میر جان کو خوشی ہے کہ اب اس کو طورخم پر انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا اور افغان اہلکاروں کو رشوت بھی نہیں دینی پڑتی۔ اب وہ اپنے ٹرک پر زیادہ فعال انداز میں آر پار تجارت کر سکتے ہیں۔
ان کا تعلق ننگر ہار کے شنواری قبیلے سے ہے۔ یہ قبیلہ طورخم کے دونوں طرف آباد ہے۔ ان کے والد بھی ٹرک ڈرائیور تھے اور اس کے چار بھائی بھی اب اسی پیشے سے منسلک ہیں۔
وہ اپنے مال کے ساتھ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں اور ان کی منزل اسلام آباد کی سبزی منڈی ہے جہاں انہوں نے ٹماٹر اتارنے ہیں اور وہاں سے آلو یا دوسرا سامان لے کر واپس کابل جانا ہے۔ لیکن کیا وہ واپس آ سکیں گا بھی یا نہیں اس حوالے سے ان کے ذہن میں خدشات موجود ہیں۔
جب سے طالبان آئے ہیں اس وقت سے پاک افغان ٹریڈ میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ اضافہ صرف افغانستان سے آنے والی اشیا میں ہوا ہے، جبکہ پاکستان سے افغانستان جانے والی اشیا میں خاصی کمی دیکھی جا رہی ہے۔
اس کی وجہ افغانستان کی غیر یقینی صورت حال ہے۔ پاکستان کے برآمد کنندگان کو یقین نہیں ہے کہ وہ جو مال افغان تاجروں کو بھیجیں گے اس کے بدلے انہیں رقم مل بھی پائے گی یا نہیں۔
لیکن دوسری طرف افغانستان میں طالبان کی جانب سے کسٹم ڈیوٹیوں میں کمی اور رشوت کے خاتمے کی وجہ سے افغان بر آمد کنندگان کو سہولت ملی ہے جس کی وجہ سے طورخم سے پاکستان آنے والے افغان ٹرکوں میں دگنا اضافہ ہو چکا ہے۔
تاہم طورخم میں موجود ایک کسٹم ایجنٹ کا کہنا تھا کہ افغانستان سے تجارت میں اضافے کا تعلق طالبان سے قطعی نہیں ہے بلکہ یہ موسمی ہے۔
ہر سال اس موسم میں افغانستان سے پھلوں کی تجارت بڑھ جاتی ہے۔ پھر اس سال پاکستان میں ٹماٹر بھی مہنگا ہے جس کی وجہ سے افغانستان سے بڑی تعداد میں ٹماٹر آ رہا ہے۔
میں پہلی بار اپریل 1999 میں طورخم گیا تھا۔ تب روزانہ ہزاروں لوگ سرحد کے آر پار بغیر سفری دستاویزات کے آتے جاتے تھے۔ ہم چند صحافی بھی بغیر ویزا پاسپورٹ کے آسانی سے گزر گئے، لیکن اب کی بار بالکل ایسا نہیں ہے۔
آنے جانے والوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ پاسپورٹ اور نادرا کا عملہ موجود ہے۔ فوج کے اہلکار ہمہ وقت چوکس ہیں۔
افغان شہریوں کو افغان آئی ڈی دکھا کر واپس جانے کی اجازت ہے جبکہ دوسری جانب سے جو پاکستانی اور غیرملکی شہری آرہے ہیں انہیں پشاور کے قرنطینہ سینٹر منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں جو ٹرک ڈرائیور افغانستان سے آ رہے ہیں ان پر کرونا کا کوئی ایس او پی لاگو نہیں ہوتا۔
حیرت کی بات ہے طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد طورخم سے ایک بھی افغان پناہ گزین پاکستان داخل نہیں ہوا۔ طورخم میں موجود ایک سرکاری اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تو ہزاروں افغان پناہ گزین طورخم پر جمع ہو گئے تھے جو پاکستان داخل ہو نا چاہتے تھے لیکن پاکستانی حکام نے انہیں داخلے کی اجازت نہیں دی اور جب طورخم کے دوسری جانب طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا تو انہوں نے تمام افغان شہریوں کو واپس بھیج دیا۔
چونکہ اب سب کو معلوم ہے کہ طالبان کسی کو جانے کی اجازت نہیں دے رہے اس لیے اب طورخم کے پار ایک بھی پناہ گزین سرحد پر موجود نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر کے مطابق گذشتہ سال جب افغانستان کے بیشتر صوبوں میں خانہ جنگی ہو رہی تھی تو بڑی تعداد میں افغان شہری ہمسایہ ممالک منتقل ہو گئے تھے۔
