(مقبول فدا حسین کی دسویں برسی کے موقعے پر خصوصی تحریر)
یہ 1990 کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ بالی وڈ کے شہر ممبئی میں فلمی دنیا سے لے کر عوامی حلقوں میں معروف مصور مقبول فدا حسین معروف بہ ایم ایف حسین کے اداکارہ مادھوری دکشت پر فدا ہونے کے چرچے زبان زد عام ہو گئے۔
اس میں اچنبھے کی بات یہ ہے کہ دونوں کی عمر میں انیس بیس کا نہیں بلکہ دادا پوتی جتنا فرق تھا۔ حسین 80 سال کے تھے اور مادھوری محض 28 سال کی۔
مقبول فدا حسین اپنی خود نوشت ’ایم ایف حسین کی کہانی اپنی زبانی‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے مادھوری سے دل کے تار فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ کے گانے ’دیدی تیرا دیور دیوانہ‘ میں مادھوری کے ’کمر توڑ جھٹکوں‘ سے جڑ گئے۔
معروف کشمیری مصنف غلام نبی خیال نے سری نگر سے شائع ہونے والے ماہانہ جریدے ’شیرازہ‘ کے مقبول فدا حسین نمبر میں لکھا ہے: ’اس میں حسین کا کوئی دوش نہیں۔ مرد خواہ کسی بھی عمر کی دہلیز پر بیٹھا ہو ایک خوبصورت نسوانی چہرہ دیکھ کر اس کا دل ضرور زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔‘
'آپ میں سے جس نے فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ دیکھی ہو گی تو وہ مادھوری کے قیامت خیز، جذبات انگیز اور مردانہ جبلت کو شعلوں میں لپٹنے والے حسن کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس تعلق سے مقبول فدا حسین کو کچھ عرصے تک مادھوری فدا حسین کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
’یہ واقعہ اپنی مثال آپ ہے کہ عاشق مقبول فدا حسین نے مادھوری دکشت کے جادو کو اپنے سر چڑھا کر فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ 67 بار دیکھی اور ایک بار تو انہوں نے مادھوری کی ایک اور فلم ’آ جا نچلے‘ کسی اور کی موجودگی اور شور شرابے کے بغیر دیکھنے کی غرض سے ممبئی کا ایک پورا سینما ہال بک کر لیا۔
’مادھوری کو اپنے خوابوں میں حقیقت کا روپ دینے کی غرض سے انہوں نے ’گج گامنی‘ نام کی ایک فلم خود بنائی جس میں مادھوری نے شاہ رخ خان کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔‘
بھارتی خاتون مصور ایلا پال مقبول فدا حسین کی سوانح عمری ’حسین --- پورٹریٹ آف این آرٹسٹ‘ میں لکھتی ہیں: ’جب حسین پہلی بار ’ہم آپ کے ہیں کون‘ دیکھنے گئے تو ابھی فلم کو چلے 20 منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ سینما ہال سے باہر نکل آئے۔ خدا ہی جانے کہ انہیں کیا سوجھی کہ وہ ایک مرتبہ پھر یہ فلم دیکھنے چل پڑے۔
’حسین نے اس بار تھوڑا صبر سے کام لیا۔ جوں ہی انہوں نے اس فلم کے گانے ’دیدی تیرا دیور دیوانہ‘ میں مادھوری کو مٹکتے دیکھا تو وہ جسم کی ان حرکات کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ بس پھر کیا تھا حسین اس فلم کو بار بار دیکھتے رہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں عشق میں دیوانہ تھا‘
ایلا پال نے لکھا ہے: 'میری حسین سے آخری ملاقات 2009 میں دبئی میں ہوئی۔ جب میں نے ان سے مادھوری کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ میں عشق میں دیوانہ تھا۔
