لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں فیض احمد فیض کے جنازے پر رکشے سے ایک نحیف سا شخص اترا تو لوگ اسے دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ یہ دھاڑیں مار مار کر اپنے یار کی میت پر رو رہا تھا۔ ماضی میں پہلوانی جسامت کا حامل یہ شخص اب بہت بیمار نظر آ رہا تھا اور وہ بار بار یہ کہے جا رہا تھا کہ اگلی باری میری ہے۔
اور یہ بات سچ ہو گئی۔ صرف 13 دن بعد وہ بھی دنیا سے چلا گیا۔ یہ تھے استاد دامن، پنجابی کے مشہور شاعر۔
مسجد مندر تیرے لئی اے
باہر اندر تیرے لئی اے
دل اے قلندر تیرے لئی اے
سکّھ اک اندر تیرے لئی اے
میرے کول تے دل ای دل اے
اوہدے وچ سما او یار
گُھنڈ مکھڑے تو لاہ او یار
مُکدی گلّ مُکا او یار
استاد دامن کا اصل نام چراغ دین تھا اور وہ چار ستمبر 1911 کو اندرون لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد میراں بخش ایک ماہر درزی تھے۔ دامن کو خاندانی پیشے سے کوئی لگاؤ نہ تھا، وہ سکول جانا چاہتے تھے، پڑھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی یہ خواہش تو پوری کرلی لیکن نوکری نہ ملنے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو کر باغبان پورہ میں اپنی درزی کی دکان کھول لی۔
بچپن سے ہی شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے اور دکان کھولنے کے بعد بھی ان کا دل کہیں شاعری میں اٹکا رہتا تھا۔ وہ دکان چھوڑ کر اکثر مشاعرے سننے چلے جاتے تھے۔ اپنے استاد سے متاثر ہو کر آپ نے اپنا تخلص دامن رکھ لیا۔ آپ کے ایک انٹرویو کے مطابق لوگوں نے دامن کو دمدم سمجھ کہ انہیں وہی پکارنا شروع کر دیا۔
شروع شروع میں تو آپ نے محبت اور محبوب پر شعر کہے لیکن جیسے ہی برصغیر کی آزادی قریب ہوتی گئی آپ کی شاعری میں ہندوستان کی سیاست، سامراجی مخالفت اور آزادی سے محبت بڑھتی گئی۔
1930 میں اس وقت کے مشہور کانگریسی سیاستدان میاں افتخار الدین اکثر آپ سے کپڑے سلوانے آیا کرتے تھے، انہوں نے جب آپ کی دکان پر آپ کا کلام سنا تو دنگ رہ گئے اور جھٹ آپ کو کانگریس کے ایک عوامی اجتماع میں اپنا کلام پڑھنے کی دعوت دے ڈالی۔
موچی دروازے کے اس اجتماع سے جہاں آپ کو بھرپور عوامی پذیرائی ملی، وہیں آپ کی سامراج مخالف نظموں پر پنڈت جواہر لال نہرو نے آپ کو ’آزادی کا شاعر‘ کا لقب دے ڈالا۔ یہ وہ دن تھے جب بہت سی سیاسی جماعتیں اپنے جلسوں اور عوامی اجتماعات میں شعرا کو عوام کا لہو گرمانے کے لیے مدعو کیا کرتی تھیں۔
آپ کی شاعری میں بہت تنوع تھا۔ جہاں ایک طرف دامن نے پنجابی ثقافت، معاشرتی برائیوں اور لوک داستانوں کو موضوع بنایا، وہیں تصوف، روایتی موضوعات اور سیاست بھی آپ کے کلام کا اہم جزو رہی۔ فیض نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ ’میں پنجابی میں صرف اس لیے شاعری نہیں کرتا کہ پنجابی میں شاہ حسین وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں۔‘ بلاشبہ استاد دامن پنجابی ادب کا انمول خزانہ ہیں۔
تھک دیئو کوڑا مونہہ کرو مِٹھا
گَلاں مِٹھیاں کرو جہان اندر
ایہہ وستیاں امن امان دسن
پیدا کرو مِٹھاس، انسان اندر
