نوشاد صاحب کے ہاتھ میں والدہ کا خط تھا، جس میں انہیں یہ خبر سنائی گئی تھی کہ ان کا اب رشتہ طے کر دیا گیا ہے اور وہ فوری طور پر بمبئی سے لکھنو کا سفر شروع کر دیں۔
انہیں یہ بات خاصی ناگوار لگی کہ ان کی مرضی کے بغیر والدہ نے ان کی شادی کا فیصلہ کیوں کیا، لیکن والد کے مقابلے میں وہ والدہ کے زیادہ قریب تھے اسی لیے اپنی ناراضگی اور خفگی کو دبانے کی کوشش کررہے تھے۔
ان کے سامنے یہ سوال بھی تھا کہ اب انہیں ایک بار پھر لکھنو جانا پڑے گا۔ وہی شہر جسے انہوں نے صرف 18 برس کی عمر میں خیر باد کہہ دیا تھا، جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی، والد واحد علی کورٹ کے کلرک تھے جن کی خواہش تھی کہ بیٹا نوشاد علی پڑھ لکھ کر ان سے زیادہ بلند مقام حاصل کرے۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ نوشاد صاحب کا رحجان تعلیم سے زیادہ موسیقی کی جانب رہا۔ اور بھلا کیسے نہ ہوتا، جب وہ انتہائی کم عمر تھے تو لکھنو سے کم و بیش 15 میل کے فاصلے پر واقع درگاہ شریف پر رشتے داروں کے ساتھ جاتے، جہاں صوفی گلوکار اور قوال جب اپنے فن کا اظہار کر رہے ہوتے تو کم سن نوشاد صاحب کبھی آلات موسیقی کو دیکھتے تو کبھی ان سے نکلنے والی دھنوں کو بغور سنتے۔ گھر واپس آتے تو رات میں نیند کی وادیوں میں جانے سے پہلے یہی دھنیں اور صوفیانہ کلام ان کے ذہن میں گونج رہا ہوتا۔
لڑکپن کی دہلیز کو پار کیا تو دیکھا کہ لکھنو کے ایک مصروف بازار میں استاد غربت علی کی آلات موسیقی کی دکان ہے۔ فرصت ملتی تو ہر روز اس دکان کا نظارہ کرنے پہنچ جاتے۔ وہاں رکھے طبلے، ہارمونیم، بانسری، ستار، وائلن اور دیگر سازو سامان میں انہیں غیر معمولی کشش نظر آتی۔
اب یہ نوشاد صاحب کا جنون اور شوق ہی تھا کہ استاد غربت علی نے روز اپنی دکان کا چکر لگانے والے اس تیرہ چودہ سال کے لڑکے کو اپنے یہاں ملازم رکھ لیا۔ بس پھر کیا تھا، یہ سمجھیں کہ نوشاد صاحب کو تو جیسے خزانہ مل گیا۔ استاد غربت علی جب دکان پر نہ ہوتے تو وہ مختلف آلات موسیقی کو بجا کر اپنا شوق پورا کرنے میں لگ جاتے۔ ایک دن ان کی یہ چوری پکڑی گئی۔ استاد غربت علی نے چوری چھپے جب انہیں ہارمونیم بجاتے سنا۔ نوشاد نے جب اچانک مالک کو اوپر سے آتے دیکھا تو ڈر گئے کہیں نوکری سے نکالا جاؤں۔ مگر استاد نے نوشاد کو اس مہارت سے ہارمونیم بجاتے دیکھا تو ان کا دل باغ باغ ہو گیا۔ انہوں نے خوش ہو کر وہی ہارمونیم نوشاد کو تحفے میں دے دیا۔ یہی نہیں، بلکہ انہوں نے نوشاد کو اپنا شاگرد بنا لیا اور انہیں موسیقی کے گر سکھانے لگے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس عرصے میں نوشاد صاحب نے گھر والوں سے اپنے شوق کو پوشیدہ رکھ کر اس میں مہارت حاصل کرتے گئے۔ یہ راز داری بھی زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہی۔ والد کو پتہ چلا تو ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ ایسے آگ بگولہ ہوئے کہ نوشاد صاحب کے سامنے شرط رکھ دی کہ یا تو وہ اس گانے بجانے کو چھوڑیں یا گھر کو۔ نوشاد صاحب بھی ٹھہرے ضدی جنہوں نے آناً فاناً لکھنو سے ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔ والدہ نے بہت سمجھایا لیکن وہ 1937 میں بمبئی آ گئے۔
اب سات سال بعد ایک بار پھر والدہ انہیں لکھنو بلا رہی تھیں اور ایک ایسی لڑکی سے شادی کرانے کی تیاری ہو رہی تھی، جسے انہوں نے دیکھا بھی نہیں تھا۔ نوشاد صاحب کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ جائیں یا نہیں۔ بمبئی آتے وقت وہ یہ کہہ کر آئے تھے کہ اس وقت تک واپس نہیں آؤں گا جب تک کچھ بن نہ جاؤں۔ خیر یہ نوشاد صاحب یہ بہتر جانتے تھے کہ 1944 میں خود کو بہترین موسیقار بنانے کے لیے انہوں نے کس قدر ان تھک محنت اور لگن کی۔ کبھی فٹ پاتھ پر سوئے تو کبھی کسی فلیٹ کی راہدری میں۔