’میں اس کا مالک نہیں بننا چاہتا تھا، لیکن ایک عجیب و غریب انداز میں، میں اسے کھا جانا چاہتا تھا --- اس کی جنسیت --- اور جانوروں کی جبلت پر قابو پانے کا واحد دستیاب طریقہ اسے سیلولائڈ میں قید کرنا تھا۔ وہ میرے تخلیقی عمل کا ایک اہم حصہ تھیں۔‘
ایلا پال کے مطابق جہاں میڈیا حسین کی فلم ’گج گامنی‘ سے قطعی طور پر لاتعلق نظر آیا تھا وہیں اس نے ان کی مادھوری سے دل لگی میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی تھی۔
’حسین نے یہ فلم نہ صرف مادھوری بلکہ دیگر بھارتی خواتین بشمول اپنی والدہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنائی تھی۔‘
وہ آگے لکھتی ہیں: ’مادھوری کا جادو حسین پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ انہوں نے مادھوری کی ہر ایک ایوارڈ تقریب میں شرکت کی اور وہ مور کی طرح سٹیچ پر ان کے ساتھ نمودار ہو جاتے تھے۔ مجھے شبہ ہے کہ انہیں یہ بھرم تھا کہ وہ فلمی برادری کا حصہ بن چکے ہیں، مگر جوں ہی مادھوری نے ایک غیر مقیم بھارتی یا این آر آئی (سری رام مادھو نینے) سے شادی کی اور امریکہ ہجرت کر گئیں تو فلم والے حسین کو جلد بھول گئے۔‘
ایلا پال کے مطابق حسین کا عشق یکطرفہ تھا، مادھوری ان سے پیار نہیں کرتی تھیں لیکن انہیں اپنی زندگی سے الگ بھی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
’سوال یہ ہے کہ کیا مادھوری بھی حسین سے عشق کرتی تھیں؟ نہیں، وہ نہیں کرتی تھیں۔ میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ رہی ہوں۔ مادھوری انتہائی باتدبیر اور اثرپذیر تھیں، مگر وہ عشق میں مبتلا نہیں تھیں۔
’اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک عورت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک آرٹسٹ کی زندگی میں اہم ہو گئی ہے، وہ بھی جب کوئی حسین کے جیسا مشہور ہو، تو وہ اس احساس سے لطف اٹھانا شروع کرتی ہے اور نادانستہ طور پر ہی صحیح ایک خاموش ساتھی کا کردار ادا کرتی ہے۔‘
ایلا پال نے لکھا ہے کہ ایم ایف حسین ہنس مکھ اور خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے اور اپنی باتیں فلمی گانوں سے جوڑ کر بولنے کا بھی ہنر جانتے تھے۔
’میں نے سنہ 2007 میں لندن میں ایک بار حسین سے پوچھا کہ اب آپ کا کیا منصوبہ ہے۔ تو ان کا جواب تھا --- آپ جانتی ہو کہ میں منصوبہ بندی نہیں کرتا۔ چیزیں ہو جاتی ہیں اور لوگ مل جاتے ہیں۔ وہ گانے لگے --- میں تو رستے سے جا رہا تھا۔ میں تو سیٹی بجا رہا تھا، مجھ کو مادھوری ملی تو میں کیا کروں؟‘
ایم ایف حسین اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں: ’گج گامنی کی ریلیز کے کئی سال بعد آرٹسٹ برادری مجھ سے پوچھا کرتی تھی کہ وہ (مادھوری) آج بھی آپ کی پینٹنگز کی زینت کیوں بنی ہے، ہمیں تو آج کل وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ میرا ان کو جواب ہوتا تھا کہ مادھوری نے ڈاکٹر سری رام نینے سے شادی کی ہے اور کولوراڈو چلی گئی ہیں۔ وہ بہت دور ہیں لیکن پھر بھی قریب۔‘
فلم فیئر ایوارڈ کی وہ رات ---
ایم ایف حسین فلم اداکارہ سری دیوی کے بہت بڑے مداح تھے، لیکن انہیں سنہ 1994 میں منعقدہ ’فلم فیئر ایوارڈز‘ کی تقریب میں سال کی بہترین اداکارہ کے ایوارڈ کے لیے ایک ایسی اداکارہ (مادھوری دکشت) کے نام کا اعلان کرنا پڑا جن کی انہوں نے ایک بھی فلم نہیں دیکھی تھی۔
