کیا ہندو قوم پرستی کی بنیاد ایک ملحد نے رکھی تھی؟

بھارت میں ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے رجحان کی جڑیں دراصل بیسویں صدی کے اوائل میں موجود ہیں، جب ہندوستان برطانیہ کی نوآبادیاتی سلطنت کا حصہ تھا۔

 بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت میں ساورکر کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں (کری ایٹو کامنز)  

انڈیا کی بطور سیکولر ریاست شناخت خطرے میں ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو نواز قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں 20 کروڑ مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تیز تر ہو رہا ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران گائے کے نام نہاد محافظ جتھوں نے مسلمانوں پر گائے کا گوشت کھانے کی وجہ سے متعدد حملے کیے ہیں۔

ان کے خیال میں مسلمان جان بوجھ کا ’گئوہتیا‘ کر کے ان کے مذہبی جذبات کی توہین کرتے ہیں کیوں کہ گائے ہندوؤں کے نزدیک مقدس جانور ہے۔

حکمران جماعت نے آزادی اظہار کے راستے بھی بری طرح مسدود کیے ہیں۔

ان اقدامات پر فکرمند ہاورڈ، سٹینڈ فورڈ، پرنسٹن اور کولمبیا سمیت 53 امریکی یونیورسٹیوں نے مل کر ستمبر 2021 میں ایک تین روزہ کانفرنس ’ہندوتوا کی تفہیم‘ (Dismantling Hindutva) منعقد کی جس میں ماہرین نے ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تبادلہ خیال کیا۔

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں جمہوریت خطرے میں ہے۔

 جنوبی ایشیائی محقق کے طور پر میرے خیال میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہندو شناخت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی جڑیں دراصل بیسویں صدی کے اوائل میں موجود ہیں، جب ہندوستان برطانیہ کی نوآبادیاتی سلطنت کا حصہ تھا۔

نوآبادیاتی نظام کے خلاف ایک انقلابی ونایک ساورکر نے سب سے پہلے 1923 میں ہندوتوا کی اصطلاح ایجاد کی جس کا ڈھیلا ڈھالا ترجمہ ’ہندویت‘ یا ’ہندوپن‘ (Hindu-ness) کیا جا سکتا ہے۔ اس نظریے نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کا مقامی باشندہ چاہے وہ ہندو نہ بھی ہو وہ ’مدر انڈیا‘ کے جغرافیے، زبانوں اور مذاہب کو بآسانی دل سے  قبول کر سکتا ہے۔

مذہبی تحریک جو ایک ملحد سے متاثر ہوئی

ساورکر ایک ملحد تھے جو سیاسی مقاصد کے حصول میں مذہب کے استعمال کے علاوہ اس میں بہت کم دلچسپی رکھتے تھے۔ 1910 میں برطانوی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کرزن وائلی کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے جرم میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

دوران قید ہی ساورکر نے اپنا ابتدائی مقالہ تحریر کیا ’ہندوتوا: ایک ہندو کسے کہتے ہیں؟‘

ہندو قوم پرستی کے موضوع پر مشہور ترین محققین میں سے ایک کرسٹوف جیفریلوٹ کہتے ہیں کہ ساورکر کا کام ’ہندو قوم پرستی کا پہلا منشور‘ تھا۔ ساورکر نے ہندوستان کے مقامی مذاہب کو عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی جنہیں بیرونی حملہ آور سمجھا جاتا تھا۔ 

اس وقت ساورکر برصغیر کو مہا ہندو راشٹر یا ایسی قوم کہنا چاہتے تھے جو ایک مشترکہ جغرافیہ، مذہب اور ثقافت رکھتی ہے۔ بدھ مت، جین اور سکھ جیسے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو بس  ہندو ثقافت کو خراج عقیدت پیش کرنا اور وسیع ہندوتوا دھارے کے اندر ایک قومی شناخت قبول کرنا ہو گی۔ یہی گنجائش مسلمانوں اور عیسائیوں جیسے ’غیر ملکیوں‘ کے لیے ہو گی بشرطیکہ وہ اپنی حکمرانی مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں۔

پہلے پہل ہندو شناخت کے تصور میں مذہبی عقیدے کا رنگ شامل نہ تھا۔ اس کے بجائے اس میں شناخت کی بنیاد نسل اور قوم پرستی کے تصورات پر رکھی گئی۔

پوری اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی اور ہندوستان میں مسلم برادری کو متحد کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے والی 1919 کی پان اسلامی مہم تحریک خلافت نے ساورکر کو بنیاد پرست بنا ڈالا۔

ساورکر کے مطابق اس دور میں ذات پات پر مبنی تقسیم شدہ ہندو برادری کے مقابلے میں ہندوستانی مسلمانوں کا اتحاد ایک خطرہ تھا اور اسی خطرے کے پیش نظر 1921 میں ایک سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا قائم کی گئی جس میں ساورکر ایک سرکردہ شخصیت تھے۔