نوشاد صاحب کام کی تلاش میں پروڈکشن ہاؤسز کی خاک چھان چکے تھے۔ ایک صبر آزما امتحان اور جدوجہد کے بعد استاد جھنڈے خان نے 40 روپے ماہانہ پر انہیں اسسٹنٹ رکھا۔ اس کے بعد استاد مشتاق حسین، کمپوز کھیم چند پرکاش اور پھر اے کے کاردار کی نوشاد صاحب پر خاص مہربانی رہی، جنہوں نے ان کے اندر چھپے ٹیلنٹ کو پہچان لیا تھا۔
پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب نوشاد صاحب مختلف رکاوٹوں، آزمائشوں اور امتحانوں میں سرخرو ہوتے چلے گئے۔ اسی دوران انہوں نے موسیقی کے بنیادی رموز میں ملکہ حاصل کر لیا تھا۔ ان کی موسیقی سے آراستہ فلموں ’پریم نگر،‘ ’درشن،‘ ’شردھا،‘ ’سٹیشن ماسٹر،‘ ’گیت‘ اور ’سنجوگ‘ کے گانے مشہور ہو چکے تھے۔ ان میں سے بیشتر فلموں نے سلور جوبلی مکمل کی تھی۔ اسی طرح فلم ’پہلے آپ‘ کے ایک گانے میں یہ نوشاد صاحب ہی تھے، جنہوں نے محمد رفیع کو کورس گانے میں بریک دیا تھا۔
والدہ کے خط ملنے سے پہلے ان کی فلم ’رتن‘ نے تو ڈائمنڈر جوبلی مکمل کی تھی۔ اس کے گانے ’ساون کے بادلو،‘ ’آنکھیاں ملا کے جیا برما کے،‘ ’او جانے والے بالموا لوٹ کر آ‘ اور ’رم جھم برسے بادلوا،‘ تو زبان زد عام ہو گئے۔
والدہ کی محبت اور احترام میں وہ لکھنو واپس آ گئے تھے لیکن ان پر یہ دھماکہ خیز انکشاف کیا گیا کہ لڑکی والوں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ دراصل نوشاد صاحب اصل میں کیا کام کرتے ہیں۔ سخت تاکید یہ بھی کی گئی کہ کسی سے بھی ذکر مت کرنا کہ تم فلموں کے لیے گانے بجانے کا کام کرتے ہو۔
نوشاد صاحب نے حیران ہو کر والدہ سے دریافت کیا کہ ’آپ نے کیا کہہ کر میرا رشتہ طے کیا ہے؟‘
والدہ نے ایک اور بم ان پر یہ گرایا کہ انہیں بطور درزی کے خود کا تعارف ہر کسی سے کرانا ہے۔
نوشاد صاحب نے بادل نخواستہ یہ بات بھی مان لی اور یوں ان کا بیاہ عالیہ خاتون سے ہونے کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں۔ اب یہ اتفاق ہی ہے کہ نوشاد صاحب کی شادی پر بینڈ باجے والے وہی دھنیں بجا رہے تھے جو انہی کے مشہور گیتوں کی تھیں۔ ایسے میں ان کے خسر جو نوشاد صاحب کے قریب ہی بیٹھے تھے، وہ برے برے منہ بنا کر یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ کون کم بخت آج کل اس قسم کے گانے بنا رہا ہے، جو سب کو برباد کر رہا ہے۔
ادھرنوشاد صاحب سر جھکا کر بس ان کے تلخ جملوں کو سنتے ہی جا رہے تھے۔ ایک طویل عرصے تک نوشاد صاحب کے سسرالی یہی سمجھتے رہے کہ وہ درزی ہی ہیں، یہاں تک کہ ان کی شریک سفر بھی۔ جب وہ عالیہ خاتون کو پہلی بار بمبئی لائے توتب انہیں اپنے اصل پیشے کے بارے میں بتایا۔
عالیہ بیگم نے اس پر کوئی بہت بڑا ہنگامہ کھڑا نہیں کیا، اور ان کے گھر والوں نے بھی اس جھوٹ پر انہیں معاف کر دیا۔ اور کیوں نہ کرتے، کہ اس دوران نوشاد ہندوستان کے سب سے جانے مانے موسیقار بن چکے تھے اور انہیں ’موسیقارِ اعظم‘ کہا جانے لگا تھا۔
عالیہ بیگم سے نوشاد صاحب کے تین بیٹے اور چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ایک بیٹا نغمہ نگار مجروح سلطان پوری کا داماد ہے۔
نوشاد صاحب اپنی شادی کے واقعے پر عموماً یہی کہتے تھے کہ لکھنو میں اس زمانے میں موسیقار کے مقابلے میں درزی کی زیادہ عزت ہوتی تھی۔