ان کی اہلیہ، نومولود بچہ، ایک بچی اور چھ دوسرے افراد مارے گئے۔
اسرائیل نے اعلان کر دیا تھا کہ محمد ضیف بھی اس حملے میں مارے گئے ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ زندہ ہیں۔
بدستور نشانے پر
اتوار کو اسرائیل ڈیفنس فورسز کی جنوبی کمانڈ کے سربراہ الیزر تولیدانو نے کہا کہ ضیف اسرائیلی فوج کے نشانے پر ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’محمد ضیف اور یحییٰ السنوار اسرائیل کے نشانے پر تھے اور رہیں گے۔‘
پانچ مئی کو بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں فلسطینی خاندانوں کی بےگھری کے معاملے پر محمد ضیف نے ’ٹیلی گرام‘ پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ’حماس کی قیادت شیخ جراح میں ہونے والے واقعات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور قابضوں کو آخری بار خبردار کرتی ہے کہ اگر شیخ جراح کے لوگوں کے خلاف جارحیت فوری طور پر نہ روکی گئی تو مزاحمت خاموش نہیں رہے گی بلکہ دشمن کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