گذشتہ ہفتوں میں بٹ کوئن کو مختلف انداز میں کئی دھچکے سہنے پڑے ۔ کاربن آلودگی میں اضافہ کرتی کرپٹو کرنسی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے سب سے بڑے حمایتی ایلون مسک دستبردار ہو چکے ہیں۔ لیکن سب سے کاری وار حالیہ ہفتے میں چین کی حکومت نے کیا۔
بدھ کے روز بیجنگ کے حکام نے اپنے مقامی مالیاتی اداروں پر پابندیاں سخت کرتے ہوئے بینکوں اور دیگر اقتصادی کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کرپٹو کرنسی میں لین دین سے گریز کریں اور انہیں کرپٹو کرنسی سے متعلق سہولیات اور خدمات فراہم کرنے سے منع کر دیا۔
نئی پابندیوں کے سبب کرپٹو کرنسی کی تجارتی قدر و قیمت تقریباً 30 فیصد تک کم ہو کر رہ گئی ہے۔
ویسے تو کئی قومی مالیاتی اداروں کو بٹ کوئن اور کرپٹو کرنسیوں پر تحفظات ہیں لیکن اس کے اور اس کی ماحولیاتی نظام کی تباہی کے خلاف چین پیش پیش ہے۔
لیکن چین ان سکوں کے اس قدر خلاف کیوں ہے اور کیا دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت کی مخالفت بٹ کوئن کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی؟
کسی حد تک یہ مخالفت صارفین کے تحفظ سے وابستہ خدشات کی بنیاد پر ہے۔ اس ہفتے جاری ہونے والے حکومتی بیان نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بٹ کوئن 'حقیقی کرنسی نہیں ہے' اور اس کی ترقی کا سبب ’سٹہ بازی‘ تھی۔
گذشتہ برسوں میں چین وقتاً فوقتاً سٹاک مارکیٹ میں وسیع پیمانے پر عدم استحکام سے گزرا ہے اور چین کے عام شہری اس اتار چڑھاؤ کو قانونی جوا بازی قسم کی چیز سمجھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ بٹ کوئن کے متعلق بھی ایسا ہی گمان رکھتے ہیں۔
چین کے حالیہ اقدامات کے پیچھے ایک واضح سبب ماحولیاتی تحفظ بھی ہے۔
بٹ کوئن کی تقریباً 65 فیصد مائنگ چین میں ہوتی ہے جس پر کوئلے سے بننے والی بجلی کی بھاری مقدار خرچ ہوتی ہے۔ سو کرپٹو کرنسی کے نتیجے میں پھیلنے والی کاربن آلودگی پر قابو پانا چین کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔
موجودہ سال منگولیا نے ماحولیاتی تحفظ کے سبب بٹ کوئن مائنگ کو روکنے کا عہد کیا اور مقامی آبادی سے کہا کہ اگر انہیں اپنے پڑوس میں ایسی کسی سرگرمی کا شبہ ہو تو فوراً اطلاع کریں۔
اگرچہ یقینی طور پر ان دونوں محرکات کے پیچھے اصل وجہ معاشی تسلط برقرار رکھنے کی چینی خواہش ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مغرب کی نسبت چین میں ڈیجیٹل مالیات کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر پھیلی ہے جہاں کروڑوں چینی شہری اپنے موبائلوں سے ادائیگی کرتے اور وی چیٹ پے اور علی پے جیسی آن لائن ایپس میں رقم جمع رکھتے ہیں۔
چین خوفزدہ ہے کہ پیسوں کی یہ ڈیجٹائزیشن رفتہ رفتہ مقامی مالیاتی نظام اور سرمائے کی اقتصادی ترسیل پر اس کی گرفت ختم نہ کر دے۔
گذشتہ دہائیوں میں بالخصوص 2008 کے معاشی بحران کے بعد سے چین نے عام شہریوں کی ریاستی بینکوں میں پڑی رقم ریاستی کاروباری کمپنیوں کو سستے قرضوں کی صورت میں دیتے ہوئے اپنی مقامی معیشت کو وسیع کیا ہے۔
بینکوں میں پیسہ جمع کروانے والے افراد دراصل اپنی رقم کو ضائع سمجھتے ہیں کیونکہ اس دوران مہنگائی میں اضافے کے مقابلے میں انہیں ملنے والی شرحِ سود کم ہوتی ہے۔