جیل سے رہائی کے بعد ساورکر کی بیان بازی کا دائرہ محدود ہو کر مسلمانوں تک رہ گیا اور اس طرح ان کی مسلم دشمنی مزید سخت ہوگئی۔

موت سے کچھ عرصہ پہلے ہی لکھی گئی اپنی کتاب ’چھ شاندار عہد‘ (Six Glorious Epochs) میں ساورکر کہتے ہیں کہ مسلمان اور عیسائی مل کر ہندو مذہب کو ملیا میٹ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنا یہ نقطہ نظر بھی پیش کیا کہ ہندوستان کو ویسی ہی آمرانہ حکومت قائم کرنی چاہیے جیسی مطلق العنان حکومت جنگ عظیم دوم کے دوران جرمنی، جاپان اور اٹلی میں تھی۔  

ساورکر کا یہ بھی ماننا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج میں مسلمان ممکنہ طور پر غدار ثابت ہو سکتے ہیں اور ان کی تعداد کا بھی جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔

ساورکر کے خیالات معاصر ہندو قوم پرستی کی بنیاد بنے۔

قوم پرستی کا نیا سایہ

1925 میں ایک اور رہنما کے بی ہیج وار بمبئی کے قرب و جوار سے ابھرے اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کی داغ بیل ڈال دی۔ آج کی حکمران جماعت بی جے پی، آر ایس ایس کے تنظیمی ڈھانچے ہی کا ایک حصہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1940 کی دہائی تک آر ایس ایس کے بنیادی رضا کار اراکین کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی۔ آج اس کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے۔ مودی کی زیر قیادت ہندو قوم پرستی کو سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کیا گیا اور ہندو قوم پرست اب حکومتی کابینہ اور وزارتوں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔

بطور سیاسی جماعت آر ایس ایس دو بار پابندی کی زد میں آئی۔ پہلی مرتبہ اس وقت جب مہاتما گاندھی کو 1948 میں آر ایس ایس کے سابقہ رکن ناتھورام گوڈسے نے قتل کیا تھا۔ دوسری مرتبہ ماضی قریب میں 1992 کے دوران شمالی ہندوستان کے شہر ایودھیہ میں ایک مقدس مقام بابری مسجد کے انہدام کے بعد۔

مسجد کی مسماری کے نتیجے میں ملک گیر فسادات پھوٹ پڑے جہاں ایک ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر گئے جن میں بیشتر مسلمان تھے۔ ہندو قوم پرستوں کا دعوی ہے کہ یہ جگہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے متنازع مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔

پہلی پابندی کے بعد آر ایس ایس اور مہاسبھا نے 1951 میں بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی جو موجود بی جے پی کی پیشرو تھی۔ جن سنگھ تمام اقلیتوں کو ایک متحد ہندو قوم میں ضم کرنے یا انہیں ’ہندوستانی بنانے‘ کے نعرے کو لے کر چلی۔

 صدیوں سے ہندوؤں کی اکثریت مسلمانوں کو ایک اور نسلی گروہ یا جنوبی ایشیا کی ذیلی ذات کے طور پر سمجھتے تھے نہ کہ باہر سے آنے والے ایسے خطرے کے طور پر جس سے بچنے کی ضرورت تھی۔ لیکن ساورکر ایسا نہیں مانتے تھے۔ وہ مختلف ہندو گروہوں کے درمیان اندرونی طور پر ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے تھے تاکہ کسی بھی بیرونی حملے کے خلاف اپنا دفاع کر سکیں۔

ساورکر کی تحریریں ہی بی جے پی کے 2014 کے منشور کی بنیاد تھیں جس نے جماعت کا مقصد ہندو قوم کے ’متروک تصور‘ کو ایک لڑی میں پرو دینا قرار دیا۔

ہندوستانی آئین سیکولرزم کی بات کرتا ہے لیکن 2019 میں بی جے پی کی دوبارہ جیت اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر انڈیا ایک بنیادی تبدیلی سے گزر رہا ہے اور ہندو شناخت اپنا رہا ہے۔

متوقع طور پر 2024 کے اگلے پارلیمانی انتخابات سے پہلے رام مندر کی تعمیر مکمل ہو جائے گی۔ میرے خیال میں مسلمان کی عبادت گاہ کو گرا کر اس پر مندر تعمیر کرنا اور جشن منانا ہندوستان میں تبدیلی کا اظہار ہے۔

----

نوٹ: یہ تحریر ’دا کنورسیشن‘ سے لی گئی ہے اور ان کی اجازت سے یہاں چھاپی جا رہی ہے۔ اس کی مصنفہ صبا ستار واشنگٹن ڈی سی میں دی انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ پالیٹکس میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