برصغیر کی تقسیم نے آپ کو اندر تک کاٹ کہ رکھ دیا تھا۔ کانگریس سے منسلک ہونے کی وجہ سے لاہورمیں ہونے والے ہنگاموں میں آپ کا گھر جلا دیا گیا اور دکان بھی لوٹ لی گئی، وہیں دوسری طرف آپ کی زوجہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ دامن کے بہت سے ہندو اور سکھ قریبی دوست اور شاگرد بھی ہندوستان چلے گئے۔ الیکن اس کے باوجود آپ نے لاہور کو چھوڑنا پسند نہ کیا۔ اپنا دیس کون چھوڑتا ہے بھلا۔
ان حادثات سے جب آپ پر مالی دباؤ بڑھا تو آپ بہت بُجھے بُجھے رہنے لگے اور اندرون بھاٹی دروازے کے ایک حجرے میں منتقل ہو گئے جہاں مادھو لال حسین بھی مقیم رہ چکے تھے۔ یہاں آپ پوری عمر کتابوں کے بیچ رہے۔ یہی حجرہ دامن کی بیٹھک کہلایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
استاد دامن مزدوروں، مظلوموں، غریبوں اور کسانوں کے شاعرتھے۔ انہوں نے ہمیشہ استحصالی طبقو ں کی مذمت کی اور پسے ہوئے طبقے کا ساتھ دیا۔
آپ کو جب دلی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں بلایا گیا تو آپ کا کلام سن کر لوگ رو پڑے تھے۔ پنڈت نہرو بھی وہاں موجود تھے۔ حب الوطنی کا یہ عالم تھا کہ نہرو نے جب آپ سے ہندوستان منتقل ہو جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو دامن نے جواب دیا: ’اب میرا وطن پاکستان ہے میں لاہور ہی میں رہوں گا بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں۔‘
لیکن اس حب الوطنی کا آپ کو کچھ اچھا صلہ نہیں ملا۔
استاد دامن نے ایوب، بھٹو اور ضیا دور کی سختیاں اور پابندیاں دیکھی تھیں اور ان تینوں ادوار میں آپ نے سیاسی جبر کے خلاف بھرپور مزاحمت کی تھی، جس کا ایک اہم ذریعہ آپ کا کلام تھا۔ آپ کا غم اور اندر کی بغاوت کاغذ پر نکلتی گئی جس سے لاجواب کلام تخلیق ہوا۔
میرے ملک دے دو خدا، لا اِلہٰ تے مارشل لا
اِک رہندا اے عرشاں اُتے، دُوجا رہندا فرشاں اُتے
اوہدا ناں اے اللہ میاں، ایہدا ناں اے جنرل ضیا
واہ بھئی واہ جنرل ضیا، کون کہے تینوں ایتھوں جا
ایک طرف ایوبی دور میں آپ نے قید کاٹی تو دوسری طرف بھٹو دور میں آپ پر بم کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔
بات یہ ہوئی کہ بھٹو دور میں استاد دامن نے حکومت کی پایسیوں پر کچھ نظمیں لکھیں جن میں خاص طور پہ بھٹو کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی گئی تھی کہ ایک طرف وہ بھارت سے ایک ہزار سال تک بھی لڑنے کو تیار تھے جبکہ دوسری جانب وہ اندرا گاندھی سے شملہ معاہدہ کرنے کو بے چین تھے۔
بھٹو کی واپسی پر دامن نے یہ نظم لکھی:
ایہہ کی کری جانا
ایہہ کی کری جانا
کدی چین جانا
کدی روس جانا
بن کے توں امریکی جاسوس جانا
کدی شملے جانا
کدی مری جانا
ایہہ کی کری جانا
ایہہ کی کری جانا
جدھر جانا ایں، بن کے جلوس جانا
دھسا دھس جانا
دھسا دھوس جانا
ایہہ کی کری جانا
ایہہ کی کری جانا
یہ نظم جب عوام میں پھیل گئی تو استاد دامن پر بم کا جھوٹا کیس بنا کر انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کو عدالت میں پیش گیا۔ جب مجسٹریٹ نے آپ سے پوچھا کہ آپ سے پستول اور بم برآمد ہوئے ہیں تو کہا کہ ’میری کوٹھڑی کا ابھی دروازہ چھوٹا تھا، ورنہ وہاں سے ٹینک نکلنا چاہیے تھا۔‘
اس روز کمرہ عدالت میں دانشوروں، وکلا، ادیبوں، شاعروں اور استاد کے مداحوں کا زبردست ہجوم تھا۔