لیکن ریاستی حکام کی طرف سے انہیں اپنا سرمایہ چین سے باہر کسی دوسری جگہ لے جانے پر پابندیاں عائد ہیں جہاں شاید انہیں بدلے میں بہتر فوائد حاصل ہوں۔
بٹ کوئن جیسی آن لائن کرپٹو کرنسیوں نے چین کے لیے یہ خطرہ پیدا کر دیا ہے لوگ اِن کے ذریعے ان پابندیوں سے بچ سکتے ہیں۔
سیکسو مارکٹس کے ایڈم رینلڈز کہتے ہیں کہ ’ملک کے اندر کرپٹو کرنسی میں خریداری اور ملک سے باہر سرمائے کی منتقلی چینی حکام کی گرفت کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ریاستی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے ان پر ملک میں پابندی نہایت ضروری ہے۔‘
کرپٹو کرنسیاں مقامی ریاستی بینکوں میں جمع ہونے والی رقم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں جس کے نتیجے میں حکومت کے لیے سستے قرضہ جات مہیا کرتے ہوئے جی ڈی پی گروتھ بڑھانا ناممکن ہو جائے گا۔
ایسا لگتا ہے مالیاتی گرفت برقرار رکھنے کی ریاستی فکرمندی کی وجہ سے ہی پچھلے سال جیک ما کے اینٹ گروپ کو ڈیجیٹل پیمنٹس سروس (جو علی پے کی ملکیت ہے) کے حصص بیچنے کا طے شدہ فیصلہ منسوخ کرنا پڑا۔
یہ یقیناً اس بات کا جواب بھی فراہم کرتا ہے کہ دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کی نسبت چین کے عوامی بینک عوام کے لیے ڈیجیٹل کرنسی کا نظام وضع کرنے میں کیوں سب سے آگے ہیں۔ یہ نظام لوگوں کو نجی ڈیجیٹل کرنسیوں کا سرکاری متبادل فراہم کرے گا اور ممکن ہے بالآخر چینی شہریوں کے لیے واحد میسر راستہ رہ جائے۔
اس میں ایک اور نہایت اہم عنصر بھی شامل ہے۔ آزاد خیالی کی حامی بٹ کوئن جیسی کرنسیاں اپنے صارفین کو پرائیویسی کی پیشکش کرتی ہیں۔ چینی حکام کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ یہ پرائیویسی ہے جو نہیں چاہتے کہ ان کے شہری سرکاری معلومات کے بغیر اپنا سرمایہ ادھر سے ادھر کر رہے ہوں۔
چین کی مخالفت بٹ کوئن کا دھڑن تختہ کرے گی یا نہیں اس کا انحصار خلافِ توقع طور پر اس بات پر ہے کہ اس کے کتنے صارفین پرائیویسی کو اہمیت دیتے ہیں۔
اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو چین جیسی جابرانہ حکومت کا تسلط اور دشمنی اس کی اہمیت میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے اور اس کی نتیجے میں اس کی قدر و قیمت بھی بڑھ جائے گی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ 2017 میں چین کی طرف سے بٹ کوئن میں لین دین ختم کرنے کے باوجود (جو عالمی تجارت میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے) کرپٹو کرنسی آنے والے برسوں میں پھلتی پھولتی رہی اور اس سال تمام بٹ کوئنز کی قیمت ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالروں تک جا پہنچی۔
البتہ اگر کچھ صارفین محض دعووں کے بجائے واقعی بٹ کوئن کے مرکزی مالیاتی نظام سے انسلاک کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو ممکنہ طور پر چین میں اس کا مستقبل تاریک ہو گا۔
اور اگر دنیا کے دیگر نگران ادارے چین کے نقش قدم پر چلتے ہیں تو یقیناً دنیا بھر سے کرپٹو کرنسی کا صفایا ہونا ناممکن نہیں۔
© The Independent