وہ اپنی خود نوشت ’ایم ایف حسین کی کہانی اپنی زبانی‘ میں لکھتے ہیں: ’سال 1994، مقام جوہو سنتور ہوٹل کا سمندری کنارہ۔ فلم فیئر ایوارڈز کی جگمگاتی رات۔ جیا بچن اور پرمیشور گودریج کے ساتھ ایم ایف اس ’ٹنسل ٹاؤن‘ کے شاندار تماشے میں پہنچے۔ بالی وڈ کی جگمگاتی روشنیاں پہلی بار ایم ایف پر پڑیں، چمک اٹھے۔
'سٹیچ پر بلایا گیا۔ سال کی بہترین اداکارہ کے نام اعلان کرنے۔ لفافہ کھولا، نام پڑھا، مادھوری دکشت، پھر کچھ دیر خاموش، کیوں کہ اس نام کی ایکٹرس کی فلم ایم ایف نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ ہاں ’دھک دھک‘ کا بازاری گانا لاؤڈ سپیکر سے کانوں میں پڑتا رہا ہے۔
’ان دنوں ایم ایف کی نظر صرف سری دیوی کے ناچ گانے پر لگی ہوئی ہے، پھر بھی ہمت کی، ایک گہری سانس بھری اور گرج کر کہا --- ’اینڈ دا ایوارڈ گوز ٹو دھک دھک مادھوری دکشت‘ --- تالیاں گونج اٹھیں، مادھوری سٹیج پر آئیں۔ ایم ایف کے نزدیک، آرٹ اور سینما کی ایک جھلک آرٹسٹ اور ماڈل کی پل بھر کی اداکاری، میڈیا کی کلک کلک۔
’لوگوں کی آنکھیں مادھوری اور مقبول پر جم گئیں۔ یہ ہزاروں لاکھوں آنکھیں آرٹ اور سینما کی ان دو انوکھی پرچھائیوں سے آج تک ہٹی نہیں اور ایسا لگتا ہے برسوں تک ہٹ نہیں پائیں گی۔ حالاں کہ ایم ایف اور مادھوری، اس دو منٹ کی اداکاری کے بعد ایک سال تک ملے نہیں اور نہ ہی دونوں کو ملنے کا خیال تک آیا۔‘
ایم ایف حسین نے لکھا ہے: ’آرٹ اور سینما کو تو ایک دن کسی نہ کسی موڑ پر ملنا ہی تھا۔ آرٹ کی عمر پتھر کے زمانے میں غاروں کے اندر بیلوں اور سانڈوں کی تصویروں سے بھی لمبی ہے اور سینما تو کل کی چھوری۔
’ایک دن یہ چھوری لال دوپٹہ لہراتی، مٹکتی بازار سے گزری۔ گنگناتی چلی جا رہی ہے --- ’دیدی تیرا دیور دیوانہ ہائے رام کڑیوں کو ڈالے دانہ‘ --- اچانک ایک پیڑ سے بندھے بیل کو لال رنگ دکھا۔ وہ اپنے بندھن توڑ لال دوپٹے کی طرف لپکا۔ چھوری بھاگ کر سینما گھر کے ہال میں گم ہو گئی۔ ہاؤس فل، فلم کا نام ’ہم آپ کے ہیں کون‘ ایک سال سے چل رہی ہے اور وہی گانا --- ’دیدی تیرا دیور دیوانہ‘ --- پر مادھوری کا ناچ۔ پانچ قدم پیچھے اور کمر کے جھٹکے۔ یہ پانچ قدم ناچ گھر کے نائیکہ کے نہیں بلکہ مندر کی دیوداسی کے۔
’کسی نے ایم ایف سے کہا، تم اس سینما گھر کی نرتکی کو ایک بار دیکھو تو صحیح۔ ایم ایف نے ناک بھنویں چڑھاتے بڑی مشکل سے ٹکٹ لیا۔ ایم ایف کی ہندی فلم صرف ناچ گانے تک۔ بہت پہلے ممتاز کا چلبلا پن اور اس سے پہلے گیتا بالی کی بالی عمریا، ناچ نچنیا اور ابھی ابھی تک سری دیوی کی ’چاندی‘ کا تانڈو جسے دیکھنے ایم ایف نے کوئی 15 بار ٹکٹ کٹایا۔
’اب دیکھیے ایم ایف کا آرٹ کس بری طرح فلم سے ٹکراتا ہے۔ فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ کوئی بڑی فلم نہیں، لیکن اس میں مادھوری ایک بہت بڑی بات ہے۔ اور یہ بہت بڑی بات ایم ایف کو ایسی لگی کہ ہر شام، ہر شہر، ہر ملک، دنیا بھر میں ’ہم آپ کے ہیں کون‘ کے ٹکٹ کٹاتے رہے۔
’لوگ سمجھے کہ ایم ایف سٹھیا گئے ہیں۔ غلط، ایسا ہونا تھا تو 20 برس پہلے ہوئے ہوتے۔ اخباروں کے کالم بھرنے لگے، کہانیاں بننے لگیں، افواہیں پھیلنے لگیں، اگر ایم ایف 30 کے ہوتے اور مادھوری 20 کی تو آگ لگ جاتی۔ آگ لگے یا نہ لگے لیکن ایم ایف مادھوری کو سلور سکرین پر مہینوں دیکھتے رہے اور 100 فٹ لمبے کینوس پر مادھوری سے رنگوں میں باتیں کرتے رہے۔‘
