بمبئی کے فلم سٹوڈیو میں اس روز عجیب سی گہماگہمی تھی۔ مہمان کے استقبال کی تیاریاں عروج پر تھیں، سٹوڈیو کو سجایا جارہا تھا جبکہ چھوٹی سی تقریب کے لیے سٹوڈیو کے احاطے میں کرسیاں بھی لگا دی گئی تھیں۔
اداکاروں میں بھی خاصا جوش و خروش تھا، یونٹ سٹاف اس بات پر فخر محسوس کررہے تھے کہ ان کی فلم کو یہ اعزاز بخشا گیا۔ ہدایتکار کمال امروہی ان سارے انتظامات کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہیں انتظار تھا کہ کب اس وقت کے وزیر داخلہ لال بہادر شاستری (بعد میں بھارت کے وزیرِ اعظم) ان کے روبرو ہوں گے، انہیں بطور خاص ’پاکیزہ‘ کی عکس بندی کے دوران مدعو کیا گیا تھا۔
کمال امروہی جانتے تھے کہ کانگریسی وزیر داخلہ کے سیٹ پر آ جانے کے بعد فلم کو غیر معمولی تشہیر حاصل ہو گی، اسی لیے ہر ممکن جستجو یہی رہی کہ اداکاروں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی دعوت دی جائے تاکہ وہ اس تقریب کی تشہیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے معاونین کو مختلف ہدایات دینے کے بعد انہوں نے مینا کماری کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ وہ میک اپ کرا رہی ہیں۔
یہ قصہ 1964 کا ہے جب کمال امروہی کی شہرہ آفاق فلم ’پاکیزہ‘ کی عکس بندی کی جا رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب مینا کماری کی فطرت سے قریب تر اداکاری اور مثالی پروقار حسن ہر محفل میں موضوع گفتگو ہوتے۔ مینا کماری دل نشین اداکارہ ہی نہیں بلکہ شاعرہ کے طور پر بھی اپنے حلقے میں شہرت پا گئی تھیں۔ بیجو باورا، آزاد، یہودی، دل اپنا اور پریت پرائی، دل ایک مندر، کوہ نور، صاحب بی بی اور غلام جیسی کامیاب ترین فلمیں ان کی پہچان بنی ہوئی تھیں۔ وہ ایک ایسی اداکارہ تصور کی جاتیں جن کے ساتھ ہر فلم ساز، ہدایت کار اور یہاں تک اداکار کام کرنے کی آرزو رکھتا۔ جو اداکارہ جو اپنی تاثراتی اداکاری سے فلم بینوں کے ذہنوں پر تادیر تاثر چھوڑ جاتیں۔
مینا کماری جانتی تھیں کہ آج ان کے سیٹ پر آنے والا مہمان خاص ہے۔ انہیں سمجھا دیا گیا تھا کہ لال بہادر شاستری کا استقبال کس طرح کرنا ہے۔ عام طور پر مینا کماری ہجوم اور پرستاروں سے دور رہتیں، گوشہ تنہائی پسند تھا۔ زیادہ میل ملاپ سے ہر ممکن طور پر کتراتی تھیں لیکن کمال امروہی کے کہنے پر ہی وہ اس تقریب میں شرکت پر آمادہ ہوئی تھیں۔
سٹوڈیو میں ہلچل مچی تو ہر ایک کو علم ہو گیا کہ جس کا تھا انتظار وہ مہمان آ گیا۔ لال بہادر شاستری سرکاری گاڑی سے اتر کر مختصر سے پروٹوکول کے ساتھ سٹوڈیو کا رخ کر رہے تھے۔ ان کا بھی یہاں آنے کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن مہاراشٹر کے اس وقت کے وزیراعلیٰ وسنتارو نائیک نے اس آمد کو مخالفین کے لیے سیاسی مہم جوئی قرار دے کر ان پر ایسا دباؤ ڈالا تھا کہ شاستری معذرت نہ کر سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مختلف راہداریوں سے گزر کر وہ اس مقام پر پہنچے جہاں انہیں فنکاروں سے بھی ملاقات کرنی تھی تو مینا کماری نے ان کا حسب توقع استقبال کیا۔ ایک حسین مسکراہٹ کے ساتھ مینا کماری نے لال بہادر شاستری کے گلے میں ہار پہنایا تو تالیوں سے فضا گونج اٹھی۔ مہمان خصوصی نے بغور مینا کماری کو دیکھا اور پھر اپنے ساتھ کھڑے صحافی کلدیپ نائر سے دھیمے لہجے میں دریافت کیا کہ ’یہ کون خاتون ہیں؟‘
کلدیپ نائر تو جیسے حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گئے۔ مینا کماری جن کی اداؤں کا ایک عالم دیوانہ تھا، ان کے متعلق بھارتی وزیر داخلہ یہ معلوم کر رہا ہے کہ وہ آخر ہیں کون آخر؟ یہ انکشاف ہی ان کے لیے دلچسپی سے بھی خالی نہیں تھا۔ کلدیپ نائر نے سرگوشی کے انداز میں صرف یہ کہا، ’مینا کماری۔‘ لال بہادر شاستری نے ایک بار پھر چہرے کے تاثرات سے اس بات کو بیان کیا کہ وہ واقعی اس نام سے لاعلم ہیں۔
مینا کماری اس ساری صورت حال سے بے خبر اپنی نشست پر جا کر براجمان ہو گئیں۔ جب لال بہادر شاستری کو دعوت خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تو انہوں نے انتہائی سادگی کے ساتھ کہہ دیا کہ ’مینا کماری جی، مجھے معاف کریے گا، میں نے پہلی بار آپ کا نام سنا۔‘
لال بہادر شاستری کے یہ الفاظ پہلی صف میں بیٹھیں مینا کماری کے لیے حیران کن تھے۔ انہوں نے انتہائی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ مہمان خصوصی کو دیکھنے کے بعد کنکھیوں سے ارد گرد بیٹھے مہمانوں کے تاثرات نوٹ کیے۔ چہرے پر ہلکی سی شرمندگی اور خفت تھی۔ انہیں یہ بات تھوڑی پریشان کن لگی کہ بھارتی وزیر انہیں کیوں نہیں جانتے۔
کلدیپ نائر نے یہ قصہ 2019میں آئی اپنی کتاب ’آن لیڈرز اینڈ آئی کونز فرام جناح ٹو مودی‘ میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہ لال بہادر شاستری کی دیانت داری، سادگی اور بھولپن سے خاصے متاثر ہوئے، جنہوں نے روایتی سیاست دانوں کے برعکس اپنی لاعلمی کا اظہار بھری محفل میں کیا کہ وہ بھارت کی صف اول کی اداکارہ کو نہیں جانتے۔
بھارتی وزیر انہیں جانتے ہیں یا نہیں، اس سے قطع نظر ’پاکیزہ‘ میں مینا کماری نے ایسی دل کو چھو لینے والی فطری اداکاری دکھائی کہ ان کا نام اس کردار کے حوالے سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا لیکن یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جب 1972 میں ’پاکیزہ‘ کی نمائش کے بعد چاروں طرف مینا کماری کی دھوم مچی تھی تو وزیر داخلہ سے بھارتی وزیراعظم بننے والے لال بہادر شاستری چھ سال پہلے تاشقند میں پاکستانی صدر جنرل ایوب خان کے ساتھ ملاقات کے دوران ہی چل بسے تھے، جبکہ مینا کماری اپنی اس شہرہ آفاق تخلیق کی ریلیز کے کم و بیش ایک ماہ بعد ابدی نیند سو گئی تھیں۔