فروغ زاد اور پروین شاکر: ایک جیسی شاعری، ایک جیسی زندگی

خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کی برسی کے موقعے پر خصوصی تحریر۔

فرخ زاد اور پروین (فیئر یوز)

کہتے ہیں جس وقت باغی ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد کو قبرمیں اتارا جا رہا تھا اچانک برف باری شروع ہو گئی۔ فروغ کی ماں نے برفباری دیکھ کر گریہ کیا اور بولی، ’فروغ میری جان دیکھ تو برف سے کس قدر محبت کرتی تھی، آنکھیں تو کھول یہ برف باری تیرے لیے ہو رہی ہے۔‘

26 دسمبر 1994 کی ایسی ہی ایک سرد شام تھی جب اردو شاعری کو تغزل اور نسائی وقار بخشنے والی خوبرو شاعرہ پروین شاکر ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو گئیں۔

پروین کی تدفین کے وقت برف تو نہیں ہوئی لیکن سرد ہوا کے ساتھ بارش کی گرتی بوندیں بتا رہی تھیں کہ سپرد خاک ہونے والی کا اس موسم سے عشق پرانا تھا۔

پروین شاکر اور فروغ فرخ زاد دونوں ہی نے اپنے اپنے زمانے میں اپنے اسلوب اور روایت سے ہٹ کر شعر کہے اور یوں اپنے عہد کی ادبی فضا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ پروین کا عہد سخن بلا شبہ  داستان اردو ادب کا رسیلا  اور پر جمال باب ہے۔

دونوں کی شاعری معاشرے میں عورت کے لیے ناہموار اور غیرمتوازن رویوں کی آئینہ دار ہے۔ اسی ناہمواری اور اس کے نتیجے میں ان کے دل و دماغ کو پیش آنے والے جذباتی صدموں کے شدید رد عمل کے طور پر سامنے آئی۔

 یہ بات حیرت انگیز ہے کہ نہ صرف دونوں خواتین شاعرات کی زندگی کے معاملات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے بلکہ جب دونوں کی شاعری کا تجزیہ کیا جائے تو اپنی اپنی زندگی کے تجربات پر ان کارد عمل بھی یکساں طورپر ایک جیسا  نظر آتا ہے۔

البتہ ایک فرق جو مجھے نظر آتا ہے وہ لہجے کی تلخی یا مٹھاس کا فرق ہے۔ فرخ فروغ زاد کے شعر کی زبان نسبتاَ تند و تیز ہے جبکہ پروین شاکر کا لب و لہجہ دھیما اور کومل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروین شاکر بھی آزادی نسواں کی علم بردار تھیں اور فروغ فرخ زاد بھی۔ ان دونوں کو اپنے عورت ہونے پر فخر تھا اور دونوں نے ہی سماج کے رائج کردہ اصولوں اور راستوں سے ہٹ کر زندگی گزاری۔ فروغ اپنی شعروں میں بے باکانہ کہتی تھی کہ عورت کوجذباتی اور معاشی ہر طور پر مرد کی بالا دستی ختم کرنی ہو گی۔ اس نے ایک مدت سے بے زبان ایرانی عورت کو احتجاج کرنا سکھایا۔

پروین شاکر نے یہی احتجاج زیر لب بھی کیا اور کھل کر بھی۔ اپنے مجموعہ کلام صد برگ میں اپنی نظم

’تو برمن بلاشدی‘ میں پروین کہتی ہیں:

شام کے ڈھل جانے کے بعد
جب سایہ اور سایہ کناں دونوں بے معنی ہو جاتے ہیں
میں مکروہ ارادوں والی آنکھوں میں گھر جاتی ہوں
اوراپنی چادر پر تازہ دھبے بنتے دیکھتی رہتی ہوں
کیونکہ مجھے ایک ہزار راتوں تک چلنے والی کہانی کہنا نہیں آتی
میں آقائے ولی نعمت کو خود اپنی مرضی بھی بتانا چاہتی ہوں

فروغ اپنی نظم ’تنہا صدا است کہ می ماندا‘ میں کہتی ہیں:

نامردوں نے اندھیرے میں اپنی نامردی کوچھپا رکھا ہے
جب ایک چھوٹا سا کیڑا تک کلام کرتا ہے
تومیں کیوں صدائے احتجاج بلند نہ کروں
میں درختوں کی نسل سے ہوں
تھکی ہوئی ہوا میں سانس لینا مجھے ملول کردیتا ہے