’حسین جی میرا وجود منوا رہے ہیں‘
ایم ایف حسین نے اپنے برش اور رنگوں کی مدد سے مادھوری دکشت کی درجنوں تصویریں بنائی تھیں جن میں سے اکثر ایسی ہیں جن میں مادھوری کا چہرہ واضح نہیں ہے۔
ایم ایف حسین لکھتے ہیں: ’شروع شروع میں مادھوری سے کسی صحافی نے پوچھا کہ یہ حسین کیا ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ ہر پینٹنگ میں بس مادھوری ہے، کہاں ہے؟ چہرہ ہی غائب، کوئی بھی عورت ہو سکتی ہے تصویروں میں۔ تو مادھوری نے جواب دیا --- ’حسین جی میری پہچان نہیں کرا رہے بلکہ میرا وجود منوا رہے ہیں۔‘
’ایک اور عجیب بات، ان دنوں ایم ایف سے پوچھا کہ مادھوری سے ملنا کیوں نہیں چاہتے؟ تو جواب دیا کہ ’سکرین امیج‘ سے جو میری پینٹنگ میں بھارتیہ ناری کا ایک روپ ابھر کر آیا ہے پتہ نہیں اصل زندگی میں وہ ہے کہ نہیں۔
’ایک دن مادھوری کے ہاں سے بلاوا آیا تو ان سے ملنے، گھر گیا۔ گیا تھا چائے پر لیکن صبح کا ناشتہ تو کیا اور شاید دوپہر کے کھانے تک بات پہنچ جاتی، مادھوری کی ’راجہ‘ فلم کی شوٹنگ دو گھنٹے لیٹ ہو چکی ہے۔ چلتے چلتے ایک ایسی بات چھڑی جس نے اس آرٹ اور سینما کے ملن میں جان ڈال دی۔
’جیسا کہ ایم ایف حسین کچھ نہ کچھ ایسی حرکت کرنے سے باز نہیں آتے، جس کی یاد دیر تک چلے، بلکہ حقیقت بن کے سامنے آ جائے۔ ایم ایف کی ایک عادت ہمیشہ ہاتھ میں لمبا برش۔ احمد آباد کے سینما گھر میں ’ہم آپ کے ہیں کون‘ فلم ایم ایف دس پندرہ کالج سٹوڈنٹس کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ جیسے ہی مادھوری سکرین پر آئیں، ایم ایف نے اپنا لمبا برش سکرین کے سٹیج پر پھینکا، جیسے پھول چڑھایا ہو۔
’وہ برش کچھ دنوں بعد تھیئٹر کے مینیجر نے ایم ایف کو لوٹایا اور کہا --- ’تم ہی جب مادھوری سے ملو تو اپنے ہاتھ سے پیش کر دینا‘ --- وہی کیا، پہلی ملاقات پر جاتے وقت وہی برش مادھوری کے ہاتھوں تھمایا تو فوراً مادھوری نے کہا --- ’حسین جی یہ برش میرے پاس چھوڑے جا رہے ہو، دیکھنا ایک دن کہیں میں پینٹنگ نہ کرنے لگ جاؤں‘ --- ایم ایف کی حاضر جوابی بھی کم نہیں، کہا --- ’اگر تم پینٹنگ کرنا شروع کرو گی تو میں بھی پیچھے رہنے والوں میں سے نہیں، ایک دن کہیں تم پر فلم نہ بنا بیٹھوں!‘
’یہ کہا تھا، سات مئی سنہ 1995 کو اور 10 جولائی سنہ 1998 کو محبوب سٹوڈیو میں ایم ایف کی فلم کا مہورت شارٹ دینے کھڑی ہیں، مادھوری دکشت۔ ایک بھارتیہ ناری کے کئی روپ میں، پریم چند کی نرملا، ٹیگور کی ابھی ساریکا، منٹو کی سندھو، کالی داس کی شکنتلا، دال منڈی کی نیترہین (نابینا) سنگیتا، ستارا (مہاراشٹر کا ایک ضلع) کی نور بی بی اور 21 ویں صدی کی مونیکا۔
’بس ’گج گامنی‘ فلم بن گئی، وہ بھی بالی وڈ کے فلم سٹوڈیو میں۔ سب تعجب میں۔ فلم ختم ہونے پر سب سے پہلے یش چوپڑا کا فون آیا اور کہا --- ’بدھائی ہو بدھائی۔ بدھائی فلم بنانے کی نہیں بلکہ بالی وڈ سے صحیح سلامت باہر نکلنے کی۔‘
’گج گامنی‘ کے بعد
ایف ایم حسین اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ’گج گامنی‘ بنانے کے بعد انہیں اپنے اندر کے ’مصور مقبول‘ نے جگایا۔
’جب حسین محبوب سٹوڈیو سے بغل میں فلم ’گج گامنی‘ کے کیم دبائے باہر نکلے تو لوگوں کی ایک بھیڑ۔ بھیڑ میں ایم ایف کو مقبول دکھائی دیا۔