اس ادارے کے مطابق 2020 میں پاکستان میں ساڑھے 14 لاکھ افغان پناہ گزین داخل ہوئے۔ جبکہ ایران میں سات لاکھ 80 ہزار اور ترکی میں ایک لاکھ 29 ہزار افغانوں نے پناہ حاصل کی۔
جبکہ اسی عرصے میں جرمنی، آسٹریا، یونان، فرانس، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، انڈیا، اٹلی، برطانیہ، آسٹریلیا، بیلجیئم اور انڈونیشیا میں پناہ لینے والے افغانوں کی تعداد چار لاکھ 15 ہزار ہے جبکہ تاجکستان اور ازبکستان میں بھی ایک لاکھ سے اوپر افغانوں نے پناہ لی ہے۔
افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے تناظر میں مغربی ممالک نے بڑی تعداد میں افغان شہریوں کو پناہ دی۔
برطانیہ نے ایسے افغان شہری جنہیں طالبان کی جانب سے خطرہ ہو سکتا تھا ان کے لیے ایک خصوصی سکیم متعارف کروائی اور 20 ہزار افغان شہریوں کو پناہ دینے کا منصوبہ شروع کیا اور صرف پہلے سال میں اس سکیم کے تحت پانچ ہزار افغان شہریوں کو پناہ دی گئی۔
امریکہ نے اس سلسلے میں تعدا د تو نہیں بتائی لیکن صدر بائیڈن نے اس مقصد کے لیے 500 ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کینیڈا نے بھی 20 ہزار افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دینے کا اعلان کیا۔ افغانستان کی کل آبادی تقریباً چار کروڑ ہے، جس میں سے تقریباً 50 لاکھ افغانی پہلے ہی دوسرے ملکوں میں پناہ لے چکے ہیں اور مزید خوشحال اور پڑھے لکھے لوگوں کو مغربی ممالک خصوصی فلائیٹوں کے ذریعے کابل سے نکال رہے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں افغان پروفیشنلز اور سرمائے داروں کی افغانستان سے منتقلی افغانستان کی نئی حکومت کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہو گی۔ اگرچہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے مگر افغانستان میں جب تک وسیع البنیاد حکومت قائم نہیں ہو گی۔
افغانستان میں موجود افراتفری برقرار رہے گی اور لوگ ملک سے بھاگتے رہیں گے۔ پاکستان میں ڈالر 165 روپے کی حدوں کو چھو رہا ہے اور پچھلے چھ ہفتوں میں ڈالر کی قدر میں دس روپے سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ بعض ماہرین ڈالروں کی افغانستان میں سمگلنگ بھی بتا رہے ہیں۔
لیکن طورخم میں موجود کرنسی کی لین دین کرنے والے ایجنٹ اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں معمول کا کاروبار جاری ہے۔ افغان کرنسی کی ویلیو میں معمولی کمی ضرور ہوئی ہے۔
پہلے ایک افغانی کے بدلے دو روپے دس پیسے ملتے تھے اب دو روپے ملتے ہیں۔ جبکہ ڈالروں کی خرید بھی معمول کے مطابق ہے۔
پاک افغان سرحد کی طوالت 2640 کلومیٹر ہے جس میں باڑ لگانے کا عمل تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ ماضی کے برعکس اب صرف طورخم، چمن اور سپین بولدک کے کراسنگ پوائینٹس سے ہی مہاجرین کی آمد ہو سکتی ہے۔
فی الحال تو یہ تینوں کراسنگ پوائنٹس پرسکون ہیں۔ عراق، شام اور لیبیا کے تنازعات بتاتے ہیں کہ جب بھی کسی ملک میں خانہ جنگی ہونے والی ہوتی ہے تو پہلے مرحلے میں پروفیشنلز اور خوشحال آبادی کو مغربی ممالک میں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور جب ان کا انخلا مکمل ہو جاتا ہے تو پیچھے رہ جانے والے عام شہریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ عام شہری پھر ہمسایہ ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اس لیے اگر افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک میں بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد ہو سکتی ہے۔ جو طورخم آج پرسکون ہے وہاں آنے والے کل میں حالات خراب بھی ہو سکتے ہیں۔