یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
’اگر آپ نے ہندتوا پالیسی پر، خصوصاً کشمیر پالیسی پر حکومت بھارت پر تنقید کرنے کی کوشش کی تو آپ کو نہ صرف اپنے پیشے سے ہاتھ دھونا پڑے گا بلکہ ’ملک دشمن‘ بنا کر آپ کو اپنی زندگی کی بھیک مانگنی پڑے گی۔‘
یہ خیالات ہیں کرناٹک کے ایک معروف دانشور، صحافی اور مصنف کے جو سرکاری دھونس دباؤ کی وجہ سے اتنے خوفزدہ ہوگئے ہیں کہ وہ اب لکھنے سے کیا، بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔ گوری لنکیش، ڈبولکر، کلبرگی، شجاعت بخاری اور بابر قادری کی پر اسرار ہلاکت نے انہیں ہلا کے رکھ دیا ہے۔ میں نے ان سے کشمیر میڈیا کو ہراساں کرنے کی حالیہ کارروائیوں پر جب بات کرنا چاہی تو انہوں نے چند جملے کہہ کر معذرت کر لی اور فون رکھ دیا۔
یہ حالات ہیں ان قومی صحافیوں کے جنہوں نے ہندتوا کے ترجمان بننے سے انکار کیا اور اس سے بدتر حالات جموں و کشمیر میں ہیں جہاں سیاست سے لے کر میڈیا تک پر سکیورٹی کے نام پر اتنے پہرے بٹھا دیے گئے ہیں کہ جو بھی اپنے ضمیر کی آواز کو لبیک کہنے کی ہمت کرتا ہے اس کی آواز کو دبانے کے لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں کہ آمرانہ نظام بھی ان سے شرما جاتا ہے۔ عالمی سطح پر بیشتر میڈیا انجمنوں نے یہ سوال کرنا شروع کر دیا ہے کہ کیا بھارت کو اب جمہوریت اور سیکولر ملک کہنا چاہیے؟
کشمیر میں الیکٹرانک میڈیا ہمیشہ سے حکومت کے کنٹرول میں رہا ہے۔ ایک دہائی قبل جب بھارت کے مختلف شہروں میں ایف ایم ریڈیو کی بھرمار ہوئی تو کشمیر میں کسی مقامی صحافی یا پبلشر کو اس کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ممبئی اور دیگر شہروں کے میڈیا اداروں کو کشمیر میں ایف ایم ریڈیو سٹیشن چلانے کے لیے سہولیات فراہم کیں۔
نوے کی دہائی تک پرنٹ میڈیا پر کشمیری پنڈتوں کا خاصا اثر تھا اور چند گنے چنے مسلم صحافی بچ بچا کے کشمیر پر قلم زنی کرتے تھے مگر مسلح تحریک کے بعد جب بیشتر پنڈت تشدد کے باعث کشمیر چھوڑ کر چلے گئے، مقامی مسلمانوں نے بیشتر اخبارات اور میگزین کی ادارت سنبھال لی۔
جموں سے شائع ہونے والا ’کشمیر ٹائمز‘ واحد اخبار تھا جس کا دفتر سری نگر میں بدستور قائم رہا۔ اس میں پہلے دن سے ہر مکتب فکر سے وابستہ دانشوروں اور صحافیوں کو اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کیا جاتا تھا۔ ایڈیٹر اور مالک وید بھسین نے ہر اس شخص کے لیے اخبار کو وقف رکھا تھا جو جموں و کشمیر میں حالات کو بہتر بنانے، مسئلے کے پرامن حل اور ریاست کی سالمیت سے متعلق مربوط پالیسیاں ترتیب دینے پر رائے عامہ ہموار کرنے کی جانب منظم کوشش ثابت ہوتی۔
وید بھسین کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی انورادھا بھسین اخبار کی مالک بن گئیں جنہوں نے ناصرف اخبار کی غیرجانبدارانہ پالیسی کو برقرار رکھا بلکہ ہندوتوا پالیسیوں کی کھل کر مزاحمت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھا۔ گذشتہ برس کے اندرونی خود مختاری ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کے بعد میڈیا کو دبانے کی پالیسیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ اس کی پاداش میں پہلے جموں میں ان کے کوارٹر اور اب کشمیر میں ان کے دفتر کو سیل کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام کی عوامی اور سیاسی حلقوں نے سخت مذمت کی ہے۔