پروین اور فرخ زاد  نے بہت کم عمری سے شعر کہنا شروع کیے۔ جب فروغ فرخ زاد کا پہلا مجموعہ ’اسیر‘ شائع ہوا تب ان کی عمر محض 17 برس تھی۔ پروین شاکر 15 برس کے سن سے شعر کہنے لگی تھیں اور جب وہ صرف 24 برس کی تھیں تو ان کا پہلا مجموہ کلام ’خوشبو‘ منظر عام پر آیا۔

ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں شروع سے شعر کا ردم اپیل کرتا تھا اور لگتا تھا کہ یہ موسیقی کہیں ان کے اندر بھی موجود ہے۔

پروین شاکر اور فرخ زاد دونوں ہی کے محبت کے تجربات ناکام رہے جس کے رد عمل میں یہ دونوں شاعرات دنیائے ادب کو بہترین شاعری دے گئیں۔

دونوں کی ازدواجی زندگی ناکام رہی اور طلاق پرمنتج ہوئی۔ دونوں ہی کو قدرت نے بیٹے کی نعمت عطا کی۔ یہاں فرق اتنا رہا کہ فروغ فرخ زاد کا بیٹا اس سے چھین لیا گیا اور وہ مرتے دم تک اس کی صورت نہ دیکھ سکیں جبکہ پروین شاکر نے اپنے بیٹے کی تربیت اور پروش خود کی۔ یہ الگ بات کہ ان کی جواں مرگی نے انہیں بیٹے کو جوان ہوتے دیکھنے کاموقع نہیں دیا۔ یہاں بھی دونوں کے درمیان یہ نکتہ مشترک رہا۔

شاید پروین شاکر کا فروغ فرخ   زاد سے قلبی و روحانی ربط اتنا گہرا تھا کہ ان کی زندگی کسی حد تک فروغ کی زندگی کی ہی بازگشت لگتی ہے۔

پروین نے اس معتوب اور بے باک ایرانی شاعرہ کے لیے ایک نظم بھی کہی:

مصاحب شاہ سے کہو کہ
فقیہہ اعظم بھی آج تصدیق کر گئے ہیں
کہ فصل پھر سے گناہ گاروں کی پک گئی ہے
حضور کی جنبش نظر کے
تمام جلاد منتظر ہیں
کہ کون سی حد جناب جاری کریں
تو تعمیل بندگی ہو
کہاں پہ سر اور کہاں پہ دستار اتارنا احسن العمل ہے
کہاں پہ ہاتھوں کہاں زبانوں کو قطع کیجئے
کہاں پہ دروازہ رزق کا بند کرنا ہوگا
کہاں پہ آسائشوں کی بھوکوں کو مار دیجے
کہاں بٹے گی لعان کی چھوٹ
اور کہاں پر
رجم کے احکام جاری ہوں گے
 

دونوں شاعرات کو بے پناہ قبول عام نصیب ہوا۔ دونوں ہی اپنی نسائی حیثیت سے وفا دار رہیں۔

زندگی کے اہم معاملات میں مماثلت رکھنے والی ان فطین شاعرات نے ایک مختصر زندگی گزارنے  کے بعد موت کا انداز بھی ایک سا چنا۔ دونوں نے سرد موسم میں ٹریفک کے حادثوں میں اس دنیا سے رخصت لی جس کے حسن کو وہ اپنی آنکھوں میں بھر بھر کے اپنے شعروں کے ذریعے امر کیا کرتی تھیں۔

ایرانی عورت کے گونگے پن کو لہجہ و آوازو تب تاب فروغ فرخزاد نے بخشی اور برصغیر کی عورت کی چپ کو پروین کی شاعرانہ خلاقیت نے توڑ ڈالا۔

فروغ عمر کے ساتھ ساتھ شاعری میں آفاقیت کی جانب بڑھتی چلی گئیں اور اسی طور پروین شاکر بھی اپنا سفر خوشبو کے کچے لیکن دلبر لہجے سے آغاز اور انکار کے بلند اور پراعتماد آہنگ پر اختتام کیا۔

پروین نے کہا:

اک چمک سی تو نظر آئی ہے اپنی خاک میں
مجھ پہ بھی شاید توجہ کی نظرہونے کو ہے

تو فروغ نے اپنی معرکتہ الآراٰ نظم ’افتاب می شود‘ میں لکھا:

زمین کو اپنی چھوڑ کر
عبور کرکے آسماں کی منزلیں
میں کتنی دور آ گئی
ہزارکہکشاں لیے
نشاط جاوداں لیے
اب آ گئی ہوں میں تو میرے ساتھ تو بھی آ

پروین اور فرخ زاد دونوں آسمان سخن پر طلوع ہونے والے وہ ستارے تھے جن کے اندر کی ابدی شعلگی نے انہیں آفتاب سا روشن کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ادب