اٹلی میں مقیم پاکستانی تارکِ وطن امید علی کی اطالوی زبان میں شاعری اٹلی میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکی ہے۔
پیروجا شہر کے پبلشروں نے ان کی دو کتابیں بھی چھاپی ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں بک چکی ہیں۔
امید علی کو بڑی بڑی ادبی محفلوں میں مدعو کیا جاتا ہے، اخباروں میں ان پر مضامین چھاپے گئے ہیں جبکہ اٹلی کے مختلف ٹی وی چینلوں پر ان کے انٹرویوز بھی کیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ اگست کے ’رولنگ سٹون‘ میگزین میں امید علی کا تفصیلی انٹرویو چھپا جس کا عنوان تھا: ’اور اگر اٹلی کا بہترین شاعر پاکستانی ہو؟‘
صحافی جان مارکو آئمی کہتے ہیں کہ ان کا لکھا ہوا یہ آرٹیکل دس لاکھ بار سے زیادہ پڑھا گیا۔
لیکن اس تمام ادبی کامیابی کے باجود امید علی کو اپنی روزی روٹی کے لیے قلم کا نہیں، مزدوری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
امید علی 30 سال قبل 30 سال ہی کی عمر میں اٹلی آئے۔ بہت سارے لوگوں کی طرح ان کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہاں آکر کریں گے۔ بس اپنے مستقبل کو بدلنے کی شدید خواہش تھی اور اپنی موجودہ زندگی کی محرومیوں کے بوجھ تلے اب تھکن محسوس ہو رہی تھی۔
جب امید علی اپنے بچپن کی بات کرتے ہیں تو ان کی یادیں زیادہ خوشگوار نہیں۔ خوشاب کے ایک گاؤں سے میلوں پیدل چل کر سکول جانا، موم بتی کی روشنی میں تختی پر اپنے سبق لکھنا، پروفیسر یا ادیب بننے کا شوق رکھنا اور ساتھ یہ علم بھی ہونا کہ زندگی کے حالات اس کی اجازت نہیں دیں گے۔
چاہے پڑھائی ہو یا بڑے ہو کر کام کا تجربہ ہو، سب ہی کچھ مایوس کن تھا۔ لیکن ایک بات تھی جس پر انہیں ہمیشہ ناز رہا، ’میرے ماں باپ نے مجھے نام بہت اچھا دیا، امید علی۔‘
اٹلی پہنچ کر زیادہ تر تارکین وطن کی طرح انہوں نے بھی وہی کیا، جو سب ہی کرتے ہیں۔ محنت مزدوری کی، کسی بھی قسم کا چھوٹا موٹا کام لے لیا، سڑک پر چلتے ادھر ادھر کان لگائے زبان سیکھی، کبھی اس شہر میں رہ لیے، کبھی اس شہر کا رخ کیا۔
لیکن امید علی باقیوں سے مختلف ٹھہرے۔ اٹلی آنے سے پہلے وہ اردو، پنجابی اور سرائیکی میں شاعری کرتے تھے۔ ان کی زندگی کی مشکلات ان کے تخلیقی سخن کا سرمایہ بن گیئں۔
وہ الفاظ اور اظہار سے محبت کرتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے سامنے ایک اور چیلنج رکھا کہ وہ اطالوی زبان پر اس حد تک مہارت حاصل کر لیں گے کہ وہ اس میں شاعری کر سکیں۔
جو شخص سالوں سے پنجابی اور سرائیکی میں صوفی کلام سے متاثر رہا ہو، اپنی نظموں میں توکل اور مذہب کی بات کرتا آیا ہو، وہ چند سالوں میں ایک اجنبی دنیا میں ایک نئی زبان میں اپنی زندگی کے تجربات اور احساسات پر شعر کہنے کو تیار تھا۔
لیکن ہر زبان کے ضابطے اور قواعد منفرد ہوتے ہیں۔ شاعری کی روایات اور زبان کی نزاکتیں مختلف ہوتی ہیں۔ امید علی نے مجھے یہ بات تفصیل سے سمجھائی۔
انہوں نے کہا، ’اب سرائیکی اور پنجابی شاعری میں تو انسان اپنی غریبی اور ناداری کا ذکر کھل کر کر سکتا ہے۔ اگر اطالوی میں کریں تو وہ ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ کچھ الفاط ہیں جو کم پڑ جاتے ہیں۔ جیسے کاش! کاش کا لفظ میں اطالوی میں کیسے کہوں؟ مجبوری۔ یہ ایک اور ایسا لفظ ہے۔ اس کا صحیح بدل میں اطالوی میں کہاں سے نکالوں؟ مجبوری موت سے بھی بری چیز ہے۔ یہ بات میں سرائیکی اور پنجابی میں تو لکھ سکتا ہوں لیکن اطالوی زبان میں نہیں سمجھا سکتا۔ یا پھر جیسے اگر میں ہاتھوں کی لکیروں کے فلسفے کا ذکر کروں تو اطالوی زبان میں اپنا یہ اردو کا شعر کیسے بیان کروں:
میں الجھ کر اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے امید
ایک مدت سے ہوں اپنے آپ سے روٹھا ہوا۔‘
سچ تو یہ ہے کہ اطالوی زبان میں اپنے آپ سے یوں روٹھ جانا بھی آسان نہیں۔ لیکن یہ ہی امید علی کی شاعری کی خوبصورتی ہے اور اس کا انوکھا پن۔ ان کی سوچ ان کے اپنے ثقافتی تقاضوں سے جڑی ہوئی ہے لیکن ان کا اطالوی زبان میں اظہار، دونوں تہذیبوں کا ملاپ ہے۔ ان کی شاعری اپنی گزری ہوئی زندگی کے تجربے کو نظرانداز نہیں کر پاتی، اگرچہ ان جذبات کا اظہار ایک ایسی زبان میں کرتی ہے جس کی روایت کچھ اور ہے۔
شاید یہ جدید انداز اوروں کو بھی نظر آتا ہے۔ جب امید علی نے ایک دفعہ بھرے مجمے میں اپنی نظم ’نوسٹیلجیا‘ سنائی تو ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کی فرمائش پر ان کو وہ نظم تین دفعہ سنانی پڑی۔ پروفیسر آنسوؤں سے رو پڑے اور امید علی کو گلے لگا کر کہا کہ ’یہ پہلی بار ہے کہ کسی کی شاعری نے انہیں اس قدر بے بس کر دیا ہے۔‘
یہ نظم ہے ہی کچھ ایسی اور اس کا اصل درد سمجھنے والے ہم سب ہیں جو اپنا دیس، اپنا گھر، اپنے ارد گرد کے ہنستے گاتے اور روتے ہوئے لوگ چھوڑ کر ایک اجنبی دنیا کی تنہائی میں اپنائیت کی تلاش میں عمر گزار دیتے ہیں۔ وہ امید علی ہوں، وہ روم کے کلوسیم کے سائے میں پھول بیچنے والا ہو، یا میلان کے عالی شان ریلوے سٹیشن کی دکان کا مالک۔ ہم سب ہی کو ایک ایسی اداسی ہر دم چھیڑتی ہے جس کو ہم نام نہیں دے پاتے۔ امید علی کی نظم بھی اسی جذبے کا اظہار ہے اور اسی تکلیف کے بطن سے پیدا ہوئی۔
ایک شام پلیرمو کے شہر میں امید علی دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد سڑک کے کنارے بیٹھے تھے۔ سامنے ریستوران اور بار تھے، باہر میزیں لگی تھیں اور لوگ جمع تھے۔ امید سامنے بیٹھے دیکھ رہے تھے کہ لوگ آپس میں خوشی سے گپ شپ لگا رہے ہیں، کہیں سے قہقہوں کی آوازیں آتیں، کہیں دو عاشق ایک دوسرے کی آنکھوں میں گم نظر آتے۔ خوشیوں کا شور و غل تھا۔ اس معمول کے نظارے نے سامنے بیٹھے تماشائی کی تنہائی اور اداسی کو اور گہرا کر دیا۔
امید علی اپنی اس کیفیت کا اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن اطالوی زبان میں ان کو مناسب لفظ نہ ملا۔ انہوں نے ساتھ بیٹھے اطالوی لوگوں سے گفتگو چھیڑی اور ایک صحیح لفظ کی تلاش میں اپنی کیفیت بیان کی۔ اطالوی زبان کا اداسی کا لفظ استعمال کیا، پھر سوچا کہ بات نہیں بنی۔ کیوں کہ صرف اداسی نہیں تھی، کسی چیز کی کمی بھی محسوس ہورہی تھی۔ اس پر اہل زبان کی رائے آئی کہ امید کی کیفیت کا درست ترجمان لفظ ’نوسٹلجیا‘ سے بیان ہوتا ہے۔ اس میں اداسی بھی ہے اور ساتھ گزرے ہوئے وقت کی یاد بھی۔
یہ نظم تب اسی رات لکھی گئی اور اس کے بعد امید کے ہر تنہا لمحے کی ساتھی بن گئی۔ ایک لوری کی طرح جس نے اکیلے پن پر مرہم رکھ دے۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ وہ نظم جو کہ اس تنہائی کی تکلیف کو بیان کر رہی تھی، وہ اس قدر پسند کی گئی کہ اس نے امید علی کو دنیا سے جوڑ دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نظم کی کامیابی کا اندازہ امید علی کے ای میل ان باکس سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس میسیجز کا تانتا بندھ گیا۔ لوگوں نے ان کو تعریف بھرے خط بھیجے، حیران ہوئے، سوال پوچھے، کچھ کتابیں خریدیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس ساری واہ واہ کے بعد امید علی نے مجھ سے ایک دن کہا: ’میری روح کو غذا تو ملتی رہتی ہے لیکن ساتھ ساتھ پیٹ بھی غذا مانگتا ہے۔‘