مجسٹریٹ پریشان بار بار ریٹائرنگ روم میں جاتا اور صورت حال گورنر کو بتاتا جبکہ گورنر کی ایک ہی رٹ تھی، ’ضمانت نہیں ہو گی! اس نے صاحب بہادر کی شان میں گستاخ شعر کہے ہیں بھلا یہ شاعری ہے؟‘
وکیل کہہ رہے تھے، ’می لارڈ، استاد دامن جس حجرے میں رہتے ہیں وہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس پر بم کیس ہی نہیں بنایا جا سکتا۔‘
عدالت میں اکبر لاہوری مرحوم نے کہا، ’تاریخ میں یہ محفوظ ہو جانا ہے کس وقت کس حکومت نے کس بندے کے ساتھ کس عدالت نے کیا فیصلہ کیا۔‘
مجسٹریٹ نے استاد دامن سے پوچھا، ’آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘
استاد دامن نے کہا، ’جس نے کٹہرے میں آج مجھے ملزم بنا کر کھڑا کیا ہے کل وہ مجرم بن کر اسی کٹہرے میں کھڑا ہو گا۔‘
اور دنیا نے دیکھا کہ جہاں استاد دامن کھڑے تھے وہیں پھر ذوالفقار علی بھٹو کھڑے نظر آئے۔
فیض احمد فیض نے دامن کی اسی شجاعت و دلیری کی بنا پر آپ کو ’پنجابی شاعری کا حبیب جالب‘ کہا تھا، جو بالکل ٹھیک تھا کہ آپ نے اپنی شاعری میں ڈکٹیٹروں اور سامراجی قوتوں کو للکارا تھا اور ان کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی تھی۔
چاندی سونے تے ہیرے دی کان تے ٹیکس
بیٹھک، ڈیوڑھی، چوبارے، ڈھلان تے ٹیکس
بیٹھے تھڑے تے نالے پہلوان تے ٹیکس
عقل مند تے نالے نادان تے ٹیکس
پانی پین تے روٹی کھان تے ٹیکس
انسان تے ٹیکس حیوان تے ٹیکس
آئے گئے مسافر مہمان تے ٹیکس
انجیل تے ٹیکس قران تے ٹیکس
لگ جائے نہ دین ایمان تے ٹیکس
ایس واسطے بولدا نئیں دامنؔ
متاں لگ جائے میری زبان تے ٹیکس
ان اشعار کو پڑھیں تو آپ محسوس کریں گے جیسے یہ آج ہی کے لیے لکھے گئے ہیں۔
کیس سے چھٹکارہ پانے کے بعد استاد نے لکھنے کی بجائے پڑھنے پر توجہ مرکوز کی اور ادبی تقاریب میں جانا ختم کر دیا۔ آپ کا زیادہ وقت اکیلے اپنی بیٹھک میں گزرتا۔ اس دوران آپ کی طبیعت اوپر نیچے ہوتی رہتی تھی۔ اداکار علاء الدین (جنہیں دامن اپنا منہ بولا بیٹا مانتے تھے) کی موت نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ پھر فیض کی وفات کے بعد ان کی حالت اور خراب ہوگئی۔ آخر کار تین دسمبر 1984 کو 73 سال کی عمر میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو حضرت شاہ حسین کے مزار کے احاطے میں دفنایا گیا۔
اندرون ٹکسالی دروازے جائیں تو ایک مسجد کے نیچے چھوٹا سا کمرہ اپنے پرانے ساز و سامان سمیت نظر آتا ہے یہ استاد دامن کی بیٹھک اور اب دامن اکیڈمی کا دفتر ہے۔
ڈاکٹر کیول دھیر اپنی کتاب ’میں لاہور ہوں‘ میں لکھتے ہیں:
’استاد دامن ہمارے پیر شاعر ہیں ان کی شاعری کے دیوانے دونوں پنجابوں میں ہیں۔ پنجابی ناول نگار فرزند علی کا ناول ’پبھل‘ انہی کی زندگی پر ہے۔‘
ان سے ملاقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہم ان کی بیٹھک پہ گئے تو مقبول نے ان سے ہمارا تعارف کروایا، استاد دامن ایک دم جذباتی ہوگئے اور اندر لے جا کر اپنی چارپائی پر اپنے ساتھ بٹھایا، گلے لگا کر کہنے لگے، ’دنیا میں ہزاروں پیر پیغمبر آئے ہیں۔ سب نے انسانوں کو انسانیت کا درس دیا ہے لیکن کیا بات ہے کہ انسان پھر بھی درندے کا درندہ ہے۔‘
استاد دامن کو خواجہ دامن اور پیرمرشد بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی چارپائی کے نزدیک کتابوں سے بھری ایک میز تھی۔ میز پر رکھا ایک لیمپ روشن تھا۔ دو کرسیاں تھیں۔ اِدھر اُدھر پڑی سینکڑوں کتابیں تھیں۔