انورادھا بھسین کٹر ہندوؤں کی بوکھلاہٹ کو پہلے ہی بھانپ گئی تھیں اور ان کارروائیوں کے لیے خود کو تیار کر رہی تھیں۔ میں نے فون پر جب انورادھا سے اس کی تفصیل پوچھنا چاہی تو ان کی کھل کھلا کر ہنسی سے مجھے ذرا سی تسلی ہوئی۔ وہ ہنسی کے بعد کہنے لگیں کہ ’ان اخباروں اور صحافیوں کو ہراساں ہونا ہوگا جو سرکار کے دھونس دباو کے باوجود جرنلزم کے بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کرتے اور عوام کو سچائی سے باخبر رکھنے کا رسک لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم نے جس پالیسی کوغلط سمجھا اس کے خلاف نہ صرف لکھا بلکہ عدالت سے اس پر نظرثانی کرنے کی اپیل بھی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کون سی پالیسی ہے کہ حکومت ڈکٹیٹر بن کر اخبارات اور صحافیوں کے ٹیلیفون بند کرے گی، انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرے گی اور ہمارے اخبارات میں کیا شائع ہوتا ہے اس کی پہلے پروف ریڈنگ کرے گی۔ ہمارے بعض صحافیوں نے آمر اور جابر پالیسیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے لیکن کشمیر ٹائمز کبھی ایسا نہیں کرے گا اور اپنی جنگ جاری رکھے گا۔‘
کشمیر ٹائمز سے پہلے مقامی خبر رساں ایجنسی کے این ایس کا دفتر بند کر دیا گیا جبکہ بیشتر صحافیوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے کبھی ان کو تفتیشی مراکز طلب کیا جاتا ہے تو کبھی ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جاتی ہیں اور چند صحافیوں کو پابند سلاسل بھی کردیا گیا جن میں آصف سلطان، کامران یوسف اور قاضی شبلی شامل ہیں۔
چند ہفتے قبل اگست میں قاضی شبلی کو رہا ک ردیا گیا۔ شبلی کو حراست میں لینے کی وجہ شوپیان کا وہ جعلی انکاونٹر تھا۔ اس مقابلے کی انہوں نے پہلے دن سے خبر دی تھی کہ اس فوجی کارروائی میں راجوری کے تین معصوم شہریوں کو ’دہشت گرد‘ کہہ کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر تحقیقات کے بعد صیح ثابت ہوئی۔
قاضی شبلی کہتے ہیں کہ بی جے پی کشمیر میں میڈیا کو اپنا ترجمان بنانا چاہتی ہے مگر اس کو سمجھنا چاہیے کہ ہر کوئی ارناب گوسوامی نہیں بن سکتا ہے۔
’2014 سے ہی بی جے پی نے میڈیا کو اچھے اور برے میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر آپ پارٹی کی پی آر مشین بننے پر تیار ہیں تو آپ کو آگے بڑھنے میں کوئی نہیں روک سکتا۔ انورادھا ایسے چند صحافیوں میں سے ہیں جنہوں نے میڈیا دبانے کی پالیسی پر خاموشی اختیار نہیں کی اور کشمیر میں میڈیا کو درپیش چیلنجز پر کھل کر آواز اٹھائی۔ کشمیر میں ویسے بھی جرنلزم کوئی آسان پیشہ نہیں ہے مگر دھونس اور دباؤ کی نئی پالیسیوں سے ہم کس قدر جھوج رہے ہیں اس کا ادراک صرف یہاں کے صحافیوں کو ہے۔ فہد شاہ، مسرت زہرا اور پیرزاد عاشق جیسے درجنوں صحافی اس مصیبت کو سہہ رہے ہیں۔ میں نے سچائی لکھنے پر دو بار جیل کاٹی ہے اور ان سختیوں سے روز روز گزرتا ہوں۔‘
کشمیری میڈیا پر بندشیں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کی سرکاری پالیسیوں کی کئی عالمی اداروں نے شدید لفظوں میں مذمت کی ہے مگر ان اداروں کو اپنی ٹیمیں کشمیر بھیج دینے پر دباؤ ڈالنا ضروری ہے تاکہ کشمیر کی وہ حقیقت بھی منظر عام پر آ سکے جس کو دبانے کے لیے نئے قوانین لاگو کرنے کا سرکاری سلسلہ جاری ہے۔