لیکن کبھی کبھی بھوک روح کو مزہ لینے نہیں دیتی۔ جب پیروجا میں امید علی کی ادبی دائروں میں ایک حیثیت بن گئی، ان کی کتابیں چھپ گئیں اور وہ اپنے آپ کو شاعر منوا چکے تو انہیں وہ شہر چھوڑنا پڑا۔ اس شہر میں ان کی عزت تھی، ان کے جاننے والے تھے، لوگ انہیں پہچانتے تھے لیکن پیٹ کی خاطر انہیں طرح طرح کی مزدوری کرنی پڑی اور غربت اور خودداری کے درمیان ایک نئی جنگ نے جنم لیا۔
’میں اپنی خودداری اور غریبی دونوں سے تنگ آ چکا ہوں،‘ امید علی نے ایک دفعہ مجھے بتایا۔ ’دونوں آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ خودداری مجھ سے کہتی ہے کہ اپنی عزت نفس نہ کھونا لیکن غربت کے ہاتھوں خودداری کو مجروح ہونا پڑتا ہے۔‘
یہ کیفیت امید علی کی زندگی میں کئی دفعہ رونما ہوتی ہے۔ تب جب وہ اٹلی کے شہروں میں اپنی کتابیں اٹھائے انہیں بیچنے نکلتے ہیں اور تب جب بڑی نامور شخصیات ان کی تعریفیں اور وعدے کرتے اور پھر نظر نہیں آتے۔ وہ کہتے ہیں: ’جب میں اپنی کتابیں بیچنے نکلتا ہوں تو اپنی انا گھر چھوڑ کر جاتا ہوں۔‘
امید علی نے اپنی کتاب میں اس موضوع پر la povertà e la dignità کے نام سے ایک نظم بھی لکھی ہے۔
امید اپنی شاعری میں اپنی کیفیت کئی مختلف الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ میں ایک بھولی ہوئی چیز ہوں جیسے مجھے کسی نے چھوڑ دیا ہو۔ یا بے جگہ ہوں جو ہر دم کسی تلاش میں ہو۔ حساس کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں، نرم دل بھی۔ وہ دعا گو ہیں اور پر امید بھی۔ محبت کرنے کی آرزو بھی ہے اور چاہے جانے کی بھی۔ ان کا دکھوں پر کوئی پردہ نہیں۔ ان کی شاعری ان احساسات کی عکاسی کرتی ہے جو ان لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہیں جو اپنوں سے دور غیر دنیا میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سرائیکی میں شاعری کرتے کرتے اطالوی زبان میں اپنے ہنر کو منوانا کوئی معمولی بات نہیں۔ معاشرے کے دھندلے، خاردار کنارے پر زندگی گزارتے ہوئے اپنے فن کا اعتراف کروانا آسان نہیں۔
امید علی کی آواز اٹلی جیسے ملک کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے جہاں بڑھتی ہوئی مائیگریشن کے ساتھ ساتھ غیر اطالوی لوگوں سے کھل کر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی۔ اس کیفیت کا لوگوں کو اندازہ نہیں۔ ان کو معاشرے کا حصہ بنانے کا کوئی عزم نہیں۔ ایسے میں جب ایک مائگرنٹ، اطالوی زبان میں شاعری کے ذریعے یہاں کے لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ بات آگے بڑھے۔
ایک دن، امید علی تیار ہو کر اپنے سفید شلوار قمیض میں وینس شہر کی سیر کرنے ٹرین پر چڑھے۔ ان کو عجیب سا لگا جب کسی مسافر نے ان سے حیرانی (یا حقارت کہہ لیں) سے کہا کہ آپ نے تو بڑے صاف کپڑے پہنے ہوئے ہیں جیسے کہ اسے یہ توقع نہیں تھی۔ امید علی نے اپنی نظم ’صاف کپڑے‘ میں اس کا ذکر کیا لیکن اس مسافر کے سامنے اپنا راز فاش نہیں کیا (ترجمہ):
میں ہمیشہ صاف کپڑے پہنتا ہوں
چاہے وہ پیوند زدہ کیوں نہ ہوں
میری خواہشوں کی طرح
امید علی کی ایک اور نظم کا ترجمہ دیکھیے:
بوریت
میں اپنی زندگی بیچ رہا ہوں
ایک اداس معاشرے میں
جہاں سورج کا کوئی رنگ نہیں
پھولوں میں خوشبو نہیں
اور لوگوں کا دل نہیں
کسی کو دیکھنے کے لیے وقت نہیں ہے
کسی کو سننے کا وقت نہیں ہے
میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں
میں کس طرح اپنے درد کو ظاہر کروں
اس خود غرضی کی فضا میں
جہاں اس قدر شور ہے