باتیں کرتے کرتے استاد نے سرہانے رکھے ایک بڑے لفافے سے کھاجا نکال کر میز پر پڑی پلیٹ میں الٹ دیا کہنے لگے، ’کھاؤ۔‘ ہم سب دانے چنتے گئے اور استاد اپنی زندگی کی باتیں، دیش بدیش کی باتیں کرتے رہے اور پھر اچانک کہنے لگے: ’تم جانتے ہو میں نے گیتا پڑھنے کے لیے سنسکرت سیکھی تھی۔‘
ایک زمانے میں یہاں اپنے وقت کے مشہور و معروف شاعر و ادیب آیا کرتے تھے جن میں احمد فراز، فیض احمد فیض، اداکار محمد علی، ملکہ ترنم نور جہاں اور حبیب جالب جیسے نام شامل ہیں۔
ان کے علاوہ اس بیٹھک کے دروازے عام لوگوں کے لیے بھی کھلے ہوتے تھے۔ استاد دامن اکثر خود سب کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ بہت سے لوگ یہاں اپنے تجربات اور مختلف خیالات ان کو سنانے آیا کرتے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس کے بعد استاد دامن کی یہ بیٹھک لاہور میں علمی و ادبی مجلسوں کی دوسری بڑی میزبان تھی۔
یہ بیٹھک اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ حسین کا حجرہ رہا ہے، جہاں انہوں نے اپنا بہت سا کلام تخلیق کیا تھا۔
آج اس بیٹھک میں حسرت و یاس کا دور دورہ ہے۔ سامان کے نام پر ایک میز، فریج، چند کرسیاں اور ڈھیر ساری کتابیں ہیں جو اس دور میں بھی ہوا کرتی تھیں۔ ایک محراب کے نیچے تخت رکھا ہے جس کے ساتھ بنے شیلف میں سے کتابیں اُمڈ رہی ہیں۔ سامنے کی دیوار پر استاد دامن کا ایک بڑا پورٹریٹ اپنی بہار دکھا رہا ہے جس سے آپ کی شخصیت کی سادگی ٹپک رہی ہے۔
دکان و مکان کو آگ لگنے کے دوران استاد دامن کی کئی کتابیں اور تحریریں بھی نذرِ آتش ہو گئیں جن میں ہیر کا وہ مسودہ بھی تھا جس پر وہ ان دنوں کام کر رہے تھے۔ اس کے بعد آپ نے اپنی تخلیقات کو کاغذ پر اتارنا چھوڑ دیا تھا جس کا نقصان ان کے پڑھنے والوں کو بھی ہوا۔
استاد دامن اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے ان کے چاہنے والوں نے (سائیں اختر اور محمد اقبال جن میں سر فہرست ہیں) ادھر ادھر بکھرے کلام کو یکجا کیا اور ’دامن دے موتی‘ نامی کتاب کی صورت پیش کیا۔ آپ کے دوستوں یونس ادیب مرحوم، کنول مشتاق اور ظہیر اختر نے بھی آپ کے بہت سے کلام کو محفوظ کیا۔
استاد دامن کے کریڈٹ پر کچھ نغمے بھی ہیں، جنہیں 1951 کی فلم چن وے کے لیے نور جہاں نے گایا تھا۔ اس کے علاوہ آپ کے مشہور نغمے ’مینوں دھرتی قلعی کرا دے، میں نچاں ساری رات‘ کو حمیرا چنا نے گایا تھا۔
آج کل دامن اکیڈمی محمد اقبال محمد صاحب کے زیر انتظام ہے جو پیشے سے تو ایک وکیل ہیں لیکن ساتھ ساتھ استاد دامن اکیڈمی کے صدر بھی ہیں۔ آپ سے بات چیت کے دوران استاد جی کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں جاننے کو ملیں۔ آپ ایک مہمان نواز اور قابل شخصیت ہیں۔
کاش کہ ہم اپنے گزرے ہوئے مشاہیر کی یادگاروں کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کے قابل ہو جائیں اور ان کے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ امید ہے کہ حکومت یا والڈ سٹی لاہور اتھارٹی ایک کونے میں موجود اس بیٹھک کی مرمت و بحالی کے بارے میں بھی کبھی ناں کبھی ضرور سوچے گی۔