’ایم ایف نے پکارا: ’ارے او مقبول، تُو تو ویسا کا ویسا ہی ہے، پینٹر کا پینٹر ہی، مجھے دیکھ، میرے آس پاس کی بھیڑ۔‘
مقبول: ’دیکھ رہا ہوں، کیا کوئی نیتا (سیاسی رہنما) تو نہیں بن گئے؟‘
ایم ایف: ’نیتا نہیں، ابھینیتا (اداکار) ضرور بن گیا ہوں۔ لوگ مجھے ایم ایف کے کردار میں دیکھنا چاہتے ہیں، جیسے ایم جی آر، این ٹی آر یا آج کل ایس آر کے۔‘
مقبول: کیا آپ سلور سکرین کے سپر سٹار؟‘
ایم ایف: ’نہیں نہیں، سلور سکرین کا نہیں، میری اداکاری سلور سکرین کی دو تین گھنٹوں والی نہیں، میرا رنگ منچ وشال ہائی سوسائٹی کے بھڑکیلے رنگ والا، نان سٹاپ ریویو۔‘
مقبول: ’یعنی ایک لحاظ سے شو بزنس، لیکن یہ بھولنا نہیں کہ تمہارے شو بزنس کے پردے کے پیچھے، مقبول نام کا ایک آرٹسٹ ہمیشہ ہاتھ میں ایک لمبا برش لیے بیٹھا ہے۔‘
ایم ایف: ’بالکل ٹھیک میرے بھائی، میں اس شو بزنس میں کب کا کھو گیا ہوتا اگر تم میرے پیچھے بیٹھے، اپنے برش سے جگاتے نہ رہتے۔‘
مقبول: ’یہ بغل میں کیا دبائے ہو؟‘
ایم ایف: ’گج گامنی۔‘
مقبول: ’اور مادھوری کہاں گئی؟‘
ایم ایف: ’گئی اپنے سسرال۔‘
انہیں دنیا داری سے مطلب نہیں تھا
ایم ایف حسین 2006 میں انتہا پسند ہندوؤں کی دھمکیوں سے تنگ آ کر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے قطر میں جا کر بس گئے۔ تاہم وہ قطر سے برطانیہ اور امریکہ اکثر و بیشتر جایا کرتے تھے اور بالآخر نو جون 2011 کو 95 سال کی عمر میں لندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے۔
غلام نبی خیال لکھتے ہیں: ’جب پردیس میں مقبول فدا حسین کی موت ہوئی تو بھارت میں اس سانحے پر کوئی ماتمی لہر نہیں دوڑی۔ ایک طرف بھارت نے انہیں پدم شری، پدم بھوشن، پدم وبھوشن اور کئی اور اعزازات سے نوازا مگر صد حیف کہ دوسری طرف ان کی خود پر عائد کردہ جلا وطنی کے بعد اس سطح پر ان کی باعزت واپسی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں انہیں پھر وطن واپس آنے کا موقعہ ملتا جہاں کی مٹی سے انہیں بے حد پیار تھا۔‘
مادھوری دکشت نے ایم ایف حسین کے انتقال کے دن بھارتی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’میرا ماننا ہے کہ بھارت نے ایک ہیرا کھو دیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ایک مصور اور عام لوگوں کا سوچنے کا ڈھنگ ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ وہ جان بوجھ کر لوگوں کے جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہتے تھے۔‘
مادھوری دکشت نے سنہ 2019 میں ’دا کپل شرما شو‘ میں ایم ایف حسین پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھیں جنہیں دنیا داری سے کوئی مطلب نہیں تھا۔
’حسین جی کو دنیا داری سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ صرف پیٹنگ میں مصروف رہتے تھے۔ وہ ڈینور میں ایک بار مجھ سے ملنے میرے گھر آئے۔ وہ ایک چھوٹا سا بیگ لے کر آئے تھے۔ آتے ہی مجھ سے کہا کہ کینوس لے آؤ۔ میں نے بولا حسین جی آپ تھوڑا آرام کریں۔
’انہوں نے کہا، مجھے کچھ پینٹ کرنے کے بعد ہی آرام ملتا ہے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ کینوس کے علاوہ رنگ بھی لانے پڑیں گے تو انہوں نے اپنا بیگ کھولا جس میں صرف رنگ ہی رنگ تھے۔ میں نے پوچھا کہ پھر آپ کے کپڑے کہاں ہیں؟ تو بولے جو کپڑے پہن رکھے ہیں وہی کافی ہیں۔‘